0
Tuesday 9 Oct 2018 07:39

بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ نے کراچی آپریشن کے بعد قیام امن کے دعوؤں کی قلعی کھول دی

بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ نے کراچی آپریشن کے بعد قیام امن کے دعوؤں کی قلعی کھول دی
رپورٹ: ایس حیدر

شہر قائد میں پولیس اہلکار، ٹریفک پولیس افسر اور گلشن اقبال میں کار سوار شخص کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور دہشتگردوں کی تاحال عدم گرفتاری نے کراچی آپریشن کے بعد قیام امن کے دعوؤں کی قلعی کھول دی اور پولیس کیلئے ایک نیا چیلنج پیدا کر دیا ہے، دوسری جانب کراچی شہر میں گزشتہ دنوں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس سے قبل کسی بھی واردات میں استعمال نہیں ہوا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی نیا گروپ یا گروپس ان کارروائیوں میں متحرک ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی شہر میں گزشتہ چند روز کے دوران یکے بعد دیگرے تین ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے شہر میں ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد امن و امان کے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ شہر میں ایک طرف اسٹریٹ کرائم کا جن پولیس سے تاحال قابو میں نہیں آرہا ہے اور رواں سال میں اب تک نصف درجن ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں، جس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے بے قصور شہری بھی مارے گئے ہیں۔ گزشتہ روز آٹھ اکتوبر بروز پیر نیو کراچی میں مسجد و امام بارگاہ کاروانِ حیدری کے قریب موٹر سائیکل سوار دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے نیو کراچی تھانے کے اہلکار سید احمد عباس رضوی ولد سید غضنفر مہدی کو شہید کر دیا۔ شہید پولیس اہلکار احمد عباس بینک سے اپنے والد کی پنشن نکلوانے کے بعد جیسے ہی گھر پہنچ کر والد کے ہمراہ رکشے سے اتر رہے تھے، مسلح دہشتگردوں نے ان پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ان کے سینے میں ایک گولی لگی تھی، جو جان لیوا ثابت ہوئی۔

کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) کے انچارج راجا عمر خطاب کے مطابق نیو کراچی میں پولیس اہلکار کی شہادت پر تین مختلف زاویوں سے تحقیقات جاری ہیں، ڈکیتی کی کوشش میں مزاحمت پر فائرنگ کے علاوہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ایک پولیس اہلکار تھے، جو سول ڈریس میں سفر کر رہے تھے، اس لیے تفتیش جاری ہے کہ کہیں انہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار ہونے کی بنیاد پر ٹارگٹ کِلنگ کا نشانہ تو نہیں بنایا گیا، جبکہ واقعے کی فرقہ وارانہ قتل سے متعلق بھی تحقیقات کر رہے ہیں، ابتدائی تحقیقات میں ڈکیتی مزاحمت کے کوئی شواہد نہیں ملے، اس لیے دہشتگردی اور فرقہ وارانہ پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے 3 اکتوبر کو سپر ہائی وے پر ٹریفک پولیس اہلکار کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ حزب الاحرار نامی دہشتگرد تنظیم نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کی، لیکن پولیس کو اس دعوے سے متعلق تصدیق نہیں ہوئی تھی، حزب الاحرار نے 2 اکتوبر کو بلوچستان کے علاقے سکران میں دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، لیکن وہاں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا، اسی تنظیم نے پنجاب میں اسی نوعیت کے دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان دعوؤں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی تھی۔

اس سے قبل 3 اکتوبر کو سائٹ سپر ہائی وے کے علاقے احسن آباد چوکی کے قریب مٹکا چورنگی کے قریب موٹر سائیکل سوار دہشتگردوں نے ٹریفک پولیس اہلکاروں پر اندھادھند فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں گلزار ہجری ٹریفک سیکشن میں تعینات ٹریفک پولیس کا سب انسپکٹر 50 سالہ محمد رفیق پنہور ولد احمد خان پنہور شہید ہو گیا تھا۔ 4 اکتوبر کو گلشن اقبال بلاک 10 حکیم سعید پارک کے قریب موٹر سائیکل سوار ملزمان نے کار پر فائرنگ کرکے پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور 35 سالہ ارشاد کو قتل کر دیا تھا۔ ان تمام کارروائیوں میں حملہ آور با آسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پولیس کی جانب سے تمام زاویوں سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ واقعات میں الگ قسم کا اسلحہ استعمال ہوا۔ ماضی میں ہونے والی وارداتوں کے بعد ایک چیز سامنے آئی تھی کہ ملزمان واردات کے بعد تفتیش کاروں کو گمراہ کرنے کیلئے اپنے ہمراہ دوسرے گولیوں کے خول ساتھ لاتے تھے، جبکہ واردات میں استعمال ہونے والے خول کو اسلحے کے ساتھ لگے کیچر میں محفوظ کر لیتے تھے۔ اسی طرح سپر ہائی وے احسن آباد میں ٹریفک پولیس افسر کو دو گولیاں لگیں، لیکن پولیس نے جائے وقوع سے 18 خول کو اپنی تحویل میں لیا ہے۔ رواں سال میں کسی ٹریفک پولیس افسر کو پہلی بار نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ ماضی میں ٹریفک پولیس افسران و اہلکاروں کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کیونکہ انہیں سافٹ ٹارگٹ کہا جاتا ہے۔

اسی طرح رواں سال ایک پولیس اہلکار کو بھی اس وقت نشانہ بنایا گیا تھا، جب وہ ڈیوٹی پر جا رہا تھا اور پیچھے سے آنے والے ملزموں نے اسکے سر کا نشانہ بنایا تھا، اس طرح کی وارداتوں کا مقصد پھر سے خوف و ہراس پھیلانا بھی ہے۔ کراچی شہر میں گزشتہ دنوں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں استعمال ہونے والا اسلحہ اس سے قبل کسی بھی واردات میں استعمال نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے احسن آباد چوکی کے قریب ٹریفک پولیس افسر کی ٹارگٹ کلنگ میں نائن ایم ایم پستول استعمال ہوا تھا، تاہم پولیس افسر کو دو گولیاں لگی تھیں، لیکن وہاں سے لگ بگ ڈ یڑھ درجن خول برآمد ہوئے تھے۔ گلشن اقبال کے علاقے میں کار پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوا تھا، اس واردات میں 30 بور پستول استعمال ہوا، جبکہ پیر کو نیو کراچی کے علاقے میں پولیس اہلکار کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا، اس میں بھی دہشتگردوں نے 30 بور کا اسلحہ استعمال کیا۔ تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اسلحوں کے خول کی فرانزک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سے قبل کسی بھی واردات میں یہ تینوں ا سلحے کا استعمال نہیں ہوا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی نیا گروپ یا گروپس ان کارروائیوں میں متحرک ہوئے ہیں۔

ایک کالعدم دہشتگرد تنظیم کی جانب سے نیو کراچی والے واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے، تاہم تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تفتیش کا رخ دوسری طرف گھمانے کی کوشش ہو اور تمام زاویوں سے تفتیش کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور جیو فینسنگ کی بھی مدد لی جائے گی۔ آئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے تھانہ نیوکراچی کی حدود میں پولیس اہلکار سید احمد عباس رضوی کی شہادت کے واقعہ پر ایس ایس پی وسطی سے جامع انکوائری رپورٹ فی الفور طلب کرتے ہوئے ہدایات جاری کیں کہ کرائم سین سے اکٹھا شواہد کی مدد سے تفتیش کو انتہائی مؤثراور مربوط بنایا جائے، جبکہ احسن آباد چوکی کے قریب ٹریفک پولیس اہلکار محمد رفیق پنہور کو دہشتگردی کا نشانہ بنائے جانے پر بھی آئی جی سندھ نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی ایسٹ و ڈی آئی جی ٹریفک سے تفصیلی انکوائری رپورٹ فوری طلب کی تھی، لیکن ماضی کی طرح معاملہ دہشتگردی کے واقعات پر نوٹس لینے اور انکوائری رپورٹ طلب کرنے سے آگے بڑھتا ہوا نظر نہیں آ رہا، سندھ پولیس اپنے ہی پیٹی بھائیوں کے قاتل دہشتگردوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی، جس سے عوام میں خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔

شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ جب پولیس اپنے ہی پیٹی بند بھائیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے، انہیں دہشتگردی کا نشانہ بنانے والے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ہے، تو عام عوام اپنے آپ کو محفوظ کیسے تصور کر سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر سے شہر کراچی میں زور پکڑتی ٹارگٹ کلنگ، خصوصاً پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ اور ملوث دہشتگردی کی عدم گرفتاری نے جہاں ایک جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور نیشنل ایکشن پلان پر سوالیہ نشان عائد کر دیا ہے، تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی اس ٹارگٹ کلنگ نے کراچی آپریشن کے بعد قیام امن کے دعوؤں کی قلعی کھول کر پولیس کیلئے ایک نیا چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب نے کم از کم یہ تو اعتراف کر ہی لیا ہے کہ شہر کراچی میں اب بھی کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے سلیپر سیل موجود ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان کے سلیپر سیلز کا قلع قمع کرنے میں کب تک کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 754763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش