0
Saturday 29 Sep 2018 00:25

روس اسرائیل تعلقات اہم موڑ پر

روس اسرائیل تعلقات اہم موڑ پر
تحریر: علی احمدی

24 ستمبر کے دن روس کے وزیر دفاع نے سرکاری طور پر اعلان کیا کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے حکم پر ماسکو شام کے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنانے کیلئے اسے ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کرے گا۔ سرگئے شائیگو نے کہا کہ روس شام کے فضائی دفاع کو بہتر بنانے کیلئے درج ذیل اقدامات انجام دینے کا فیصلہ کر چکا ہے:
الف)۔ ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم شام کو فراہم کیا جائے گا۔
ب)۔ شام کے فوجی ہیڈکوارٹر اور ایئرفورس کنٹرول روم کو آٹومیٹک کنٹرول سسٹم سے لیس کیا جائے گا۔
ج)۔ بحیرہ روم میں الیکٹرانک وار سسٹم بروئے کار لایا جائے گا جس سے دشمن کے ریڈار کو ناکارہ بنایا جا سکے گا۔
 
یہ پہلی بار نہیں کہ روسی حکام شام کو جدید میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کرنے کی خبر دے رہے ہیں۔ گذشتہ سال مارچ کے مہینے میں بھی جب امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے ڈوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ردعمل میں شام کے چند فوجی ٹھکانوں کو کروز میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا تو روس نے اعلان کیا تھا کہ وہ شام کو جدید فضائی ڈیفنس سسٹم سے لیس کرے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ لیکن اس بار ماجرا کچھ مختلف ہے۔ اس بار جس چیز نے صورتحال مختلف بنا دی ہے وہ 18 ستمبر کی صبح رونما ہونے والا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب چند اسرائیلی ایف سولہ طیارے بحیرہ روم کے ساحل پر واقع شام کے صوبے لاذقیہ کی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور چند ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس حملے کے دوران روس کا ایک ایلوشن 20 فوجی طیارہ بھی تباہ ہو گیا جس میں پندرہ روسی فوجی سوار تھا اور تمام فوجی ہلاک ہو گئے۔
 
روسی حکام نے اپنے فوجی طیارے کی تباہی کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اسرائیلی ایف سولہ طیاروں نے شام کے میزائل ڈیفنس سسٹم سے بچنے کیلئے روسی فوجی طیارے کی پناہ حاصل کی جس کے نتیجے میں روسی طیارہ میزائلوں کی زد میں آ کر تباہ ہو گیا۔ اسرائیل نے روس کو یہ یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ اس واقعے کے اسباب کچھ اور تھے لیکن روسی وزارت دفاع نے ان کے تمام دلائل مسترد کر دیئے اور اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔ روس نے اس واقعے کے بعد حال ہی میں سرکاری طور پر شام کو جدید میزائل ڈیفنس سسٹم ایس 300 دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ میزائل ڈینفس سسٹم انتہائی جدید سسٹم ہے اور شام کے پاس اب تک جو دفاعی نظام موجود تھا وہ کافی پرانا تھا۔ شام کا ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم سے لیس ہو جانے کے بعد اسرائیل کیلئے شام کی فضائی حدود میں ہوائی حملے انجام دینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ ایس 300 دفاعی نظام کی رینج 250 کلومیٹر تک ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل جنگی طیاروں کیلئے خود ان کی اپنی سرزمین میں ہی خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں بلکہ ماسکو تل ابیب تعلقات بھی خطرے میں پڑتے جا رہے ہیں۔
 
روسی وزیر دفاع سرگئے شوئیگو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ روس 2013ء میں ہی شام کو ایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس وقت اسرائیل نے روس سے درخواست کی کہ اس اقدام کو ملتوی کر دے۔ روس نے اسرائیل کی یہ درخواست منظور کر لی اور شام کے اہلکاروں کو ضروری ٹریننگ مکمل کر لینے کے باوجود اسے ایس 300 دفاعی نظام فراہم نہ کیا گیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب روس نے شام کو یہ دفاعی نظام دینے کا فیصلہ کیوں کر لیا ہے؟ کیا روسی حکام سمجھتے ہیں کہ صوبہ لاذقیہ میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں نے جان بوجھ کر روسی فوجی طیارے کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جس کے نتیجے میں وہ تباہ ہوا؟ یا اس روسی فیصلے کی کوئی اور وجہ ہے؟
 
شام کے صوبہ لاذقیہ میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں کی جارحیت کے بعد روسی خبررساں ادارے اسپوٹنیک نے ایک خبر شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ شام میں نصب روسی ریڈار نے عین اسی وقت بحیرہ روم میں موجود فرانسوی جنگی کشتی سے بھی شام پر میزائل داغے جانے کا عمل ریکارڈ کیا ہے۔ لہذا اس خبر کی روشنی میں حقیقت یوں ہو سکتی ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک یورپی ملک کے تعاون سے شام کی سرزمین کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔ یہ اقدام روس اور اسرائیل کے درمیان موجود معاہدے کی واضح خلاف ورزی محسوب ہوتا ہے۔ مزید برآں، اسرائیلی جگی طیاروں نے جان بوجھ کر روسی فوجی طیارے کو شام کے میزائل ڈیفنس سسٹم کی زد میں آنے کا مقدمہ فراہم کیا۔ اسی طرح اسرائیل نے اس آپریشن میں ایسے یورپی ملک کی مدد بھی حاصل کی جس کے روس سے دوستانہ تعلقات نہیں اور روس کا حریف شمار کیا جاتا ہے۔ روس ممکن ہے شام کی فضائی حدود میں اب تک اسرائیلی جنگی طیاروں کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتا آیا ہو لیکن اب جبکہ تیسری قوت بھی میدان میں آ چکی ہے تو مزید کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔
خبر کا کوڈ : 752710
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش