0
Sunday 14 Oct 2018 00:39

جمال خاشقجی کا قتل، آل سعود کو درپیش نیا بحران

جمال خاشقجی کا قتل، آل سعود کو درپیش نیا بحران
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی

معروف سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قصہ ایک دلچسپ ایشو میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سعودی حکومت کے نہ خطرناک اور نہ ہی شدید مخالف معترض صحافی اپنے ذاتی کام کی غرص سے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے اور کچھ گھنٹوں میں ہی لاپتہ ہو گئے۔ استنبول میں سعودی قونصل خانے کا دعوی ہے کہ وہ قونصل خانے سے باہر نکل جانے کے بعد لاپتہ ہوئے ہیں لہذا ان کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری ترکی کی حکومت پر عائد ہوتی تھی جبکہ ترک حکام کا موقف ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ایسی ویڈیو موجود ہے جس میں جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے لیکن ان کے قونصل خانے سے باہر نکلنے پر مبنی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ گذشتہ دس دن میں سعودی قونصل خانے کے اندر جمال خاشقجی کے قتل کے امکانات بڑھ گئے ہیں اور جمعرات کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس موقف کا اظہار کر دیا کہ جمال خاشقجی سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد وہاں سے باہر نہیں نکلے۔ البتہ امریکی صدر نے صحافیوں کے اصرار کے باوجود اس مسئلے پر سعودی حکومت کی مذمت سے گریز کیا ہے اور اشاروں میں سعودی حکومت کو کہا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے چند ارب ڈالر ادا کر دے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
 
1)۔ 2004ء سے 2015ء کے دوران جمال خاشقجی آل سعود کے حامی اہم میڈیا ورکر کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور سعودی عرب کے بعض اہم ذرائع ابلاغ جیسے "العرب" اور "الوطن" کے چیف ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکے تھے۔ ان کے سعودی ارب پتی شہزادہ ولید بن طلال اور لندن اور واشنگٹن میں سعودی عرب کے سابق سفیر شہزادہ ترکی الفیصل سے انتہائی قریبی اور گہرے تعلقات تھے۔ جمال خاشقجی کے آل سعود سے تعلقات ملک عبداللہ کی موت کے ایک سال بعد یعنی 2016ء تک جاری رہے۔ جب سعودی عرب میں اصلاحات کے نام پر وسیع پیمانے پر سلمان خاندان کے مخالف شہزادوں اور شخصیات کی گرفتاری کا سلسلہ شروع ہوا تو جمال خاشقجی نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیا۔ اس دوران وہ امریکہ میں مقیم ہو گئے۔ انہوں نے اشپیگل اور فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے کالمز کے ذریعے ملک سلمان اور ان کے بیٹے ولیعہد محمد بن سلمان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں اور یمن کے خلاف جنگ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اسی طرح ان کا موقف تھا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان موجود تعلقات کو اعلانیہ کرنے سے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی حیثیت بری طرح متاثر ہو گی۔
 
دوسری طرف جمال خاشقجی نے ایک وہابی اخوانی گروہ کے سربراہ سلمان العودہ سے قریبی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ یہ تعلقات اس قدر گہرے تھے کہ بعض حلقے انہیں سلمان العودہ کا پیرو قرار دینے لگے تھے۔ جمال خاشقجی، ولید بن طلال اور سلمان العودہ وہ تین اہم سعودی شخصیات ہیں جو ملک سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ محمد بن سلمان کی حکومت جاری رہنے کے مخالف تصور کی جاتی تھیں۔ یہ تینوں شخصیات مل کر ایک سہ ضلعی سیاسی، مذہبی اور میڈیا مثلث تشکیل دیتے تھے۔ اس وقت ان تینوں شخصیات کو گوشہ گیر کر دیا گیا ہے۔ ولید بن طلال سعودی عرب کے اندر اپنے گھر میں نظر بند ہیں اور انہیں کہیں آنے جانے اور کسی سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں۔ سلمان العودہ جیل میں ہیں جبکہ جمال خاشقجی قتل کئے جا چکے ہیں۔ البتہ اس سے پہلے بھی سعودی حکومت کئی شخصیات کو کینہ توزانہ اقدامات کا نشانہ بنا چکی ہے جن میں معروف شیعہ مذہبی رہنما آیت اللہ باقر النمر کا نام قابل ذکر ہے۔ انہیں 2015ء میں صرف اس جرم میں سزائے موت دے دی گئی کہ حکومت مخالف تقریر کی تھی۔ ان کا تعلق شیعہ اکثریتی علاقے العوامیہ سے تھا۔
 
اگرچہ سعودی حکومت کے یہ اقدامات اس رژیم کی گستاخی کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب پر حکمفرما آمرانہ سیاسی نظام میں پائی جانے والی شدید مشکلات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ایسا نکتہ ہے جس کی جانب شہزادہ محمد بن سلمان اور ان کے والد نے کم توجہ کی ہے جبکہ حالیہ دور میں رونما ہونے والے واقعات درحقیقت مریض کی علامات کے طور پر ہیں جو آل سعودی رژیم کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ مخالفت گذشتہ پچاس برس کے دوران بے نظیر قرار دی جا رہی ہے۔ سعودی رژیم اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ اگر میڈیا میں معروف چند شخصیات کا خاتمہ کر دے گی تو صورتحال اس کے کنٹرول میں آ جائے گی لیکن سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد آل سعود رژیم کے خلاف معرض وجود میں آنے والی احتجاجی لہر وائٹ ہاوس تک جا پہنچی ہے جس سے مجبور ہو کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سعودی حکام کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود سعودی معاشرے میں اس کے اثرات بہت شدید اور گہرے ہوں گے۔ یہ امر موجودہ حالات میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات کے باعث سعودی حکومت ہر وقت سے زیادہ پرسکون ماحول کی محتاج ہے۔
 
2)۔ آل سعود رژیم نے جمال خاشقجی کی گمشدگی کی ذمہ داری ترکی پر ڈالنے کیلئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں ترکی کے خفیہ اداروں نے اغوا کیا ہے۔ سعودی حکام خیال کر رہے تھے کہ ترکی جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بعد سادگی سے اس مسئلے کو نظرانداز کر دے گا یا زیادہ سے زیادہ ایک بیان دینے کی حد تک اکتفا کرے گا۔ لیکن ترکی نے جمال خاشقجی کے مسئلے کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ اب اس کی عزت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اسی طرح ترکی کی نظر صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی ایک اہم ایشو بن چکا ہے۔ لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترک حکام ہر روز ایک نیا پتہ سامنے لاتے ہیں اور جمال خاشقجی سے متعلق ایک نئی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ترکی اس مسئلے کو اس لئے بھی زیادہ سنجیدگی سے لے رہی ہے کہ اگر وہ اس مسئلے میں سستی کا مظاہرہ کرے تو جمال خاشقجی کی گمشدگی کا الزام اس پر عائد ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک ناراض سعودی شہری کے قتل سے متعلق حقائق فاش ہونے سے ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں نیا موڑ آئے گا۔ سعودی عرب نے ملک عبداللہ کی موت کے بعد مصر اور فلسطین میں سرگرم اخوان المسلمین رہنماوں سے تعلق بالکل توڑ لیا تھا اور مصر میں جنرل السیسی اور فلسطین میں اسرائیل کی بھرپور حمایت شروع کر دی تھی۔ اس طرح سعودی حکومت نے عالمی سطح پر اخوان المسلمین پر کاری ضرب لگائی تھی۔ ترک حکام کی نظر میں جمال خاشقجی کا مسئلہ اخوان المسلمین میں نئی روح پھونک سکتا ہے اور سعودی حکام سے اس بارے میں مراعات حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
 
3)۔ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے مسئلے میں امریکہ کا موقف بہت دلچسپ ہے۔ امریکی اخباروں جیسے واشنگٹن پوسٹ (ریپبلکن پارٹی کا حامی اخبار) اور نیویارک ٹائمز (ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی اخبار) نے جمال خاشقجی کے قتل کو "سعودی جرم" کا نام دیا ہے۔ حتی ریپبلکن پارٹی کے بعض سینیٹرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنا بند کر دے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتخاباتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے بارے میں ترکی کا یہ موقف صحیح ہے کہ وہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن باہر نہیں آئے۔ انہوں نے کہ ایک ماہر امریکی ٹیم اس بارے میں تحقیق کر رہی ہے۔ لیکن ایک صحافی کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا امریکہ اور سعودی حکومت کے درمیان جاری تعاون جاری رہے گا؟ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب ایک دولت مند ملک ہے اور میں نے اس کے فرمانروا کو کہا ہے کہ ہماری مدد اور حمایت کی قیمت ادا کرے۔ درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ نے اشارے سے سعودی حکومت کو یہ پیغام دیا کہ جمال خاشقجی کے مسئلے میں اگر میری مدد چاہتے ہو تو چند ارب ڈالر ادا کر دو۔
 
امریکی حکام کی یہ منطق ایک بار پھر ہمیں اس حقیقت کی یاددہانی کرواتی ہے کہ امریکہ میں "انسانوں کی جان" باقی اشیاء کی طرح تجارت کا ذریعہ ہے اور اس کی ایک خاص قیمت ہے جو اگر چکا دی جائے تو اسے لیا جا سکتا ہے۔ ایک عرصے سے سیاسی ماہرین اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ امریکی حکومت نے جس طرح دہشت گرد گروہوں کو دو حصوں "اچھے" اور "برے" میں تقسیم کر رکھا ہے اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کو بھی دو گروہوں "اچھے" اور "برے" میں تقسیم کر رکھا ہے۔ دہشت گرد عناصر کے اچھا یا برا ہونے کا انحصار واشنگٹن سے ان کے تعلقات اچھے یا برے ہونے پر ہے جبکہ دہشت گردی کا شکار افراد یا معاشروں کے اچھے اور برے ہونے کا معیار اس پر ہے کہ کس نے انہیں نشانہ بنایا ہے۔ یوں اگرچہ جمال خاشقجی امریکہ اور مغرب کیلئے کوئی خطرہ محسوب نہیں ہوتے تھے لیکن چونکہ وہ آل سعود رژیم کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں لہذا ایک "بری قربانی" جانے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے یا کسی سے سودے بازی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
 
4)۔ جمال خاشقجی یمن میں بچوں کے قتل عام پر اعتراض کرنے کے چند دن بعد قتل کئے گئے ہیں۔ جبکہ زمینی حقائق پر نہ تو جمال خاشقجی کی جانب سے مخالفت کے اظہار اور نہ ہی ان کے قتل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یمن کی جنگ آل سعود کیلئے ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ آل سعود اور متحدہ عرب امارات کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ تمام قوتیں جنہوں نے انہیں یمن کے خلاف جنگ پر اکسایا تھا اب اس نتیجے تک پہنچ چکی ہیں کہ اس جنگ میں سعودی حکام کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا۔ لہذا الحدیدہ بندرگاہ پر قبضے کیلئے مغربی عربی اتحاد کے شدید حملے کی ناکامی کے بعد آج تک کوئی ایسا دن نہیں گزرا جس دن کوئی مغربی شخصیت یا ادارہ یہ اعتراف نہ کر چکا ہو کہ اس جنگ میں سعودی عرب کی کامیابی ممکن نہیں۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب تک کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر امریکی حمایت نہ ہو تو سعودی حکمران اگلے چوبیس گھنٹے تک برسراقتدار نہیں رہ سکتے تو یہ درحقیقت اس بات پر غصے کا اظہار ہے کہ مکمل امریکی حمایت کے باوجود سعودی حکومت یمن جیسے فقیر ملک کے خلاف کامیاب فوجی کاروائی انجام نہیں دے سکتا۔
 
خبر کا کوڈ : 755664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش