0
Friday 28 Sep 2018 11:24

پاکستان میں مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا؟

پاکستان میں مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

پاکستان اسوقت دنیا میں سب سے زیادہ غیر ملکیوں کو پناہ دینے والا ملک ہے، صرف افغان پناہ گزینوں کی تعداد 25 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں، غیر قانونی افغانی پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ انکے علاوہ بنگالیوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جبکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ہزاروں شہری یہاں آباد ہیں۔ بنگالیوں کی تو تیسری نسل ہوگئی ہے، جبکہ افغانیوں کی زیادہ تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے، جو پیدا ہی پاکستان میں ہوئے، انکو شاید اپنے ملک کے حوالے سے زیادہ جذباتی لگاؤ نہ ہو اور نہ معلومات ہوں، مگر پاکستان نے ان کو پناہ دی، رہنے کو پرامن ماحول اور کاروبار کیلئے تعاون دیا اور بےشمار افغانی پاکستانیوں سے زیادہ خوشحال ہیں۔ اگرچہ ان افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں دہشت گرد بھی چھپ کر حملے کرتے ہیں، مگر زیادہ تر ایسے ہیں جو خاندانوں کیساتھ رہتے اور محنت مزدوری کرتے ہیں۔ بنگالیوں کا مسئلہ ان سے زیادہ حساس اور قابل توجہ ہے، کیونکہ وہ تو خود کو پاکستانی ہی سمجھتے ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ہزاروں بنگالی یہاں ہی رہ گئے تھے، وہ کل بھی پاکستانی تھے اور آج بھی ہیں۔ انہوں نے بنگلہ دیش کی شہریت لی ہی نہیں بلکہ ہزاروں بہاریوں کو پاکستان لایا بھی گیا تھا، مگر پھر یہ سلسلہ ختم ہوگیا، کیونکہ کوئی صوبہ ان کو جگہ دینے کو تیار نہیں۔

پہلے بھی جو آئے ان کو پنجاب میں بسایا گیا تھا، مگر وہ آہستہ آہستہ کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوگئے۔ اب ایک طرف تو سندھ بہاریوں کی آبادکاری کے خلاف ہے تو دوسری طرف ان کو شہریت دینے کی بھی مخالفت کر رہا ہے۔ سندھیوں کا خیال ہے کہ اگر یہ یہاں آباد ہوگئے اور پاکستانی بھی بن گئے تو مہاجروں کے ساتھ مل جائیں گے اور سندھی اقلیت میں چلے جائیں گے۔ اسی وجہ سے وہ بنگالی بھی پاکستانی شہریت سے محروم ہیں، جو بھی پاکستان سے باہر گئے ہی نہیں، یہ ایک انسانی المیہ بھی ہے۔ اسی کے متوازی 1980ء میں لاکھوں افغانی پناہ لینے کیلئے پاکستان میں داخل ہوئے اور وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کی بڑی تعداد تو خیبر پختونخوا میں مختلف کیمپوں میں آباد ہوئی، مگر لاکھوں بلوچستان میں بھی بس گئے، جلد ہی زبان اور ثقافت ایک ہونے کی وجہ سے یہ یہاں سرائیت کر گئے۔ بیشمار ایسے ہیں جن کو شناختی کارڈ بھی مل گئے، جو زیادہ تر جعلی تھے، کیونکہ نادرا کے قیام کے بعد شناختی کارڈوں کی بائیومیٹرک نظام کے تحت ڈیٹا اکٹھا کرنے اور نئے کارڈ جاری کرنے کے دوران لاکھوں افغانی پکڑے گئے۔

ہزاروں کو مختلف خاندانوں میں شامل کرکے کارڈ جاری کئے گئے تھے۔ بہرحال جعلی شناختی کارڈ ختم اور منسوخ ہوچکے ہیں، لیکن اسکے باوجود یہ افغانی پاکستان چھوڑنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے یہاں جائیدادیں بنا رکھی ہیں، شادیاں کر لی ہیں اور کاروبار کر رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ 50 لاکھ سے زائد ایسے غیر ملکی یہاں رہ رہے ہیں، جو نہ پاکستانی ہیں اور نہ ہی پاکستان چھوڑنے کو تیار ہیں، مختلف جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں تو کہیں رجسٹریشن یا بائیومیٹرک نہ ہونے کی وجہ سے گرفت میں نہیں آتے۔ ان کا مستقبل کیا ہے کسی کو معلوم نہیں، اب وزیراعظم عمران خان نے ایک بات کہی کہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کا سوچ رہے ہیں، تو اس کے ردِعمل میں دونوں نظریئے سامنے آئے ہیں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی پختون سیاسی جماعتیں افغانوں اور مہاجرین بنگالیوں کو شہریت دینے کی حامی ہیں، جبکہ بلوچی، سندھی، پشتون تاجر اور دیگر اقوام ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی تاجر برادری اور کاروباری حضرات نے کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم بنگالیوں اور افغانیوں کو شہریت دی گئی تو وہ احتجاجاً ٹیکس اور یوٹیلٹی بلز ادا کرنے بند کر دیں گے۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں کاروباری حضرات اور تاجر برادری نے احتجاج کیا اور پاکستان میں مقیم افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے سے متعلق وزیرِاعظم عمران خان کے اعلان کو مسترد کر دیا۔

آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے زور دیا کہ وزیرِاعظم اپنے اعلان کو واپس لیں، کیونکہ اس سے تاجر برادری میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ پاکستان میں 40 لاکھ افغان شہری موجود ہیں، جن میں زیادہ تر خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں اور یہاں کاروبار بھی کرتے ہیں۔ یہ افغان شہری پاکستان میں ٹیکس ادا نہیں کرتے اور جب بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو یا دیگر ادارے ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو یہ اپنے ملک واپس بھاگ جاتے ہیں، جبکہ کاروبار کرنے والے پاکستانی شہری باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس ادا کر رہے ہیں، لیکن انہیں اس کا صلہ نہیں مل رہا۔ پشاور چیمبرز آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈرسٹریز کے سینیئر نائب صدر حاجی مامور خان کے مطابق انہیں مسئلہ اس بات سے ہے کہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ ہمارے (کاروباری برادری کے) پاس پھر ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہتا، کیونکہ غیر ملکی یہاں مختلف کاروبار کرتے ہیں، لیکن یہاں ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مرکز تنظیمِ تاجران خیبر پختونخوا کے صدر ملک مہر الٰہی نے انکشاف کیا کہ افغان شہریوں کو پاکستانی شہریت دی گئی تو یہ بہت سارے علاقوں بالخصوص مارکیٹوں میں اقلیت کے بجائے اکثریت میں تبدیل ہو جائیں گے، کیونکہ ایسی جگہوں پر ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

خیبر پختونخوا کو پہلے ہی عکسریت پسندی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا، لیکن صوبے کی حکومتوں کی جانب سے متاثرہ افراد کی سپورٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ افغانیوں کے پاکستان میں منظم کاروبار ہیں، اگر انہیں شہریت دی گئی تو مقامی تاجروں کیلئے کاروبار کرنا مشکل ہو جائے گا۔ افغانیوں کو شہریت دینے سے قبل حکومت کو یہاں کے اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو بھی زیرِ غور لانا چاہیئے، تاکہ قومی مفاد میں بہترین فیصلہ کیا جاسکے۔ اسوقت معاملہ انسانی یا شہری حقوق سے زیادہ سیاسی مفادات کا ہے۔ ورنہ دنیا بھر میں جہاں آئین و قانون کی عملداری ہے، وہاں ایک مخصوص مدت تک رہنے یا مخصوص حالات میں اپنا ملک چھوڑنے والوں کو شہریت مل جاتی ہے۔ حتٰی کہ امریکہ بھی یہ کام نہیں روک سکتا اور زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں دہری شہریت حاصل کرنے والوں میں پاکستان کے شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ خود پاکستانی ساری دنیا میں آباد ہیں اور مختلف ممالک کی شہریت لے رکھی ہے، مگر نسلوں سے یہاں رہنے والوں کو شہریت دینے کو تیار نہیں۔

یہ معاملہ اتنا آسان تو بہرحال نہیں اور اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ مستقل یہاں رہنے والے اگر شہریت کے بغیر رہتے ہیں تو کیا نقصان ہے اور اگر ان کو شہریت دے دی جائے تو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر اس طرح بھی سروے کرے اور منخالفین کو قائل کرنے کی کوشش کرے اور اگر یہ ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہونے کا موضوع بن جائے تو بہتر ہے کہ ان غیر ملکیوں کو ڈی پورٹ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا کی جائے۔ افغان پناہ گزینوں کی مدت قیام میں دسویں بار توسیع دی جا رہی ہے اور بنگالی تو کہیں جا ہی نہیں رہے، ان کا کوئی مستقبل ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 752585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش