2
0
Wednesday 10 Oct 2018 00:40

محرم و صفر اور قومی محاسبہ

محرم و صفر اور قومی محاسبہ
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
ماہ محرم اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے، صفر کا مہینہ شروع ہونے کو ہے، پورے ملک میں مجموعی طور پہ عاشور پرامن گزر گیا، ہم سب نے شکر کا کلمہ پڑھا، اب ہمیں سوچنے کی فرصت نہیں، اب چہلم کے جلوس و مجالس عمومی طور پہ مختلف شہروں میں الگ الگ دنوں میں ہوتے ہیں، اگرچہ اکثریت بیس صفر کو ہی مناتی ہے۔ اس وقت مختلف شہروں میں مجالس کے سلسلے جاری ہیں، اب ہم میں سے بہت سے پوری دنیا کی طرح اربعین کربلا معلیٰ میں کرنے کی کاوشوں میں لگے ہوئے ہیں، اس وقت سب کی نظریں کربلا کی جانب ہیں، مولا سب کو زیارت کربلا نصیب فرمائے۔ عاشور کا پرامن گزر جانا محرم کا ایک پہلو ہے، اس کے دیگر سینکڑوں پہلو اور بھی ہیں۔ اتنے ارب روپیہ لگا کر ہم نے کیا حاصل کیا، جس قوم کے امام یہ تاکید فرما گئے ہوں کہ جو اپنا روزانہ احتساب و محاسبہ نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔ اس کا یہ حال ہے کہ اسے یہ سوچنے سمجھنے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ اربوں روپے خرچ کرکے ہماری قوم نے کیا حاصل کیا۔

صرف ضمیرا ختر نقوی کی بونگیوں کی شکل میں دنیا بھر کا مذاق یا پھر جعفر جتوئی کی امام حسین پہ شمر سے پانی کا پیالہ مانگنے کی بدترین گستاخانہ تہمت؟ اللہ جلا جلالہ کی شان اقدس میں یہ گستاخی کہ علی اس کے خالق ہیں یا پھر انسان کامل، عبد خدا علی مرتضیٰ کا خالق اکبر سے مقابلہ اور خالق کی توہین (نعوذ باللہ) کی جاتی رہی۔ قوم کی نئی نسل کو مجالس کی شکل میں جو تہذیب و تربیت سکھانی تھی، وہ سکھائی یا اسٹیج حسین کہے جانے والے منبر سے مجتھدین کو گال گلوچ اور طوفان بدتمیزی کے مناظرے، ملت میں یکجہتی کے پھول پرونے کی کوشش کی گئی یا ایک ایک  گھر میں دس دس نطریات پھیلا کے گھر گھر بحث اور جھگڑوں کی بنیادیں، مساجد و مدارس کے مقابلے میں مجالس و محافل کو کھڑا کیا گیا یا پھر نماز و روزہ و عبادت کے و مناجات کے مقابل نام نہاد عزاداری کا قصیدہ پڑھا گیا۔

قوم کو شعور کی بیداری کا درس دیتے ہوئے اجتماعی مسائل اور وحدت کا سبق پڑھایا گیا یا پھر زنجیر زنی، تلوار زنی، سوا زنی اور آگ پر ماتم و نماز پڑھنے کی رسومات کو فروغ دینے پر زور دیتے ہوئے جو یہ کام نہیں کرتے انہیں شیعیت سے نکال باہر کرنے کے بلند و بانگ فتوے سنائے گئے۔ اس وقت اگر ہم پاکستان بھر میں نگاہ دوڑائیں تو تقریباً ہر اس جگہ جہاں ہماری اکثریت نہیں ہے، وہاں تعصب کا یہ حال ہے کہ کوئی بندہ کرائے کا مکان دیتے ہوئے بھی یہ سوال کر لیتا ہے کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی، کجا یہ کہ ہم شیعہ و سنی آپس میں رشتہ داریاں کر لیتے تھے، اس تعصب زدہ ماحول میں اگر ہم رشتہ کروانے والے شیعہ اداروں سے جائزہ رپورٹ لیں تو سب سے زیادہ سادات کی بچیوں کے رشتوں کے مسائل ہیں، جن کیلئے مناسب رشتے نہیں مل رہے اور مجبوری نہ جانے کیا کچھ کروا رہی ہے۔
 
محرم گزر گیا، ہمیں اپنا محاسبہ نہیں کرنا، اس لئے کہ ہم نے جو کچھ سنا اور جو کچھ پڑھا گیا، اس عقیدے اور لگن کیساتھ پڑھا سنا گیا کہ ان مجالس میں جو لاکھوں روپے فیس لے کر پڑھی گئیں، میں معصوم تشریف فرما ہوتے تھے۔ کیا عجیب بات ہے، کیا معصومین اور پاک بیبیاں ایسی محافل میں آسکتی ہیں، جن میں بے پردگی ہو اور ہر دو منٹ کے بعد مصائب سادات بیان کرتے ہوئے ذاکر یا خطیب پاک بیبیوں کی حالت بیان کرتے ہوئے یہ کہہ دے کہ بی بی نے اپنے بال کھولے، بین کیا، آواز دی۔۔۔ اب خود سوچیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مقدس بیبیاں خود سے بے پردہ ہو جائیں، از خود اپنے سر سے چادریں گرا دیں، جن کے بارے یہ کہا جاتا ہو کہ سورج سے بھی پردہ فرماتی تھیں، وہ از خود سر ننگے ہو جائیں، یہ کسی بھی حالت و کیفیت میں ممکن ہے؟ اور اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مجلس میں بیٹھے ہوئے سب مرد و زن محرم ہیں، عورتیں کھڑے ہو کر ننگے سر ہو کر بین کریں۔

کیا یہ توہین صرف اپنی مجلس کو یادگار بنانے کیلئے نہیں کی جاتی؟ کیا ایسا کسی نے سوچا تھا یا ایسا کسی نے حکم صادر فرمایا ہے؟ کیا کربلا اور اس کے بعد اتنے مظالم اسی لئے برداشت کئے گئے کہ قصہ خوان سربازار توہین کرتے پھریں؟ کیا ان مجالس سے کسی نے درس حریت بھی لیا ہے، کسی نے امام حسین کے خطبات بھی سنے سنائے ہیں؟ کسی نے توحید کے عاشقان کی اس داستان میں خدا کی بندگی اور عبودیت کی انتہا کی کہانی بھی سنائی ہے؟ کیا کسی نے ظلم سے نفرت کرنے اور امام حسین کی سنت پر عمل کرتے ہوئے وقت کے ظالمین کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کا عہد بھی کروایا ہے۔؟
 
ایک طرف تعصب اور تنگ نظری، جہالت و گمراہی کا یہ عالم کہ آپ سے دشمنی رکھنے والے آپ کو مکان کرائے پہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور ہماری مجالس جو ہمارا قلعہ اور تبلیغی یونیورسٹیز کا درجہ رکھتی ہیں، ہماری ملی یکجہتی کی علامت ہونی چاہیئے، میں باہمی تعلقات اور اجتماعیات کے خلاف ایسا زہر اگلا جاتا ہے کہ قوم سال بھر ایک دوسرے کا گریبان پکرنے میں لگ جاتی ہے اور پہلے تو ہمیں دشمن سے کافر کافر کی صدائیں سننے کو ملتی تھیں، اب ہمارے اپنے منبر اور اسٹیج سے ہی یہ کام ثواب دارین سمجھ کے کیا جا رہا ہے اور کسی کو کوئی روک ٹوک نہیں۔ میرے ذاتی خیال میں پاکستان کے اہل تشیع کے مسائل کے سب سے زیادہ ذمہ دار بانیان مجالس ہیں، جو درست سمت میں چلیں تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی ذاکر یا خطیب من مرضی کی جملہ بازی کرے اور قوم کی تفریق و تقسیم کا باعث بنے یا پھر غلط روایات اور لغو باتوں کو معصومین سے منسوب کرنے کی حماقت کرے۔

اس سے قبل بھی ہم لکھ چکے ہیں کہ اجتماعی جدوجہد کرنے والی تنظیمیں اور قومی سطح کی شخصیات و ادارے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیں، بانیان مجالس سے تعلقات بنائیں اور انہیں پابند کریں کہ اہل تشیع کے تسلیم شدہ عقائد کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہیئے اور کسی کو یہ اجازت ہرگز نہ دی جائے کہ وہ اجتماعیت کو نقصان پہنچائے، قومی وحدت و یکجہتی کے خلاف کسی بھی قسم کی بات کرے، جو کچھ اس بار محرم الحرام میں سننے کو ملا ہے اور جو ماحول اب بنایا جا رہا ہے، جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں، وہ بہت ہی خطرناک ہے، اس کے بعد گھروں میں بیٹھنا یقینی طور پہ بارگاہ خداوندی و آئمہ طاہرین میں کوتاہی کے زمرے میں آئے گا۔ سستی و کوتاہی، جس کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا ہوگا اور ہم بھی اس اذیت میں ہی رہیں گے، دشمن کی چالیں ہم پر غالب ہو جائیں گی اور ہم من حیث القوم نابود ہو جائیں گے۔ اگرچہ ہمارا وجود ہوگا، مگر ہماری روح نکل چکی ہوگی، کربلا کی روح، حریت کی روح، آزادی کی روح، ظالم سے ٹکرانے کی روح، مظلوم کی مدد گاری کی روح، معاشرہ سازی کی روح، حسینیت کی روح، علویت کی روح، مہدویت کی روح۔۔۔!
 
ایک لحضہ کیلئے سوچئے، ایک لمحہ کیلئے تفکر کیجئے، یہ ہم برداشت کرسکتے ہیں، ہم یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پہ لے سکتے ہیں؟ ہم اس حال میں خدا کے حضور حاضری دینے کی ہمت و طاقت رکھتے ہیں کہ قوم کے خائن ہوں، سست و کاہل ہوں، خرابیوں اور سستیوں کی وجہ سے آنے والی آفات کے ذمہ دار ہوں اور بارگاہ امام میں حاضر ہوں، کیا آپ کا یہ عقیدہ نہیں کہ وقت کے امام کے حضور ہمارے اعمال پہنچائے جاتے ہیں اور وہ ہمارے اعمال پہ ناظر ہیں۔؟ اگر یہی عقیدہ ہے تو پھر وقت کے امام کو ناراض مت کیجئے، انہیں مایوس مت کیجئے، انہیں ظہور کی راہ میں مدد درکار ہے، نہ کہ رکاوٹیں، ہماری مجالس و محافل اور گھروں کا ماحول، اجتماعی جدوجہد کے رنگ اور اخلاص کا معیار اس سطح پر ہونا چاہیئے کہ ہم وقت کے امام کے حضور حاضری کیلئے جھجھک محسوس نہ کریں۔ قومی جدوجہد پہ یقین رکھنے والے مخلصین چاہے وہ علماء کی شکل میں ہیں، یا تنظیمی و تحریکی کارکنان کی صورت میں آگے بڑھیں، اپنے چھوٹے چھوٹے اور معمولی معمولی اختلافات اور انا پرستی کے دائروں کو توڑ کر معاشرہ اور مہدوی معاشرہ، کربلائی معاشرہ کی تشکیل کیلئے متحد ہو جایئے، اکٹھے ہو کر کام کیجئے، کسی کو اس رنگ میں بھنگ ڈالنے کی اجازت نا دیجئے، نہ کسی کو مذاق بنانے کا موقعہ ہاتھ میں دیجئے، یاد رکھیں، وقت کی نبض بہت نازک ہوچکی ہے، ایسا نہ ہو کہ اس کا کنٹرول کرنا ممکن ہی نہ ہو اور قومی مریض کا جنازہ نکل جائے۔(خدا نا کرے)
خبر کا کوڈ : 754970
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خدا کا شکر، ناصر صاحب تنظیمی خول سے نکل کر اصلاحی کالم لکهنے کا شکریه، خدا آپ کو همیشه ایسے هی موضوعات پر لکهنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ارشاد ناصرir
Pakistan
سلام، آپ کا شکریہ، سلامت رہیں، مولا کریم سے توفیقات میں اضافہ کی دعا ہے۔
ہماری پیشکش