0
Thursday 11 Oct 2018 00:08

جمال خاشقجی کا مشکوک قتل اور سعودی میڈیا

جمال خاشقجی کا مشکوک قتل اور سعودی میڈیا
تحریر: رامین حسین آبادیان

ترکی میں مقیم جلاوطن سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مشکوک انداز میں قتل کو چند دن گزر چکے ہیں۔ جمال خاشقجی آل سعود رژیم پر تنقید کرتے رہتے تھے اور گذشتہ ہفتے جب وہ استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گئے تو واپس نہ آئے اور چند دن بعد ان کی ٹکڑوں میں تقسیم لاش پولیس کو ملی۔ ترکی کے سکیورٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ انہیں قونصل خانے کے اندر ہی شدید ٹارچر کے بعد قتل کیا گیا اور اس کے بعد آری کے ذریعے ان کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ دوسری طرف سعودی حکام نے اس دعوے کو مسترد کر دیا لیکن ابھی تک انہوں نے اس صحافی کی موت کے بارے میں کوئی واضح موقف نہیں اپنایا ہے۔ سعودی حکام کی خاموشی سے اس موقف کو تقویب حاصل ہو رہی ہے کہ سعودی حکمران جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں۔ اب عالمی رائے عامہ بھی آہستہ آہستہ یہ بات قبول کرنے لگا ہے کہ جمال خاشقجی کو سعودی اعلی سطحی حکام کے حکم پر طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا ہے۔
 
سعودی حکمرانوں کے پاس اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی میڈیا نے اس سلسلے میں پراپیگنڈہ مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سعودی میڈیا اس پراپیگنڈے کے ذریعے اپنے ہمیشہ کے ہتھکنڈے بروئے کار لاتے ہوئے عالمی رائے عامہ کی توجہ مذکورہ بالا حقائق سے ہٹانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں سعودی نیوز چینل "العربیہ" نے جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح خاشقجی سے ایک انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس انٹرویو کے ذریعے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس انٹرویو میں صالح خاشقجی نے حیرت انگیز دعوی کرتے ہوئے کہا: "بعض غیرملکی عناصر میرے والد کی گمشدگی کے مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس کے مخالف ہیں۔ خاشقجی ایک سعودی شہری تھے جو گم ہو گئے ہیں اور ہم سعودی حکام کے تعاون سے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ مسئلہ ایک شخصی مسئلہ ہے اور سیاسی مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ آخری بار ہماری ان سے اس وقت فون پر بات ہوئی تھی جب وہ واشنگٹن میں تھے اور ہم ان کی ترکی آمد سے باخبر نہیں تھے۔"
 
آل سعود رژیم کے تعیین کردہ اہداف کی روشنی میں اس انٹرویو کا مصنوعی ہونا انتہائی واضح ہے۔ العربیہ نیوز چینل نے اپنا موقف مقتول جمال خاشقجی کے قریبی فرد کی زبان سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ میں اپنے تاثر کو زیادہ سے زیادہ معتبر بنانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں اعلی سطحی سعودی حکام کے براہ راست ملوث ہونے پر اس قدر ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ اس مسئلے کا ذاتی ہونے جیسے بچگانہ بیانات کے ذریعے معرض وجود میں آنے والی بحرانی صورتحال کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح الحدث نیوز چینل نے بھی جمال خاشقجی قتل اسکینڈل سے سعودی حکام کو مبری کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس چینل نے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے اقتدار کے حصول کیلئے انجام پانے والے اقدامات سے چشم پوشی کرتے ہوئے جمال خاشقجی کے قتل سے محمد بن سلمان کے تعلق کا انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
 
سعودی میڈیا کی اس تگ و دو کا مقصد جمال خاشقجی کے مشکوک قتل کے نتیجے میں پیدا شدہ اضطراب اور بے چینی کی فضا ختم کرنا ہے۔ لیکن نہ صرف یہ فضا ختم نہیں ہوئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں اور جمال خاشقجی کے قتل میں موجود پیچیدگیاں فضا کو مزید گرما رہی ہیں۔ اس کیس میں آل سعود رژیم کے خلاف سامنے آنے والے ثبوت اس قدر زیادہ ہیں کہ حتی امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی سعودی میڈیا کی شروع کردہ کمپین کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بارے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ترکی کے دو باخبر سکیورٹی ذرائع کی زبانی لکھا ہے: "خاشقجی کا قتل پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے نتیجے میں انجام پایا ہے اور اس مقصد کیلئے سعودی عرب سے ایک ٹیم ترکی آئی تھی۔" باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ٹیم پندرہ افراد پر مشتمل تھی جو جمال خاشقجی کے قتل کی براہ راست ذمہ دار ہے۔ دوسری طرف سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے گذشتہ ہفتے امریکی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ جمال خاشقجی استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ دیر بعد ہی وہاں سے باہر نکل گئے تھے۔
 
سوشل میڈیا پر سرگرم سعودی عرب کے معروف حکومت مخالف صارف "مجتہد" نے ایسے حقائق فاش کئے ہیں جن کے نتیجے میں سعودی میڈیا کا کام اور مشکل ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر پیغام دیتے ہوئے لکھا: "ترکی کے ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی ٹارچر کئے جانے کے بعد قتل کر دیئے گئے ہیں اور ان کی لاش کے بھی ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ اس واقعے کی تصاویر بھی موجود ہیں۔" مجتہد نے اپنے پیغام کو جاری رکھتے ہوئے لکھا: "جمال خاشقجی کو ٹارچر کرنے اور انہیں قتل کرنے کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی گئی جو سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کو بھیجی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ خبر درست نہیں کہ جمال خاشقجی کو ترکی سے نکال کر سعودی عرب لے جایا گیا ہے۔" سوشل میڈیا صارف مجتہد کے ان انکشافات نے سعودی خاندان کے خلاف ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ اب جمال خاشقجی کے مشکوک قتل کی خبریں اتنے بڑے پیمانے پر پھیل گئی ہیں کہ سعودی میڈیا بھی اس بارے میں کچھ کرنے سے قاصر ہو چکا ہے۔
 
بہرحال، حقیقت یہ ہے کہ جمال خاشقجی کے مشکوک قتل سے متعلق نئے حقائق منظرعام پر آنے کے بعد رائے عامہ میں سعودی حکام کی پوزیشن انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ خاص طور پر اب جبکہ اسی دن جس دن جمال خاشقجی گم ہوئے ترکی جانے والے پندرہ سعودی شہریوں کی شناخت بھی ہو چکی ہے اور ان کی تصاویر بھی میڈیا پر آ چکی ہیں۔ اس بارے میں ترکی کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے ترکی آنے والے یہ پندرہ افراد اسی وقت استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے جب جمال خاشقجی وہاں موجود تھے۔ یہ افراد سعودی سکیورٹی فورسز کے افراد تھے۔ سعودی حکام خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب جمال خاشقجی قتل کیس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہو چکی ہے اور ان کے پاس فرار کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔ اقوام متحدہ کے آزادی اظہار کے خصوصی رپورٹر ڈیوڈ کے نے جمال خاشقجی قتل کے بارے میں تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "اس بارے میں بین الاقوامی سطح پر آزاد تحقیق انجام پانے کی ضرورت ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "اگر جمال خاشقجی کے قتل کی تصدیق ہو جاتی ہے تو اقوام متحدہ کی آزادی اظہار کمیٹی عالمی برادری سے مطالبہ کرے گی کہ ان کے قتل میں ملوث افراد کی گرفتاری اور سزا کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مجرمانہ اقدامات کے دیگر پہلو بھی منظرعام پر آتے جائیں گے۔ 
خبر کا کوڈ : 755166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش