0
Saturday 13 Oct 2018 11:30

سفارتخانوں میں قتل، انسانیت مرگئی ہے کیا؟؟؟

سفارتخانوں میں قتل، انسانیت مرگئی ہے کیا؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چند روز پہلے یہ خبر آئی کہ  سعودی عرب کے مشہور صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے میں قتل کر دیا گیا ہے۔ جمال خاشقجی کا شمار سعودی عرب کے معروف صحافیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی زندگی بھی اتار چڑھاو کا شکار رہی۔ کبھی وہ حکومت کے بہت قریب چلے جاتے اور کبھی شدید ناقد بن جاتے تھے۔ جب سعودی حکومت نے الجزیزہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک ٹی وی چینل بنانے کا اعلان کیا تو اس کا سربراہ انہیں ہی بنایا گیا۔ انہوں نے اپنی مغربی تربیت کے بے مہار آزادی کے اظہار کے طور بحرین میں قائم اس چینل پر  بحرینی حزب اختلاف کے نمائندہ کو بلا لیا، ان کا انٹرویو چلنا تھا کہ جہاں ٹی وی چینل ڈوب گیا، وہیں یہ بھی مغضوبِ شاہی ٹھہرے۔ اس کے علاوہ یہ سعودی شاہی خاندان کے بعض افراد کے بھی بہت قریب رہے تھے، کچھ عرصہ سے یہ محمد بن سلمان کے شدید ناقدین میں شامل ہوگئے تھے، انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لئے لکھے گئے کئی آرٹیکلز ان کے وژن ٹونٹی تھرٹی اور بالخصوص آزادی اظہار اور سعودی عرب میں جاری سیاسی گھٹن کے شدید خلاف لکھا۔ ان کا یہی رویہ سعودی حکومت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، اس لئے حکومت ان کے شدید خلاف ہوگئی۔ جمال خاشقجی نے جلاوطنی اختیار کر لی اور ترکی منتقل ہوگئے۔ یہاں پر بھی ان کا قلم سعودی استبداد کے خلاف لکھتا رہا، جس کی وجہ سے سعودی عرب یہ سمجھتا تھا کہ یہ بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کو بدنام کر رہے ہیں، ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بادشاہتیں جو خاندانی طور پر مسلط ہوتی ہیں، وہ آزادی اظہار کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتی ہیں۔ لکھنے اور بولنے کے ذریعے جب لوگ ان کے ظلم کو دنیا کے سامنے آشکار کرتے ہیں تو یہ لوگ تلملا اٹھتے ہیں۔ سعودی عرب میں جب سے محمد بن سلمان ولی عہد کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، انہوں نے بڑی تیزی سے ہر اس قوت کو پوری قوت سے دبانے کی کوشش کی ہے، جو ان کے خلاف تھی۔ شیخ نمرؒ کی پھانسی کے معاملے کو زیادہ تر لوگوں نے شیعہ سنی تناظر میں دیکھا، درحالانکہ شیخ نمر ؒ سے بنیادی اختلاف آل سعودی کے سیاسی مظالم پر تھا، جس کی وجہ سے مشرقی علاقے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ ان میں بسنے والے لوگ پسماندہ رہ گئے ہیں۔ شیخ نمرؒ کی آواز نے آل سعود کے استبداد  کو چیلنج کیا تھا، ان کے جبر کو للکارا تھا اور دنیا کو ان کا اصل چہرہ دکھایا تھا، جس کی وجہ سے ان کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔

سفیر اور سفارتخانہ امن کی علامت ہوتے ہیں، بالخصوص جب انسان وطن سے باہر ہوتا ہے تو اپنے ملک میں شدید سیاسی اختلافات کے باوجود  اپنے ملک کے سفارتخانہ میں اپنایت اور تحفظ محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمال خاشقحی نے کچھ خاندانی معاملات کے حل کرنے کے لئے سفارخانے جانے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ سفارتخانے میں داخل ہوئے، اس وقت سے لیکر اب تک ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ اسی دوران سعودی عرب سے ایک وفد سفارتخانے پہنچا ہے اور جلد ہی واپس روانہ بھی ہوگیا ہے، شائد ان کا اس واقعہ میں کوئی کردار ہو۔ ترکی حکام  نے جمال خاشقحی کی گمشدگی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور  تحقیقات کا اعلان کیا۔ سعودی عرب نے ان کے قتل کی تردید کی اور کہا کہ وہ آئے تھے اور واپس چلے گئے، مگر وہ کوئی بھی ایسا ثبوت دینے میں ناکام رہے، جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ واپس چلے گئے ہیں۔ اب یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ ان کو قتل کر دیا گیا ہے اور اس واقعے کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ترک حکام کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ ریکارڈنگز دیکھی یا سنی ہیں یا نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ جمال خاشقجی پر تشدد کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قتل کرنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔

سفارخانہ جو امن کی جگہ ہے، جہاں دوران جنگ بھی بمباری نہیں کی  جاتی، جہاں داخل ہو جانے والوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب نے بڑی پتے کی بات لکھی کہ واضح رہے کہ یہ استثنا صرف سفیر کی ذات کو نہیں بلکہ سفارت خانے کی عمارت کو اور سفیر کے سامان (luggage) کو بھی حاصل ہے اور ان کو سفیر کی ذات کی طرح کسی بھی اقدام سے محفوظ (inviolable) مانا جاتا ہے۔ پس یہ سامان اور زمین کا یہ ٹکڑا ریاست میں موجود ہونے کے باوجود اس کے قانون کے اطلاق کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ اسی محفوظ جگہ پر ایک شخص کو کام کے سلسلے میں بلایا جاتا ہے اور وہ کبھی باہر نہیں آتا، جبر سے حکومتیں زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتیں، آج نہیں کل  لوگوں کو ان کا حق دینا پڑے گا، اس طرح کے کام کرکے سعودی عرب کی حکومت اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

چند دن پہلے تک جمال خاشقعی کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا، وہ ایک انگیریزی اخبار میں آرٹیکل لکھتا تھا، جس کو عربوں کی اکثریت پڑھتی ہی نہیں تھی، اس آواز کو برداشت کرکے اپنا اچھا امیج بنایا جا سکتا تھا کہ  ہم مخالفین کو بھی برداشت کرتے ہیں، لیکن طاقت کا نشہ بڑی عجیب چیز ہے، اس میں صرف خوشامد کرنے والے اچھے لگتے ہیں اور ہر وہ شخص زمین پر بوجھ محسوس ہوتا ہے، جو کسی بھی بات میں ذرا سی مخالفت کرے۔ نئے سعودی عرب کی تعمیر میں امریکہ بہادر کے سامنے مکمل لیٹ جانے والے محمد بن سلمان اپنے لوگوں کے لئے اتنے ظالم واقع ہوئے ہیں کہ شیخ نمرؒ سے لیکر درجنوں سلفی علماء کو قتل کرچکے ہیں اور ابھی بھی ان کو اپنی حکومت خطرے میں محسوس ہو رہی ہے، جسے بچانے کے لئے اب ان کا یہ ظلم بارڈر کراس کرکے ترکی پہنچ چکا ہے، جہاں تمام بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے ایک پڑھے لکھے آدمی کو نہ صرف قتل کیا  گیا بلکہ اس کی لاش کے  بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ داعش بھی تو یہی کام کرتی تھی، جو اب یہ لوگ سفارتخانوں میں کر رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ  لشکر روانہ کرتے ہوئے اسلامی لشکر کو جو ہدایات دیا کرتے تھے، ان میں سے ایک یہ ہدایت یہ تھی کہ قتل کے بعد مثلہ نہیں کرو گے، یہ تو جنگ کی بات تھی، محمد بن سلمان  کی حکومت نے تو ایک عام شہری کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔

ترک صدر کی طرف سے اس واقعہ پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، اس نے اس واقعہ پر تیزی سے تحقیقات کی ہیں اور ساتھ میں کہا ہے کہ اگر اس واقعہ میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ محمد بن سلمان کے حقیقی حکمران ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکی شہری بھی تھے، یہی وجہ کہ امریکی سینٹ کے ایک گروپ نے ٹرمپ سے اس واقعہ میں مداخلت اور سعودی عرب کے ملوث ہونے کی صورت میں پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا ہے، یہ تو شائد نہ ہو، لیکن دباو ضرور پڑے گا اور سعودی عرب مزید امریکی غلامی میں چلا جائے گا۔ آل سعود سعودی عوام کو آج سے سو سال پہلے کے معاشرے کے طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جب ڈرا کر اور سنسر شپ لگا کر حالات پر قابو پا لیا جاتا تھا، اب ایسا ممکن نہیں رہا ہے، اب دنیا تبدیل ہوچکی ہے، چھوٹا سا واقعہ بین الاقوامی  حالات پر اثر انداز ہوتا ہے، ایسے میں جبر، ظلم اور قتل کے ذریعے سے آمریت کی زیادہ دیر بقا ممکن نہیں ہے۔ اپنی پالیسی امریکی مفاد کی بجائے اپنے مفاد پر بنائیں اور یمن سے لیکر سیریا تک کے قتل عام سے دستبردار ہو کر خطے میں امن پیدا کریں، یہی آپ اور تمام ممالک کے مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 755536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش