0
Saturday 29 Sep 2018 15:30

جنرل اسمبلی میں ٹرمپ کا تھیٹر

جنرل اسمبلی میں ٹرمپ کا تھیٹر
تحریر: ثاقب اکبر
 
25 ستمبر 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اس خطاب پر پوری دنیا میں تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ خود امریکی صدر کے خطاب کے دوران میں ایک موقع پر تمام حاضرین ہنس پڑے۔ ان کی ہنسی اس امر کا اظہار تھی کہ امریکی صدر کی باتیں مضحکہ خیز ہیں، امریکی صدر بھی اس ہنسی پر متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ مجھے اس ردعمل کی توقع نہ تھی، لیکن چلو خیر ہے۔ امریکی ڈیموکریٹ رکن نکولس برنز کا کہنا تھا کہ ٹرمپ دنیا کی رہبری نہیں کر رہے بلکہ اس کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ ایک ممتاز امریکی مبصر کے مطابق ٹرمپ کا خطاب ہم سب کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنا۔ ایک اور مبصر کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ عالمی صورت حال میں بگاڑ کی ایک وجہ بے سمتی کی شکار امریکی ڈپلومیسی، جنگجویانہ مہم جوئی، عالمی قیادت، بالادستی اور وسائل پر قبضہ گیری کی ہوس ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب کا موازنہ کرتے ہوئے بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پچھلی تقریر میں ٹرمپ نے جنگ کا بگل بجایا تھا، مگر اس بار ان کا خطاب تھریٹ کے بجائے تھیٹر کے مکالموں تک محدود رہا، وہ مضحکہ خیز بڑھکیں ضرور مارتے رہے۔ ٹرمپ کی تقریر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تقریباً 200 سے زائد مندوبین اور وفود نے سنی، لیکن ان کی باتوں پر تالیوں کی گونج کا کوئی فطری منظر دیکھنے میں نہیں آیا۔ صدر ٹرمپ کی تقریر زیادہ تر بین الاقوامی امور سے متعلق تھی۔ انہوں نے ایران کے خلاف جو کچھ کہا، اس پر معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل نے یہ سرخی جمائی ”ایران ٹرمپ کا تختہ مشق بنا رہا۔" ایک مبصر کے مطابق اپنے متن کی روح کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا خطاب دھمکیوں کا اعادہ تھا، جو رقیبوں کو خبردار کرنے تک محدود رہا، ٹرمپ حسب عادت خوب گرجے برسے، لیکن جنوبی ایشیائی ملکوں سمیت دنیا کے بیشتر حساس معاملات اور مسائل پر ان کی طرف سے کوئی بامعنی پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔
 
بظاہر تو صدر ٹرمپ نے پاکستان کا کوئی ذکر نہیں کیا، لیکن ان کی ایک بات کا ہدف پاکستان بھی ضرور تھا، کیونکہ انہوں نے کہا کہ بے وفا دوستوں اور امریکہ کا احترام نہ کرنے والوں کو امریکہ سے امداد کی توقع نہیں رکھنا چاہیئے۔ وہ یہی بات واشگاف الفاظ میں اور اس سے زیادہ سخت الفاظ میں پاکستان سے بلاواسطہ کہہ چکے ہیں۔ سرکاری طور پر تو امریکہ نے سانحہ اہواز کی مذمت کی، لیکن قبل ازیں بھی بعض امریکی اہلکار ایران کے یوم دفاع پر ہونے والے اس واقعے کا ذمہ دار بالواسطہ خود ایرانی حکومت کو قرار دے چکے ہیں۔ گویا امریکی حکومت کو ایسے واقعات پر اطمینان خاطر حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکی صدر نے بھی اپنی تقریر میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ وہ دہشتگردی کے ایسے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ایرانی قوم کا غصہ جائز ہے، کیونکہ ایرانی راہنما قومی وسائل ذاتی مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
 
فلسطین کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن چاہتے ہیں، اسی مقصد کے لئے امریکی سفارتخانہ بیت المقدس یعنی یروشلم منتقل کیا گیا ہے۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے، جیسی جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم برسانے کے بعد امریکہ کی طرف سے کہی گئی تھی کہ ایسا جنگ بند کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ ٹرمپ سیدھے حقائق کا ایسے انکار کرتے ہیں، جیسے کسی کو ان کی کوئی بات سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے پر تقریباً ساری دنیا نے امریکہ کی مذمت کی تھی اور اسے خطرناک اقدام قرار دیا تھا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے شرمناک اور ناقابل قبول اقدامات نے امن کی تمام کوششوں کو کمزور کر دیا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے بھی اسرائیل کے خلاف انتفاضہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات منسوخ کر دی گئی تھی۔

ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس فیصلے پر کہا تھا کہ یہ خطے میں عالمی تکبر کی نئی مہم ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ، مصر کے صدر عبدالفتاح سیسی اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی اس فیصلے کو اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیا تھا۔ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔ امریکی صدر کے اس فیصلے پر چین، روس، فرانس بولیویا، اٹلی، سینیگال، سویڈن، برطانیہ، جرمنی اور یوراگوائے نے بھی تنقید کی تھی۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ نے بھی اس امریکی فیصلے کی مذمت کی تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کئے گئے، لیکن امریکی صدر بہت ڈھٹائی سے اس فیصلے کو امن کی طرف پیش رفت قرار دے رہے تھے۔
 
جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں امریکی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کو دنیا میں اپنے راستے پر چلنے کا حق ہونا چاہیئے، لیکن دوسری طرف وہ دیگر ممالک کو یہی حق دینے کے لئے آمادہ نہ تھے۔ انۃوں نے کئی ایک ممالک کے خلاف گفتگو کی۔ انہوں نے ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد مزید پابندیاں عائد کرنے پر پھر زور دیا اور دنیا کو دھمکی دی کہ اس سلسلے میں جس کسی نے بھی امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کی، اسے بھی خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے، جبکہ امریکہ کے علاوہ تمام بڑی طاقتیں ابھی تک اس جوہری معاہدے کا حصہ ہیں، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل منظور کرچکی ہے۔ گویا وہ دیگر تمام عالمی طاقتوں کو اس حوالے سے اپنی دھمکیوں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ وینزویلا کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وینزویلا حقیقی معنی میں دنیا کی بری جگہوں میں سے ایک ہے۔ ٹرمپ نے تیل برآمد کرنے والی تنظیم اوپیک، چین کی تجارتی پالیسیوں اور عالمی عدالت انصاف پر بھی شدید تنقید کی۔ گویا وہ مسلسل دھمکیوں سے کام لے رہے تھے۔ گذشتہ برس کے اجلاس میں انہوں نے ایٹمی حملے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ اس برس اس درجے کی دھمکی تو نہیں دی، لیکن پھر بھی ان کے منہ سے جھاگ ہی نکل رہی تھی۔
 
امریکی صدر کی اس صورتحال سے خود امریکہ کے جہاں دیدہ اور مدبر افراد نالاں ہیں۔ یہاں تک کہ وائٹ ہاﺅس کے اندر موجود اہلکار بھی صدر ٹرمپ کے رویئے اور طرز عمل پر شاکی ہیں۔ رواں مہینے (ستمبر 2018) کے شروع ہی میں امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار کا ایک مضمون امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا، جس میں لکھا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کا اخلاقیات سے عاری ہونے اور ان کی جلد بازی کی وجہ سے بنا سوچے سمجھے کئی غلط فیصلے کئے گئے ہیں۔ اس مضمون میں لکھا گیا ہے کہ ٹرمپ وائٹ ہاﺅس کے اہلکار ملک کو صدر سے بچانے کے لئے ایک انتظامی مزاحمت کا حصہ ہیں، جس کے تحت وہ کچھ اہم دستاویزات تک صدر کی میز سے غائب کر دیتے ہیں، تاکہ وہ ان پر دستخط نہ کرسکیں۔ مضمون میں صدر پر کی جانے والی تنقید میں غیر جمہوری رویہ، آزاد میڈیا سے ناخوشی، فیصلوں پر قائم نہ رہنا، جلد بازی، تنگ نظری اور غیر منظم ہونا جیسے الزامات شامل ہیں۔ بات یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس مضمون کے مطابق کچھ اہلکاروں نے آئین میں پچیسویں ترمیم کے بارے میں بھی دبے لفظوں میں بات کی ہے، جس کے تحت نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت ایک ایسے صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لئے ووٹ کرسکتے ہیں، جو اپنے اختیارات کے صحیح استعمال اور فرائض انجام دینے میں ناکام رہے۔
 
ایک طرف پوری دنیا امریکی صدر پر ہنس رہی ہے، لیکن ساتھ ہی ان کی دھمکیوں کی وجہ سے دنیا پر خطرات بھی منڈلا رہے ہیں، جبکہ داخلی طور پر بھی صدر ٹرمپ کے بارے میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ دنیا اور خود امریکہ کو کسی گرداب میں جانے سے پچانے کے لئے عالمی سطح پر ایک سنجیدہ کوشش کا آغاز کیا جائے۔ یورپی یونین خاص طور پر جی سیون کے ممالک کو اس حوالے سے پیش قدمی کرنا چاہیئے۔ عالمی مذہبی راہنماﺅں کو بھی ایسی کوششوں میں شامل کرنا چاہیئے۔ امریکہ کے اندر موجود موثر حلقوں کو بھی شریک کیا جانا چاہیئے۔ کئی ایک سابق امریکی صدور بر سرعام ٹرمپ پر تنقید کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی رائے عامہ کو مزید حقائق سے آشنا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس پیش قدمی کی فوری ضرورت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ کوئی ایسا اقدام کر بیٹھیں جس کی تلافی پھر ممکن نہ ہوسکے۔
خبر کا کوڈ : 752839
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش