0
Tuesday 25 Sep 2018 15:01

چین روس تعلقات اور امریکی پابندیاں

چین روس تعلقات اور امریکی پابندیاں
تحریر:ُ ڈاکٹر ندیم عباس

بچپن سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ امریکہ نے فلاں ملک پر پابندیاں لگا دیں، فلاں کی ناکہ بندی کر لی، فلاں فلاں شخصیات کے اثاثے منجمند کر دیئے اور جانے کیا کیا؟ دوسری جنگ عظیم کے بعد بالعموم اور افغانستان میں روس کی شکست کے بعد بالخصوص دنیا یک قطبی ہوگئی ہے۔ امریکہ ایک منہ زور ہاتھی کی طرح دنیا کا قانون توڑتا پھر رہا ہے اور اسے کسی کی کوئی پروارہ نہیں ہے۔ دنیا میں صرف وہ بات بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، جو امریکی مفادات کے خلاف ہے، وہیں پر انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں، جہاں امریکہ چاہتا ہے۔ یہ امریکہ ہی تھا جو  ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر عراق پر چڑھ دوڑا اور ہزاروں سال پرانی تہذیب کو ملبے کا ڈھیر بنا کر  رکھ دیا اور آج بھی اس بات پر شرمندگی کا اظہار نہیں کرتا کہ اس نے جس بنیاد پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، وہ بنیادی بات ہی غلط تھی۔ جاتے جاتے ابوغریب  جیسے انسانیت سوز  واقعات کرکے تہذیب یافتہ ممالک کی فہرست میں بھی اونچا مقام کر گیا۔

پابندیاں ایک امریکی ہتھیار ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے امریکہ ہر اس ملک کو سزا دیتا ہے، جو آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔ آپ شمالی کوریا، ایران اور دیگر ہر ایسے ملک کی پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ دیکھ لیں، ان ممالک نے ہمیشہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں تاریخ کی بدترین امریکی پابندیوں کا شکار ہوئے۔ امریکہ محض ایک اخباری رپورٹ پر پابندیاں لگا سکتا ہے اور بہت سی جگہوں پر تو محض اخباری اطلاعات پر حملہ بھی کر دیتا ہے۔ ایران، مغربی ممالک اور امریکہ کے درمیاں معاہدہ ہوا تھا، جسے بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا گیا، مگر جیسے ہی نئے امریکی صدر قصر ابیض کے مکین ہوئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے چند ماہ میں ہی بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس معاہدے سے ناصرف علیحدگی اختیار کر لی بلکہ کئی طرح کی نئی پابندیاں بھی عائد کر دیں اور حیرت کی بات ہے کہ انہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔

پابندیوں کے اس ہتھیار کو اب امریکہ نے غیر ضروری طور پر چین کے خلاف استعمال کیا ہے۔ یوکرین پر روسی قبضے اور  امریکی انتخابات میں مبینہ مداخلت کو بنیاد بناتے ہوئے امریکہ نے روس کے خلاف بھی پابندیاں عائد کر رکھیں ہیں۔ ان پابندیوں میں روسی جنگی جہاز اور میزائل سسٹم شامل ہیں، چین روس سے یہی جنگی جہاز اور میزائل کا سسٹم خرید رہا ہے، جس پر امریکہ نے چین کے بنک اور کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی  ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے بعد کے اقدامات سے چین کو دو سو ارب ڈالر تک نقصان کا اندیشہ ہے۔ چین نے سخت جواب دینے کی تنبیہ کی ہے اور جوابی اقدام کے طور پر پچاس ارب ڈالر کے جوابی ٹیکس امریکی فرمز پر عائد کر دیئے ہیں۔ روس اور چین نظریاتی اتحاد کے باوجود  سیاسی اختلاف کا شکار تھے، مگر ان امریکی پابندیوں نے بڑی تیزی سے ان دونوں کو باہم قریب کر دیا ہے۔ سربیا میں کولڈ وار کے بعد کی سب سے بڑی جنگی مشقیں کی گئی ہیں۔ جس میں روس اور چین کے صدور بھی شریک ہوئے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دونوں ممالک کو خطے میں جاری امریکی مداخلت کا  اندازہ ہے اور خطے میں امریکی مداخلت کو اچھا نہیں سمجھتے، جس نے عراق سے یمن تک انسانوں کا امن غارت کر دیا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی بحری بیڑے کو چیلنج کرنے کے لئے روس اور چین نے بحیرہ روم میں جنگی مشقیں کی ہیں۔ ان مشقوں میں چین کے دو فیراگیٹ میزائل بردار جہاز اور رسد فراہم کرنے والا ایک جہاز حصہ لے رہا ہے۔ مشقوں میں روس کے چھ جہاز حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں حفاظتی امور، سمندر میں رہتے ہوئے ذخیرہ کرنا، حفاظتی دستوں اور گولہ باری کی مشقیں کی گئیں۔ بحیرۂ روم میں موجودگی محض شام کی بندگارہ طرطوس تک ہی محدود ہے، اس سے علاقے میں روسی کردار مزید گہرا ہو جائے گا۔ چین اور روس کے اس اتحاد کا فائدہ یہ ہوگا کہ خطے سے بالخصوص اور دنیا سے بالعموم امریکی تسلط بتدریج ختم ہوگا۔ خطے میں موجود آمرانہ بادشاہتیں جو امریکی مہروں کا کام کرتی ہیں، دن بدن اپنی گرفت کمزور کرتی جائیں گی۔

روس کا ایک جنگی طیارہ اسرائیل نے مار گرایا گیا ہے، جس وقت یہ طیارہ  گرایا گیا، اس وقت اسرائیل کے لڑاکا طیارے شامی علاقے میں قریب ہی موجود تھے۔ اگرچہ اسرائیل نے اس طیارے کو  گرانے کی تردید کی، مگر روس نے کہا ہے کہ اس کا خمیازہ تل ابیت کو بھگتنا پڑے گا۔ ایک طرح سے یہ بات بھی امریکی مفادات کے خطے میں محافظ اسرائیل کے لئے بہت بری ہے، وہیں امریکہ جو پابندیوں اور دھمکیوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا آیا ہے، اس کے لئے ایک خطرناک ہے۔ امریکہ براہ راست تصادم کے لئے تیار نہیں ہے امریکی عوام کا بہت بڑا طبقہ جنگ  سے نکلنا چاہتا ہے، مگر اسلحے کے تاجر اسے دوسروں کو برباد کرنے کے لئے جاری رکھیں گے، تاکہ ان کا اسلحہ بکتا رہے۔

چین کی سرمایہ کاری نے اس وقت امریکی معیشت کو سنبھالا ہوا ہے اور یہ چینی سرمایہ ہی ہے، جو امریکی معیشت کو آگے بڑھا رہا ہے۔ لوہے اور دیگر دھاتوں پر ٹیکس اور  دیگر مالیاتی اقدامات نے ٹرمپ کو دنیا کے سامنے ایکسپوز کیا ہے کہ وہ چین جیسی معیشت کے ساتھ اعلان جنگ کرکے خود کو ایک دلدل میں پھنسا لے گا، جس سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ ایک اہم بات جس کی طرف ماہرین اشارہ کر رہے، وہ یہ بھی ہے کہ مقاصد کے حصول کے لئے اس بڑے پیمانے پر پابندیوں کا  لگا دیا جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ تبدیلی کے وقتی طور پر کچھ اثرات بھی ہوں، مگر دیرپا نہیں ہوتے، اس سے باہمی کدورتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ روس اور چین جیسے طاقتور ممالک پر یقیناً ان پابندیوں کا اثر پڑے گا، مگر ان کے جوابی اقدامات امریکہ کو دفاعی مقام پر لے جائیں گے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکی پابندیوں کا شکار ممالک باہمی تعاون سے ان مشکلات سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، جو ان پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔

حالات یہ بتا رہے ہیں کہ چین اور روس باہمی طور پر مزید قریب آئیں گے، ان کا باہمی قریب آنا قیادت کے اس خلا کو پر کرے گا، جس کی غیر موجودگی کی وجہ سے امریکہ دنیا کی تشکیل کے نام پر اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف تھا۔ اس کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ خطے میں جاری پابندیوں کا کھیل زیادہ دن نہیں چلے گا، وہ جو ایک قرارداد کے ذریعے سے راتوں ملکی معیشت کی چیخیں نکلوا دیتے تھے، اب گیم ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ایران، یمن اور شام سمیت تمام ممالک جو بدترین پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کو ریلیف ملے گا۔ چین نے پچھلے تیس سال میں انتہائی خاموشی سے دفاعی اور اقتصادی طور پر جتنی طاقت حاصل کر لی ہے، وہ وقت دور نہیں جب کم از کم ایشیا میں چین کا سکہ چلے گا۔ سی پیک کے مکمل ہونے سے چین و روس سمیت یہ پورا خطہ جڑ جائے گا، جس کے بعد مفادات اس طرح باہم یکجا ہو جائیں گے کہ امریکی پابندیاں خطے کے ممالک کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔
خبر کا کوڈ : 752159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش