QR CodeQR Code

تہران میں خطہ کے 5 اہم ممالک کا اکٹھ

29 Sep 2018 22:32

اسلام ٹائمز: سکیورٹی اجلاس میں پاکستان کی عدم موجودگی اور بھارت و افغانستان کی حاضری کو بعض حلقے اسلام آباد کی سفارتی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ایک طرف پاکستان امریکی دباو سے نکلنے کی بات کر رہا ہے، داعش کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ رہا ہے، خطہ میں قیام امن کیلئے پڑوسی ممالک کیساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کر رہا ہے اور دوسری جانب اس اجلاس میں عدم شرکت یا پھر مبینہ طور پر میزبان کیجانب سے مدعو نہ کیا جانا نئی پاکستانی حکومت کو زیر سوال لارہا ہے۔ اگر اس اجلاس کے ثمرات اور آئندہ مرتب ہونے والے اثرات کی بات کی جائے تو خطہ کے 5 اہم ممالک کا ایک ساتھ بیٹھنا امریکہ کیلئے کافی تکلیف دہ ہوگا۔


رپورٹ: سید شاہریز علی
 
ایران کے شہر تہران میں 2 روز قبل خطہ کے 5 اہم ممالک کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا، جس میں میزبان کے علاوہ روس، چین، بھارت اور افغانستان شریک تھے۔ ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کی کوششوں اور اس کی میزبانی میں ہونے والے اس ایک روزہ اجلاس میں مہمان ممالک کے قومی سلامتی کے سیکرٹری اور مشیر شریک ہوئے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی، انتہاء پسندی اور جنوب مغربی ایشیاء کے علاقے میں دہشت گردی کے نئے خطرات کے خلاف مہم کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف مہم میں علاقائی ملکوں کی یکجہتی کو فروغ دینے کے بارے میں گفتگو ہوئی، جبکہ علاقائی تعاون کی تقویت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ علاقائی سکیورٹی مذاکرات کے زیرعنواں تہران اجلاس کے موقع پر اس اجلاس کے شرکاء کے درمیان دو طرفہ ملاقاتوں کے سیشن بھی ہوئے۔ ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی نے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں تہران اجلاس کے نتائج سے آگاہ کیا۔
 
اجلاس میں شریک ممالک کے مابین طے پانے والے امور اور مشترکہ قراردادیں درج ذیل ہیں۔
1۔ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دہشت گردی، منشیات، منظم مجرمانہ کارروائیاں اور خطے میں بیرونی مداخلت نے خطہ کے ممالک کی داخلی سلامتی کو خطرات لاحق کر دیئے ہیں اور ان ممالک کی معاشی ترقی، لانگ ٹرم منصوبوں اور معاشرتی ارتقاء کے سامنے نئے چیلنجز لا کھڑے کئے ہیں اور پورے خطے کی سلامتی کو بھی خطرہ میں ڈال دیا ہے۔
2۔ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ تشدد آمیز شدت پسندی اور ریڈیکل ازم دہشت گردی کو پیدا کرنے کے اصلی اسباب ہیں اور اس قسم کے نظریات کا مختلف طریقوں سے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا جانا چاہیئے۔
3۔ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ خطے میں ایسی پالیسیز اور ایسے کام کہ جو شدت پسندی اور ریڈیکل ازم کی سہولت کاری یا افزایش کا باعث ہوں، وہ پورے خطے کی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث ہیں اور اس اجلاس میں شریک ممالک اس قسم کی پالیسیز اور اس قسم کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔
 
4۔ اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو کسی دین، خاص ملک یا خاص قوم سے منسوب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیا جانا چاہیئے۔
5۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور رشین فیڈریشن کے داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خطرات سے نمٹنے کیلئے شام میں کئے جانے والے اقدامات کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
6۔ شام کے علاقے سے افغانستان اور وسطی ایشیاء کے علاقوں میں داعش کو منتقل کرنے پر شدید تحفظات کا اعلان کرتے ہیں اور افغانستان اور وسطی ایشیاء میں دہشت گرد گروہوں کی منتقلی کو رکوانے کیلئے منظم، مشترکہ اور ہر قسم کے ضروری اقدامات انجام دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
7۔ افغانستان کی صلح و سلامتی اور اس ملک کی تعمیر نو، امداد اور ترقی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں اور تمام ممالک سے افغانستان حکومت اور طالبان کے درمیان صلح کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
8۔ اجلاس میں شریک ممالک منشیات کی کاشت، پروڈکٹ اور نقل و انتقال کا دہشت گردی کے اہم مالی ذرائع کے عنوان سے موثر انداز میں مقابلہ کرنے کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
 
9۔ اجلاس میں موجود ممالک آپس میں رابطوں کو موثر بنانے، دو جانبہ اقتصادی ترقی کو زیادہ کرنے، تجارت کو افزایش دینے اور پرامن ٹرانزٹ کیلئے کوریڈورز بنانے پر زور دیتے ہیں اور اس بات کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اس موضوع کو اجلاس میں موجود ممالک کے درمیان تعاون کیلئے ایک اہم مسئلہ کے طور پر دیکھا جائے گا۔
10۔ اجلاس میں شریک ممالک کا فیصلہ ہے کہ اس اجلاس کو ہر سال اجلاس میں موجود ممالک میں سے کسی ایک کی میزبانی میں منعقد کیا جائے گا۔
11۔ اجلاس میں شریک ممالک اعلان کرتے ہیں کہ اجلاس میں انجام دیئے گئے تمام فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے اس اجلاس کا صدر ملک مناسب اقدامات انجام دے گا اور سالانہ اجلاس کے اندر اپنی رپورٹ جمع کرائے گا۔
 
خطہ کے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں تہران میں منعقد ہونے والے اس اجلاس کی اہمیت اور افادیت بڑھ گئی ہے، اجلاس میں شریک ممالک کے مابین مختلف امور پر اتفاق ہوا ہے، تاہم اس اجلاس کا سب سے اہم نقطہ خطہ میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور افغانستان میں داعش کا بڑھتا ہوا وجود تھا، کیونکہ دہشتگردی اور خاص طور پر داعش کو افغانستان منتقل کرنے کے معاملہ پر تمام شرکاء ممالک کو شدید تحفظات ہیں۔ افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں یقیناً پورے خطہ کیلئے خطرہ کا باعث بن چکی ہیں، داعش یہاں اپنے آپ کو آئے روز مضبوط کر رہی ہے، امریکہ اور نیٹو کی موجودگی میں اس دہشتگرد تنظیم کا اتنی آسانی کیساتھ افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنا امریکی کردار کے حوالے سے دنیا پر بہت سی چیزیں واضح کر رہا ہے۔ افغانستان میں داعش اور طالبان کے مابین بھی لڑائیاں ہوئی ہیں، داعش نے افغانستان میں مختلف ممالک سے بھرتیاں بھی شروع کر رکھی ہیں، جس میں پاکستان سمیت بعض عرب ممالک کے افراد بھی موجود ہیں۔
 
حیرانگی کی بات ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی و اتحادی افواج کی جانب سے داعش کیخلاف کسی قسم کی کوئی ظاہری کارروائی بھی نہیں کی گئی۔ افغانستان میں اس دہشتگرد تنظیم کے پاکستانی سرحد سے متصل علاقوں میں موجود ہونے اور خطہ کے ایک اہم ملک ہونے کے باوجود اسلام آباد کی تہران سکیورٹی اجلاس میں عدم موجودگی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے بعد پاکستان وہ ملک ہے، جو دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ہوا۔ ایک ایرانی ٹی وی چینل پر سینیئر تجزیہ نگار سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تہران کی جانب سے پاکستان کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم شائد نئی حکومت کے وجود میں آنے اور جنیوا اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی مصروفیت کے باعث پاکستان اس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکا۔ بہرحال پاکستانی نمائندے کی اس اہمیت نوعیت کے اجلاس میں عدم شرکت کئی سوالات کو جنم دینے کیلئے کافی ہے۔
 
سییورٹی اجلاس میں پاکستان کی عدم موجودگی اور بھارت و افغانستان کی حاضری کو بعض حلقے اسلام آباد کی سفارتی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ایک طرف پاکستان امریکی دباو سے نکلنے کی بات کر رہا ہے، داعش کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ رہا ہے، خطہ میں قیام امن کیلئے پڑوسی ممالک کیساتھ چلنے کے عزم کا اظہار کر رہا ہے اور دوسری جانب اس اجلاس میں عدم شرکت یا پھر مبینہ طور پر میزبان کی جانب سے مدعو نہ کیا جانا نئی پاکستانی حکومت کو زیر سوال لارہا ہے۔ اگر اس اجلاس کے ثمرات اور آئندہ مرتب ہونے والے اثرات کی بات کی جائے تو خطہ کے 5 اہم ممالک کا ایک ساتھ بیٹھا امریکہ کیلئے کافی تکلیف دہ ہوگا، کیونکہ پہلے افغانستان میں طالبان سمیت دیگر جنگجو گروپوں کی جانب سے ناکامی اور اب داعش کا وجود واشنگٹن کی دوغلی اور ناکام پالیسی کو عیاں کر رہا ہے، اس کے علاوہ چین، روس اور ایران کیساتھ ساتھ امریکی حلیف بھارت اور افغانستان کا یہ اکٹھ امریکی عزائم کیلئے خطرہ کی گھنٹی محسوس ہوتا ہے۔
 
اگر اس اجلاس میں شریک تمام پانچوں ممالک طے پانے والے مشترکہ نکات پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرتے ہیں تو یہ خطہ میں پائیدار امن کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے، ایران کی جانب سے اس اہم موقع پر اس قسم کا اقدام انتہائی خوش آئند ہے، کیونکہ کئی سال سے ضرورت یہ محسوس کی جا رہی تھی کہ خطہ میں امن کے حوالے سے یہاں کے ممالک ہی کوئی قدم اٹھائیں۔ ماضی میں اس کے برعکس بعض ممالک امریکہ سے توقعات رکھتے تھے یا امریکی دباو کی وجہ سے ایسا کوئی قدم اٹھانے سے گریزاں ہوتے تھے۔ اس سکیورٹی اجلاس کو پائیدار امن کی جانب پہلا قدم ثابت ہونا چاہیئے، جبکہ آئندہ اسی سلسلہ کو آگے بڑھا کر نہ صرف خطہ میں مستقل امن کی جانب بڑھا جاسکتا ہے بلکہ عوامی خوشحالی، امریکی تسلط کے خاتمہ اور مغرب پر انحصار کرنے کی بجائے پاکستان سمیت دیگر اہم ممالک کو اس بلاک میں شامل کرکے ترقی کے نئے دور کا آغاز بھی کیا جاسکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 752926

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/752926/تہران-میں-خطہ-کے-5-اہم-ممالک-کا-اکٹھ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org