0
Saturday 13 Oct 2018 20:13

قیام امام حسین (ع) کے اہداف امام خمینی (رہ) کی نظر میں (1)

قیام امام حسین (ع) کے اہداف امام خمینی (رہ) کی نظر میں (1)
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

مقدمہ:
کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتبہ فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کا ہو درس ملتا ہے، یہاں تک غیر مسلم ہندو، زرتشتی، مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں، گاندھی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے، یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام  نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں  کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام  کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام  کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنی آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لیا اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا  گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے:
میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری
میرا ہونا غلام حضرت شبیر ہونا  ہے


61 ہجری کی ابتدا ہی میں نواسہ رسول ؐ کربلا میں پہنچ کر خیمہ زن ہو گئے تھے، نہ صرف نواسہ رسولؐ بلکہ رسول خدا کے اہلبیت ؑ اور دیگر رشتہ دار بھی کربلا کے میدان میں پہنچ کر مستقبل قریب کے منتظر تھے۔ زمین کربلا مضطرب دکھائی دے رہا تھا جبکہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ آلہ وسلم و با وفادار اصحاب راز و نیاز اور دعا و مناجات میں مصروف نظر آرہے تھے۔ آل محمد کا یہ قافلہ نئے سال کے شروع میں ہی ایک تپتی ہوئے ریگستان میں پہنچ چکے تھے اور نواسہ رسولؐ اپنے ساتھیوں کو شہادت کی خوشخبریاں سنا رہے تھے۔ یہ وہی حسین علیہ السلام تھے جن کی شان میں رسولؐ خدا نے فرمایا تھا: "حُسَيْنٌ مِنّى وَ أَنـَا مِنْ الحُسَيْن، أَحَبَّ اللّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً" ۱۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ یہ رسول اللہ ؐ کا وہی نور نظر تھا کہ جب آنحضرت رب کے حضور سر بسجود ہوئے تو آپ رسول خدا کے پیٹ پر سوار ہوئے اور رسول اللہ حکم خدا کے منتظر رہے اور رب کی طرف سے حکم ہوا کہ جب تک یہ معصوم بچہ خود سے نہ اترے آپ سجدے کی حالت میں ہی رہیں۔ آج یہی عظیم ہستی، اللہ کا یہی محبوب بندہ حج کو عمرے میں تبدیل کر کے کربلا پہنچ چکا تھا تاکہ اموی استبداد اور ظالم و جابر حکمران کے ہاتھوں جان بلب اسلام کو ایک دفعہ پھر نئی زندگی عطا کرے اور اسلامی معاشرے کو اپنی خطوط پر استوار کرے جن خطوط پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استوار فرمایا تھا۔

اسلامی تہذیب سے رخ پھیر کر جاہلیت کی طرف پلٹنے والی قوم کو پھر سے قرآن و سنت کے سائے میں بندگی کا درس اور تربیت دے کر پھر سے ایک مہذب قوم میں بدل سکیں۔ نواسہ رسول پہلے سے مطلع تھے کہ اگر حج کو عمرے میں تبدیل نہ کریں تو شام کے درندہ صفت انسان جو حاجیوں کی روپ میں تھے حسین ابن علی ؑکو خانہ خدا میں ہی شہید کر دیتے۔ نواسہ رسول نے مناسب نہ سمجھا کہ حرم پاک کی حرمت پامال ہو جائے، اس لئے آپ عمرہ کر کے بیت اللہ کی حرمت کو محفوظ رکھتے ہوئے کربلا پہنچ گئے ۔ جس اسلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان کی ہتھیلی میں رکھ کر بڑی کوششوں اور ہزار زحمتوں، اذیتوں کو برداشت کر کے پالا تھا آج وہی اسلام سرے سے مٹ رہا تھا اور مسلمانوں کے قلب و نظر میں اس کی جڑیں اس حد تک کمزور ہو چکی تھی کہ جب تک خون سے انہیں سیراب نہ کیا جاتا اسلام کا زندہ رہنا محال نظر آرہا تھا۔ اس پس منظر میں نواسہ رسول ؐ نے یہ اعلان کرتے ہوئے قیام فرمایا "إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِ جَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبي طالِب" ۲۔ میرا مقصد دنیاوی حکومت یا مال و زر کا حصول نہیں بلکہ اپنے نانا محمد مصطفیؐ اور بابا علی مرتضیٰ ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت محمدی کی اصلاح کرنا  ہے۔ مفسدوں ،ظالموں اور جابروں کے تباہ کاریوں سے دین اور مسلمانوں کو نجات دلانا ہے اور خون کے پیاسے درندہ صفت انسانوں کے مقابلے میں اسلام کی آبیاری کرنا ہے۔

دین محمد ؐ کا سورج جواپنی روشنی کھو چکا تھا ایک دفعہ پھر بڑی آب وتاب سے طلوع ہوا اور اپنی کرنوں کے ذریعے دنیا والوں کو بتلا دیا کہ کربلامیں نواسہ رسولؐ نے ہمیشہ کے لئے اسلام کا علم بلند کیا ہے۔قیامت تک نواسہ رسولؐ کی یاد دنیا والوں کو  یہ درس دیتا رہے گا کہ کسی ظالم ،فاسق و فاجر کی بیعت کی ذلت قبول کرنے سے عزت کی موت بہتر ہے ۔ "الموت أولى من رکوب العار والعار أولى من دخول النار"۔۳۔ امام خمینی (رہ) اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل در نسل لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور معارف الٰہی کے حصول کے لئے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرنا چاہیئے۔ آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دیئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلٰی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا۔ آپ نے جلا وطنی کے عرصہ میں بھی تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھی بھی اپنی جدوجہد سے ہاتھ نہیں کھینچا اور اپنی تقریروں اور پیغامات کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں کامیابی و فتح کی امید زندہ رکھی۔ چار جون 1989ء کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔

آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے، خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمٰن و رحیم سے دعا کرتا ہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کر دیں اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے۔ امام خمینی مکتب حسینی کے شیدائی تھے۔ آپ اتحاد امت کے داعی اور مجاہد مبارز عالم دین تھے آپ نے جو راستہ اختیار کیا وہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی عزت، سربلندی اور افتخار کا راستہ ہے۔ آپ کی باتیں، آپ کی تحریریں، آپ  کی تقریریں اور آپ کی روشن فکر آہنی عزم، ثابت قدمی، شجاعت، غیرت، قوت فیصلہ غرض ہر ہر پہلو میں امام حسین علیہ السلام کے کردار اور عزم صمیم کا عکس نظر آتا ہے۔ امام خمینیؒ خود فرماتے ہیں ہم جو کچھ بھی ہیں اور ہماری کامیابیاں یہ سب حضرت امام حسین علیہ السلام اور کربلا کے واقعہ کا عکس و درس ہے۔

اس مقالہ کا موضوع  "قیام امام حسین علیہ السلام  کے اہداف امام خمینی رہ کی نگاہ  میں " ہے ۔ امام خمینی (رہ) کی گفتگو  میں قیام عاشورا کے جو  اہداف بیان ہوئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ دین اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا
۲۔ اسلامی معاشرے کی اصلاح
۳۔ ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی‏
۴۔ امر بالمعروف و نہی از منکر
۵۔ اسلامی حکومت کا قیام
۶۔ اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت
۷۔ الٰہی ذمہ داری پر عمل کرنا۔
واضح رہے کہ یہ اہداف  ایک دوسرے کے مقابل میں نہیں بلکہ ان اہداف میں سے بعض ہدف کو دوسرے اہداف  کے ساتھ جمع کر سکتا ہے۔ امام خمینی کے کلمات میں ان میں سے ہر ایک ہدف کی تاکید ہوئی ہے۔ علاوہ بر ایں ان میں سے ہر ایک ایک الٰہی قیام کے لئے مستقل ہدف بن سکتا ہے۔  اس لئے ان تمام موضوعات کے بارے میں بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔۴۔

‏‏۱۔ دین  اسلام کو تحریف ہونے سے بچانا:
کسی مکتبہ فکر کی تحریف اس مکتبہ فکر کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے کسی بھی مکتب اور مذہب میں بدترین تحریف یہ ہے کہ اس مکتب کے رہبران اور سیاستدان اس مکتب اور مذہب کے قوانین اور دستورات کے برخلاف عمل کریں لیکن دوسرے افراد کے سامنے اپنے گفتار و کردار کو اس مکتب کے قوانین، دستورات اور تعلیمات کے عین مطابق سمجھنے لگے۔ ‏امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں بھی اموی مشینری کی طرف سے  اسلام کے لئے اس قسم کا خطرہ موجود تھا اگر اس دور میں امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو  اسلام کا صرف نام باقی رہ جاتا۔ امام خمینی اس سلسلے میں فرماتے ہیں، ظالم و جابر یزیدی حکومت کا ارادہ تھا کہ  سرخ قلم سے اسلام کے نورانی چہرے پر لکیر کھینچے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صدر اسلام کے مسلمانوں کی زحمتوں اور شہداء کے پاکیزہ  خون کو رایگان اور ضائع کرے۔ ایک اور مقام پر امام خمینی فرماتے ہیں، بنی امیہ نے اسلام کو ایک طاغوتی نظام کے طور پر پیش کیا، یہاں تک کہ بانی اسلام کے چہرے کو بھی حقیقت کے برعکس پیش کیا۔ معاویہ اور اس کے ظالم بیٹے یزید نے خلیفہ رسول خدا کے عنوان سے اسلام کے ساتھ اس طرح سے سلوک کیا جس طرح چنگیز خان نے ایران کے ساتھ سلوک کیا اور اس دین کو جس کی بنیاد وحی پر تھی ایک شیطانی رژیم میں تبدیل کیا۔

ایک اور جگہ امام خمینی فرماتے ہیں، سید الشہداء امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ معاویہ اور اس کا بیٹا اس عظیم مکتب کو تباہ کر رہے ہیں اور اسلام کے اصلی اور حقیقی چہرے کو مسخ کر کے پیش کر رہے ہیں۔ وہاں جماعتیں تھیں تو بھی لہو و لعب کی مجالس برپا ہوتی تھیں۔ خدا خواہی کا نعرہ لگاتے تھے لیکن خدا و الوہیت کے خلاف قیام کرتے تھے۔ ان کے اعمال اور ان کا رویہ شیطانی تھا لیکن  ان کی فریاد خلیفہ رسول خدا کا تھا۔ معاویہ اور یزید کی طرف سے اسلام کو جو خطرہ تھا وہ یہ نہیں تھا کہ خلافت کو غضب کیا گیا بلکہ یہ بہت کم خطرہ تھا لیکن ان کی طرف سے اسلام کو جو شدید خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کو ایک سلطنت اور شاہی نظام میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اسلام کی معنویت کو ایک طاغوت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اور یہ اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھا اور اس خطرے کو امام حسین علیہ اسلام نے دفع کیا اور اگر وہ اس چیز میں کامیاب ہوتے تو  اسلام کا ایک اور نقشہ ہوتا اور اسلام بھی دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی رژیم و سلطنت کی طرح ہو جاتا۔۵۔ اسی طرح  ایک اور مقام پر فرماتے ہیں، سید الشہداء علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اموی خاندان  اسلامی خلافت کے نام پر مکتب اسلام کو آلودہ کر رہے ہیں اور ہر قسم  کے ظلم و ستم کر رہے ہیں جبکہ دوسرے افراد کا تاثر یہ ہے کہ یہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں،  اس لئے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنا وظیفہ سمجھا کہ یزید کے خلاف قیام کریں اور اس راہ میں شہید ہو جائیں تاکہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے آثار کو ہمیشہ کے لئے  دفن کر دیں۔

‏امام خمینی فرماتے ہیں کہ معاویہ اور اس کے بیٹے یزید کے دور حکومت میں مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کر رہے تھے اور خلیفہ المسلمین اور خلیفۃ رسول اللہ کے عنوان سے ہر قسم کی جنایات انجام دیتے تھے، اس لئے بزرگان اسلام کی ذمہ داری بنتی تھیں کہ وہ ان کا مقابلہ کرتے ہوئے قیام کریں، دنیا پر ان کی خباثت برملا کریں اور اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں کیونکہ بہت سے لاعلم اور غافل افراد اسی کو ہی اسلامی خلافت سمجھتے تھے ۔۶ امام  خمینی کے ان کلمات میں آپ تحریف کے مسئلہ پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہوئے اسے بہت ہی زیادہ خطرناک قرار دیتے ہیں اور اس سے مقابلہ کرنے کو قیام امام حسین علیہ السلام کے اہداف میں سے قرار دیتے ہیں۔‏ اس تحریف کا خطرہ یہ تھا کہ اسلام کے لبادے میں  اسلامی تعلیمات کو  جان بوجھ  کر لگد مال کئے جاتے تھے اور یہ کام  بھی ان افراد کے ہاتھوں جو اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین  کہلاتے تھے۔ بہت ہی کم عرصے میں اسلام سرے سے صفحہ ہستی سے مٹ رہا تھا جبکہ نادان افراد ان کے اعمال و کردار کو  اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سمجھتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کو جب مروان نے کہا کہ مدینہ کے گورنر کی پیشنہاد پر عمل کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرے تو آپ نے کلمہ استرجاع کی تلاوت کی اور فرمایا "و علی الاسلام، السلام، اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید‏‏"۷۔ (جاری ہے)

حوالہ جات:
۱۔ بحارالانوار،‌ج 43،‌ ص 261، حدیث اوّل.
۲۔ سيد هاشم رسولي محلاتي، زندگاني امام حسين (ع)، دفتر نشر فرهنگي اسلامي، ص‏152.
۳۔بحارالانوار، ج 45، ص 50۔
‏‏۴۔ امام خمینی رح کی گفتگو میں تکرار سے بچنے کے لئے بعض الفاظ حذف کیا گیا ہے لیکن محتوی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔
۵۔ فرهنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 29- 35.
۶۔سیدبن طاووس، اللهوف، انتشاارت الرضی، قم، ص 10
۷۔ ملهوف (لهوف)، ص 99 و بحارالانوار، ج 1، ص 184
خبر کا کوڈ : 755641
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش