1
Wednesday 3 Oct 2018 21:25

یمن کے خلاف سعودی جارحیت اور سسکتی انسانیت

یمن کے خلاف سعودی جارحیت اور سسکتی انسانیت
تحریر: علی احمدی

یمن نے حال ہی میں اپنے بغیر پائلٹ صماد 3 ڈرون طیاروں کے ذریعے دوبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یمن آرمی نے یہ حملے سعودی اتحاد کی جانب سے عام شہریوں، شہری آبادی، اسپتالوں اور بازاروں پر بمباری کے بدلے میں انجام دیئے ہیں۔ یمن کی جانب سے دوسری بار دوبئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو ڈرون طیاروں کے ذریعے حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ یمن سے 1200 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے۔ یمن آرمی نے خبردار کیا ہے کہ اگلے حملے زیادہ شدید ہوں گے اور اگر متحدہ عرب امارات نے سعودی عرب کی سربراہی میں یمن کے عام شہریوں کے خلاف جنگی جرائم جاری رکھے تو اسے اس کی سخت سزا دی جائے گی۔ یمن کے حملوں کے باعث دوبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی کئی پروازیں متاثر ہوئیں۔ اسی طرح یمن آرمی کی جانب سے مزید فضائی حملوں کی دھمکی کی وجہ سے کئی معروف ایئرلائنز نے دوبئی سے اپنے فلائٹ آپریشنز معطل کر دیئے ہیں۔
 
سعودی سربراہی میں عرب اتحاد نے گذشتہ چار سال سے یمن کے خلاف ظالمانہ اور احمقانہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس عرصے میں متحدہ عرب امارات نے کم از کم تین بار اس اتحاد کو ترک کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے دباو کے باعث اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے اتحاد میں باقی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات یمن کے خلاف جنگ جاری رہنے کے حق میں نہیں ہے لیکن مجبوری کے عالم میں سعودی عرب کا ساتھ دے رہا ہے۔ دوسری طرف اماراتی حکام کی جانب سے کئی بار پیچھے ہٹنے کے بعد سعودی اتحاد میں واپسی کا مطلب یہ ہے کہ وہ یمن کے خلاف انجام پانے والے جنگی جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ اس مدت میں یمن آرمی اور حوثی قبائل کی جانب سے صرف دو بار متحدہ عرب امارات کو میزائل حملوں کا نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہونے والا ہے۔ لہذا مستقبل قریب میں ہم دوبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سمیت متحدہ عرب امارات کے دیگر شہروں پر مزید ہوائی حملوں کا مشاہدہ کریں گے۔
 
سعودی اتحاد نے کچھ عرصے سے، خاص طور پر جان بولٹن کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے بعد زیادہ شدت سے یمن کے عام شہریوں اور آبادی والے حصوں، اسپتالوں اور دیگر انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ وہ واشنگٹن کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے جان بولٹن کا پیغام پا لیا ہے اور وفادار نوکر ثابت ہوں گے۔ جان بولٹن نے حال میں واضح کیا تھا کہ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی حمایت امریکی مفادات کے عین مطابق ہے اور امریکہ اپنی حمایت جاری رکھے گا۔ اس سے پہلے امریکی حکام بعض تحفظات کے پیش نظر یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کی کھل کر حمایت کرنے سے گریز کرتے تھے اور حتی اس جنگ میں اپنے براہ راست یا بالواسطہ کردار کی بھی نفی کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن کے خلاف جنگ کے کنٹرول روم میں امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور اسرائیلی فوجی مشیر موجود ہیں اور یمن میں انجام پانے والا ہر جنگی جرم اور غیرانسانی اقدام ان کے مشورے اور فیصلے سے انجام پا رہا ہے۔
 
ابھی کچھ عرصہ پہلے یمن کی بندرگاہ حدیدہ پر سعودی اتحاد نے بڑا حملہ کیا جس میں امریکی، برطانوی اور فرانسیسی فوجیوں کی موجودگی نے ان ممالک کے حقیقی چہرے آشکار کر دیئے۔ البتہ یمن آرمی اور حوثی مجاہدین نے یہ حملہ پسپا کر دیا اور انہیں عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے عام شہریوں، شہری آبادی، اسپتالوں، بازاروں اور اسکولوں پر ہوائی حملے درحقیقت حدیدہ کی شکست کا ہی بدلہ ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ بھی اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ یمن میں اکیسویں صدی کا سب سے بڑا انسانی المیہ رونما ہونے والا ہے کیونکہ سعودی اتحاد نے یمن کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے جس کی وجہ سے غذائی اشیاء اور ادویہ جات کی شدید قلت کے باعث 2 کروڑ 10 لاکھ یمنی شہریوں کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ مزید برآں، یمن میں وبائی امراض بھی تیزی سے پھیل رہی ہیں جس کی بڑی وجہ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے۔ دوسری طرف شدید بمباری کے باعث درپیش خطرات کے پیش نظر انسانی امداد کی عالمی تنظیموں نے اپنے کارکنوں کو بھی اس ملک سے واپس بلا لیا ہے جس کے نتیجے میں یمنی عوام کی مظلومیت دوچندان ہو گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 753761
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش