0
Thursday 11 Oct 2018 15:30

اسٹیل ملز کیسے بحال ہوگی، حکومت کیلئے بڑا چیلنج

اسٹیل ملز کیسے بحال ہوگی، حکومت کیلئے بڑا چیلنج
رپورٹ: ایس ایم عابدی

گزشتہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کے بے قابو ہونے سے گزشتہ ادوار میں پاکستان کے کئی منافع بخش ادارے تباہ ہوکر رہ گئے۔ ان اداروں میں سر فہرست پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز ملک میں اسٹیل کی مصنوعات اور خام لوہے سے خالص لوہا نکالنے کی صلاحیت رکھنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارے کا زوال تو زرداری حکومت میں ہی شروع ہوگیا تھا لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد بھی ادارے کے حالات میں کسی قسم کی بہتری نہ آئی بلکہ ادارے کے حالات پہلے سے بھی بدتر ہوگئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پر مخالفین کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا تھا کہ شریف خاندان اپنے اسٹیل کے کاروبار کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی اسٹیل ملز کی بحالی کی جانب توجہ ہی نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی ملازمین نے اسٹیل ملز کی بحالی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے مطالبات کر ڈالے۔ اس ضمن میں ملازمین کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔ واضح رہے کہ اسٹیل ملز میں ٹریڈ یونین کے ریفرنڈم کی انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے رہنما اور موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر اسٹیل ملز آیا کیا کرتے تھے اور یہ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے کہ حکومت آتے ہی اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے کام کیا جائے گا۔ انہیں دعوؤں کے نتیجے میں اسٹیل ملز سے ملحقہ آبادیوں کے عوام نے انتخابات 2018ء میں تحریک انصاف کے نمائندوں کو بڑی تعداد میں ووٹ دیا۔

تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی اسٹیل ملز کے ملازمین کو ایک ریلیف یہ ملا کہ انکی تنخواہیں ادا کردی گئیں۔ اسٹیل ملز ملازمین کو اگست کی تنخواہیں ادا کردی گئی ہیں جبکہ تاحال ستمبر کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی۔ ساتھ ہی یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے تاحال کوئی اقدامات نظر نہیں آئے۔ کیا حکومت ملازمین کو اپنے خزانے سے ہی تنخواہیں ادا کرتی رہے گی؟ کیا اسٹیل ملز کی بحالی کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے؟ اسٹیل ملز کے ملازمین کی رہائشی آبادی پاکستان اسٹیل ٹاؤن کا بھی وہی حال ہوگیا تھا جو اسٹیل ملز کا ہے۔ پاکستان اسٹیل ٹاؤن میں صفائی کے ناقص انتظامات دیکھنے میں آتے تھے۔ ساتھ ہی گھروں میں مرمت کا کام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت بھی خراب ہوتی جارہی ہے۔ حال ہی میں اسٹیل ٹاؤن ڈیپارٹمنٹ کے منتخب ہونے والے انچارج شوکت خان مشوانی اور ان کے ماتحت افسر ارشد خان نے اپنی ذاتی کوششوں سے اسٹیل ٹاؤن میں صفائی کا نظام بہتر کیا۔ اسٹیل ٹاؤن میں جو پارک تباہ برباد ہوچکے تھے انہیں دوبارہ آباد کیا۔ آبادی کے گھروں میں مرمت کا کام بھی کیا جارہا ہے لیکن تاحال اسٹیل ٹاؤن میں ترقیاتی کاموں کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اسٹیل ٹاؤن ڈپارٹمنٹ کے افسران کا کہنا ہے کہ ادارے کے حالات کی وجہ سے فنڈز کی کمی ہے، محدود وسائل میں پورے علاقے کو پہلے جیسا بنا دینا آسان نہیں لیکن بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ مل کر اور دستیاب وسائل کے استعمال سے جلد علاقے کو رہائش کے لئے بہتر سے بہترین بنا دیں گے۔

اسٹیل ملز کے موجودہ ملازمین اور رہائشی آبادی کے مسائل تو اپنی جگہ اس وقت اسٹیل ملز سے کئی سال قبل ریٹائر ہوجانے والے بزرگ ملازمین بھی اپنے واجبات کی ادائیگی کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یکم مئی 2013ء سے لیکر اب تک ریٹائر ہونے والے ملازمین کو ان کے واجبات انتظامیہ کی جانب سے ادا نہیں کئے گئے۔ کچھ ملازمین نے اس ضمن میں عدالت کا سہارا لیا جس کے بعد انہیں عدالتی حکم کے بعد واجبات کی ادائیگی کردی گئی لیکن ملازمین کی اکثریت تاحال اپنے جائز حق سے محروم ہے۔ واجبات سے محروم یہ افراد اس وقت اپنے واجبات کی ادائیگی کیلئے موجودہ حکومت اور معزز عدلیہ سے امید لگائے ہوئے ہیں۔ اسٹیل ملز کے حالات کے باعث ملازمین کی جانب سے ماضی میں خودکشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھایا گیا ہے جبکہ کئی ریٹائرڈ ملازمین اب بھی ایسے ہیں جو واجبات نہ ملنے کی وجہ سے فاقوں پر مجبور ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف اسٹیل ملز کی بحالی میں ہے۔ اسٹیل ملز کی بحالی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے، بحالی کی صورت میں ادارے کو باصلاحیت ملازمین کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، تجربہ کار ملازمین کی اکثریت یا تو ریٹائر ہوچکی ہے یا ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ اسٹیل ملز کے شعبہ میٹرولوجیکل ٹریننگ سینٹر کے ذریعے نئے بھرتی ہونے والوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ ایم ٹی سی سے 4500 نئے بھرتی ہونے والوں کو تربیت دینے کا انتظام ہوتا تھا لیکن 2014ء سے تربیتی مرکز غیر فعال اور بند ہے۔

اب ممکنہ نئے بھرتی ہونے والوں میں پلانٹ پر کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی جب کہ 2020ء تک تیزی سے ریٹائرمنٹ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اسٹیل ملز کی بحالی ہونے پر مختلف پلانٹس پر کام کرنے کے لئے نئے اور ماہر ملازمین موجود نہیں ہوں گے جس سے ایک بار پھر اسٹیل ملز کا ادارہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہو سکتا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنے وعدوں کے مطابق اسٹیل ملز کی جانب توجہ دینی ہوگی، سب سے پہلے حکومت کو ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات ادا کرنا ہوں گے، ادارے سے ریٹائرڈ ہونے والے ماہر افراد میں سے بہترین کا انتخاب کرکے ان افراد کو ادارے کی بحالی کا ٹاسک دینا ہوگا، حکومت کو پہلے مرحلے میں اسٹیل ملز کے ان ڈپارٹمنٹ کو بحال کرنا ہوگا جو اس وقت مکمل طور پر بند نہیں ہوئے۔ حکومت کی جانب سے اسٹیل ملز میں نئے اور ماہر افراد کو بھی ہائر کرنا ہوگا تاکہ ادارے کو افرادی قوت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آمدنی کے حصول کیلئے انتظامیہ کے پاس ایک راستہ یہ بھی ہے کہ اسٹیل ملز کی ملکیت زمین کو رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی صورت میں فروخت کرسکتی ہے۔ اسٹیل ملز ملازمین پر امید ہیں کہ حکومتی دعوؤں کے عین مطابق 100 دن بعد ان کی زندگیوں میں تبدیلی کی نوید آئے گی۔
خبر کا کوڈ : 755286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش