QR CodeQR Code

عرب امریکی نیٹو کی تشکیل، نئے مرحلے کا آغاز

30 Sep 2018 21:33

اسلام ٹائمز: امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب نے امریکی عرب اسلامک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ٹرمپ کی موجودگی میں "عرب نیٹو" تشکیل دینے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔


تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ "امریکی عرب نیٹو" تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے اس اشارے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اتحاد کی تشکیل پیشکش اور نظریے کے مرحلے سے نکل کر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ اتحاد چھ خلیجی عرب ممالک، مصر اور اردن کے درمیان تشکیل پانا ہے جس کا مقصد مشرق وسطی خطے میں ایران کا مقابلہ کرنا اور امریکی مفادات کا دفاع کرنا ہے۔ متحدہ عرب امارات کا انگلش زبان میں ابوظہبی سے شائع ہونے والا اخبار "نیشنل" جو اس ملک کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید کا حمایت یافتہ تصور کیا جاتا ہے اس بارے میں لکھتا ہے: "مشرق وسطی کے امور میں امریکی نائب وزیر خارجہ لیڈر کنگ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران اس "نئے اسٹریٹجک اتحاد" کے اصولوں کے تعین اور واشنگٹن میں نئے سال کے آغاز پر مذکورہ بالا آٹھ ممالک کے سربراہی اجلاس میں سرکاری طور پر اس کے اعلان کے مقدمات فراہم کر رہے ہیں۔"
 
لیڈر کنگ نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران مذکورہ بالا ممالک کے سربراہان سے ملاقات کی ہے تاکہ انہیں اس سکیورٹی اتحاد کی تشکیل کیلئے انجام پانے والے اقدامات سے آگاہ کر سکیں۔ پیمپئو نے اس اجلاس میں داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور شام میں امن اور استحکام کے قیام پر زور دیا۔ امریکی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس اجلاس میں شریک تمام افراد نے خطے اور امریکہ کے خلاف ایران سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یاد رہے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب نے امریکی عرب اسلامک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ٹرمپ کی موجودگی میں "عرب نیٹو" تشکیل دینے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔ اب یہ طے پایا ہے کہ اس نئے تشکیل پانے والے "مشرق وسطی اسٹریٹجک اتحاد" یا MESA (Middle East Strategic Alliance) کا مرکزی دفتر بھی ریاض میں ہی ہو گا۔ اس اتحاد، اس کی کامیابی کے امکانات اور آئندہ چند ماہ میں اس کی تشکیل کو درپیش ممکنہ خطرات کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ اس اتحاد کی تشکیل کا مقصد مشرق وسطی اور عرب دنیا میں جغرافیائی، نسلی اور قومی تقسیم پیدا کرنا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے یہ اتحاد عرب دنیا کے مشرقی حصے کو مغربی حصے یا شمالی افریقہ سے علیحدہ کر دے گا۔ اسی طرح آٹھ سنی ممالک کو ایران کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں لا کھڑا کرے گا جبکہ یہ عرب ممالک اپنے اتحاد کو شیعہ مخالف فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کریں گے۔
 
2)۔ عرب نیٹو یا مشرق وسطی اسٹریٹجک اتحاد میں شامل آٹھ عرب ممالک میں اب تک مختلف ایشوز جیسے یمن جنگ، قطر اور خلیجی عرب ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعہ یا ایران سے درپیش خطرات کے بارے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ خلیج تعاون کونسل میں شامل تین ممالک کویت، قطر اور عمان کا موقف یہ ہے کہ انہیں ایران سے کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ لہذا ان ممالک نے حال ہی میں اہواز میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی مذمت بھی کی ہے۔ لیکن باقی تین عرب ممالک نے براہ راست یا سوشل میڈیا کے ذریعے اس دہشت گردانہ حملے کی حمایت کی ہے۔ یمن جنگ کے بارے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ان ممالک کے موقف میں اختلاف بہت واضح ہے۔
 
3)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران سے دشمنی اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ جیسے خام تیل کی قیمت میں کمی اس نئے اتحاد کے بنیادی ارکان ہیں لیکن کیا یہ ارکان اس اتحاد کی مضبوطی اور اس کی بقا کیلئے کافی ہیں؟
 
4)۔ اس اتحاد میں اسرائیل کی جگہ کہاں ہے؟ اور اس اتحاد کے رکن عرب ممالک کا اسرائیل کے بارے میں کیا موقف ہے؟ کیا یہ ممالک مکمل طور پر عرب اسرائیل تنازعے سے باہر نکل چکے ہیں؟ کیا اسرائیل اس اتحاد کا خفیہ رکن ہو گا اور کب اس کی رکنیت منظرعام پر لائی جائے گی؟
 
5)۔ دیگر عالمی طاقتوں جیسے روس اور چین اس اسٹریٹجک اتحاد کے بارے میں کیا موقف اختیار کریں گے؟ مشرق وسطی کے دیگر بڑے ممالک جیسے ترکی اور پاکستان کا اس بارے میں کیا موقف ہو گا؟ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ ان دو ممالک کے تعلقات اگر نہ کہیں کہ کشیدگی کے عروج پر پہنچ چکے ہیں تو کم از کم تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔
 
افسوس اس بات پر ہے کہ عرب ممالک کے سیاسی ماہرین اور معروف شخصیات اس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عرب نیٹو نامی تشکیل پانے والا اتحاد ہمارے ذہن میں "بغداد معاہدے" کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ اس وقت ایسی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے بغداد معاہدے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کے خلاف عوام کا شور اجاگر کر کے اسے ناکام بنا دیا۔ لیکن مشرق وسطی اسٹریٹجک اتحاد کے مقابلے میں عرب دنیا سے کوئی آواز اٹھتی سنائی نہیں دے رہی۔ امریکہ دو مقاصد کے حصول کیلئے ایران پر دباو ڈال رہا ہے۔ پہلا مقصد ایران کو مذاکرات اور سازباز پر مجبور کرنا ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں دوسرے مقصد یعنی ایران میں حکمفرما نظام کی تبدیلی کے درپے ہے۔ عرب نیٹو کے رکن ممالک ان دو امریکی اہداف کے حصول میں کیا کردار ادا کریں گے؟ مستقبل میں کس قسم کا امریکی ایرانی راہ حل ان کے فائدے میں رہے گا؟ سازباز کی ناکامی کی صورت میں کیا ہو گا؟
 
اگلا سوال اردن کے بارے میں ہے کہ عرب نیٹو میں اس کی شمولیت اس کیلئے کن فوائد کی حامل ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہمیشہ اردن کو نظرانداز کیا گیا ہے اور خلیج تعاون کونسل میں اس کے دوست ممالک نے اپنی ساری مالی امداد روک رکھی ہے اور اردن میں خانہ جنگی کی فضا پیدا کر دی گئی ہے۔ اردن اپنے دوستوں کی اس بے وفائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کیلئے اقتصادی محنت کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ کیا اردن اس اسٹریٹجک اتحاد میں شامل ہو کر اپنی فوج، سرزمین، سکیورٹی اور استحکام مفت میں انہیں بخش دے گا؟ عرب نیٹو میں شمولیت کے نتیجے میں اردن کو مالی اور اقتصادی فائدوں کے بغیر کن سکیورٹی اور فوجی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہو گا؟ امریکی عرب نیٹو اتحاد ایک اہم سکیورٹی اور فوجی اتحاد ہے جس کی تشکیل کی صورت میں ہمارے خطے اور ہماری قوم کو تباہی کا تحفہ ملے گا۔ یہ اتحاد ایسے وقت تشکیل پا رہا ہے جب عرب قومیں انتہائی کمزور حالت میں ہیں اور تقریباً نابودی کے دہانے پر ہیں۔ 400 ملین عرب باشندوں سے ایسا رویہ اپنایا جا رہا ہے گویا وہ وجود ہی نہیں رکھتے۔


خبر کا کوڈ: 753134

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/753134/عرب-امریکی-نیٹو-کی-تشکیل-نئے-مرحلے-کا-آغاز

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org