0
Thursday 11 Oct 2018 13:28

ریڑھی بانوں کے اکائونٹس میں اربوں روپے

ریڑھی بانوں کے اکائونٹس میں اربوں روپے
تحریر: طاہر یاسین طاہر

خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟

غالب نے کسی اور پس منظر میں یہ اشعار کہے تھے، غلام رسول مہر کی شرح غالب اس پہ شاہد ہے۔ مجھے مگر غالب کے کسی شعر کی شرح تھوڑی لکھنی ہے؟ سامنے کا دکھ ہے، جس کا نوحہ کرنا ہے۔ حکمران طبقہ ویسے بھی خوشامدیوں کے نرغے میں اپنی حیات کو زیادہ محفوظ پاتا ہے۔ حیرت کے کئی باب یکایک کھل جاتے ہیں۔ جتنی محنت، جتنی ریاضت ہم دوسروں کو دکھ دینے اور فراڈ کی نئی نئی اقسام ایجاد کرنے میں کرتے ہیں، اس سے آدھی محنت بھی اگر ہم راست بازی و راست سازی پہ کریں تو کسی کو نیب سے انڈر ہینڈ ڈیل کی ضرورت ہی نہ رہے۔ زمانہ مگر رحم دلی نہ سکھاتا ہے، نہ خود رحم دل ہوتا ہے۔ چند ایام ادھر کی بات ہے، ایک مانگنے والے نے ڈیم فنڈ میں تقریباً دس لاکھ روپے جمع کرائے تو سر چکرانے لگا۔ فوراً طارق عزیز شو کا ایک سین ذہن میں گھومنے لگا، پیشہ ور بھکاریوں سے انٹرویو لیا جا رہا تھا اور وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے تھے کہ سارا دن محت مزدوری کرنے سے بہتر ہے چند لمحے کو ہاتھ پھیلا دیا جائے۔ اس سے آمدن زیادہ ہوتی ہے۔ کالم کا رخ مگر بدلنے نہیں دوں گا۔ اگر اس وقت، آج سے کوئی پندرہ بیس برس قبل بھی ایف بی آر، ایف آئی اے، یونہی بے نامی اکاونٹ یا آمدن سے زائد اثاثوں کی چھان پھٹک دیانتداری سے کرتے تو معاملات اس قدر نہ بگڑتے۔

حیرت اور انسانی نفیسات کا گہرا تعلق ہے۔ اربوں کھروں روپے کے فراد/ٹرانزیکشن اور آمدن سے زائد اثانوں کے بارے چھان پھٹک کا فیصلہ کیا گیا تو ہوش ربا انکشافات ہونے لگے۔ جس سماج میں عدل نہ ہو، وہاں بد دیانتی کی ایسی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ فالودہ فروش کے اکاونٹ میں کوئی ایک ارب اور 27 کروڑ روپے کا انکشاف ہوا۔ ٹیکس کا نوٹس ملا تو بے چارے کے اوسان خطا ہوگئے۔ ایک بار تو  سوچا ہوگا کہ کاش مجھے علم ہوتا اور میں ان میں سے کچھ پیسے نکلوا سکتا؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق بے چارہ فالودہ فروش ایف بی آر کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد اس قدر دبائو کا شکار ہوا کہ بیمار ہوگیا۔ دو چار سو کی جو دیہاڑی لگاتا تھا، اس سے بھی گیا۔ اس خبر کی گرد ابھی بیٹھی بھی نہ تھی کہ جھنگ کے ایک بے روزگار نوجوان کے نام پر کھلے اکائونٹ میں کروڑوں روپے کا انکشاف ہوا۔ وہ بے چارہ بھی ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب وغیرہ کو بیان ریکارڈ کرانے کے لئے طلب کر لیا گیا ہے۔

انہی حیرتوں میں گم تھا کہ نئی خبر سامنے آئی۔ حیدر آباد کا غریب ڈرائیور بھی راتوں رات کروڑ پتی بن گیا۔ کنٹونمنٹ کا غریب ملازم جب تنخواہ نکلوانے گیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس کے اکائونٹ میں تو 5 کروڑ سے زائد کی رقم موجود ہے۔ صرف فالودہ فروش، غریب ڈرائیور ہی نہیں بلکہ کراچی کے ایک تاجر کے شناختی کارڈ پر چار لگژری گاڑیاں بھی خریدی گئی ہیں، جن سے تاجر نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ کراچی کے محکمہ صحت کی ایک تیسرے درجے کی ملازمہ ہے جس بے چاری کو دو ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ اسے ایف آئی اے کی جانب سے ایک کروڑ بیس لاکھ ٹیکس کا نوٹس ملا تو اس بے چاری کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس خاتون کے نام پر ایک جعلی کیمیکل کمپنی بھی رجسٹرڈ ہے۔ خاتون کا موقف ہے کہ جعلی اکائونٹ میں اس کا شناختی کارڈ اور موبائل نمبر استعمال کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے حکام نے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کو ان کیمرہ بریفنگ میں بتایا کہ بے نامی اکائونٹس کے متعلق تحقیقات کے دوران بینک عملے نے انکشاف کیا کہ ایسے اکائونٹ کھولنے کے لیے "اوپر" سے ہدایات ملتی تھیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ بینک کو بند کیا جائے۔ ایف آئی اے نے سائبر کرائم کیسز کے متعلق بھی غیر معمولی اضافے کے امکان کا اظہار کیا ہے۔ اندزاہ کیجیے چیئرمین کمیٹی نے بھی کہا کہ ان کے نام کا جعلی اکائونٹ کوئی اور چلا رہا تھا۔ غالب پھر یاد آتے ہیں۔"ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے" شنید ہے کہ جوں جوں تحقیقات آگے بڑھتی جائیں گی، مزید بے نامی اکائونٹس سامنے آئیں گے۔ کیا یہ ضروری نہیں کہ ان "اوپر" والوں کے نام اور کارنامے طشت ازبام کئے جائیں؟ جن کی وجہ سے غریبوں کی جان پہ آئی ہوئی ہے؟ ایف آئی اے، ایف بی آر اور نیب جیسے ادارے اپنا کام سرعت سے کرتے رہیں گے اور ان شاء اللہ فراڈیوں کا مکمل سراغ  لگائیں گے۔مگر ہم دوسری جانب دیکھتے ہیں تو امید کی روشن کرن مدھم ہوتی نظر آتی ہے۔

ایان علی کا کیس تو ابھی تک کسی نتیجے کے قریب بھی نہیں پہنچ پایا۔؟ جن ارب پتی فراڈیوں نے بینک افسران کے ساتھ مل کر جعلی اکائونٹس کھولے ہوئے ہیں، نادرا کی مدد سے ان تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ایک تجویز ہے، اس سے زیادہ اخبار نویس کر بھی کیا سکتا ہے؟ فالودہ فروش سے غریب ڈرائیور اور جھنگ کے بے روزگار نوجوان سے محکمہ صحت کی ملازمہ تک، جتنے بھی افراد کے نام پر جعلی اکائونٹس کا انکشاف ہوا ہے، ان تمام افراد کو اکائونٹ میں موجود رقم کا 40 سے 50 فی صد فوری ادا کرکے باقی رقم بحق سرکار ضبط کر لی جائے۔ جب کسی غریب کا بجلی کا بل پانچ سو سے زائد آجائے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے؟ یہ کوئی غریب ہی جان سکتا ہے اور اگر کسی غریب ریڑھی بان، بےروزگار کو حکومت کی طرف سے کروڑوں روپے ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس مل جائے تو اس کی حالت کیا ہوگی؟ اس کا انداہ ہی کیا جا سکتا ہے، لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔
خبر کا کوڈ : 755316
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش