0
Sunday 14 Oct 2018 15:43

ڈی آئی خان، پولنگ اسٹیشنز کی ویرانی کا ذمہ دار کون؟

ڈی آئی خان، پولنگ اسٹیشنز کی ویرانی کا ذمہ دار کون؟
رپورٹ: آئی اے خان

ڈیرہ اسماعیل خان کے دو حلقوں پی کے 97 سٹی ون ڈیرہ اور پی کے 99 کلاچی میں ضمنی الیکشن کے سلسلے میں پولنگ کا عمل جاری ہے۔ قبل ازیں پولنگ سٹاف کو پولیس لائن ڈیرہ میں تمام پولنگ میڑیل فراہم کرکے پاک فوج کی نگرانی میں متعلقہ پولنگ سٹیشنز پہنچایا گیا۔ دونوں صوبائی حلقوں کے ریٹرنگ افسران کی نگرانی میں تمام پولنگ میٹریل مرحلہ وار متعلقہ پولنگ سٹیشن کے پولنگ سٹاف میں تقیسم کیا گیا اور بہترین انتظامات کے باعث بغیر کسی تعطل اور دشواری کے ترسیل کا کام جلد مکمل کرکے تمام سٹاف کو فوج کی نگرانی میں گاڑیوں کے ذریعے متعلقہ پولنگ سٹیشنز پر منتقل کیا گیا۔ اس موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت حفاطتی انتظامات کئے گئے۔ پولیس لائن روڈ کو مکمل طور پر بند کرکے غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ پی کے 97 ڈیرہ سٹی ون میں مردانہ پولنگ اسٹیشن کی تعداد 52، زنانہ پولنگ اسٹیشن 49، مشترکہ پولنگ اسٹیشن 36 اور کل پولنگ اسٹیشن 137 ہیں، جبکہ اسی حلقہ میں مرد ووٹرز کی تعداد 83883 خواتین ووٹرز کی تعداد 70600 اور کل ووٹرز کی تعداد 154483 ہے، جبکہ 232 مردانہ پولنگ بوتھ اور 195 زنانہ پولنگ بوتھ جبکہ کل بولنگ بوتھ 427 ہیں، جن میں سے 12 پولنگ بوتھ حساس ترین، 99 حساس اور 26 نارمل پولنگ بوتھ ہیں۔

PK99 کلاچی میں مردانہ پولنگ اسٹیشن 45، زنانہ پولنگ اسٹیشن 40، مشترکہ پولنگ اسٹیشن 65 اور کل پولنگ اسٹیشن 150 ہیں، جبکہ اسی حلقہ میں مرد ووٹرز کی تعداد 91505، خواتین ووٹرز کی تعداد 66136 اور کل ووٹرز کی تعداد 157641 ہے۔ اس حلقہ میں 248 مردانہ پولنگ بوتھ اور 193 زنانہ پولنگ بوتھ جبکہ کل بولنگ بوتھ 441 ہیں، جن میں سے 78 پولنگ بوتھ حساس ترین، 66 حساس اور 6 نارمل پولنگ بوتھ ہیں۔ الیکشن کے عملہ اور پولیس و دیگر فورسز کے جوانوں کو پولنگ اسٹیشنز پر پہنچانے کیلئے گاڑیوں کا خصوصی انتظام کیا گیا تھا، جس کے ذریعے انہیں متعلقہ پولنگ سٹیشن پر پہنچایا گیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی نتائج کے لئے آر ٹی ایس (ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ) کے تحت ریٹرنگ افسران ان تمام پولنگ سٹیشنز سے وصول شدہ نتائج کو اکٹھا کرکے الیکشن کمیشن کے مرکزی ڈیٹا سنٹر اسلام آباد منتقل کریں گے۔ حساس ترین اور حساس پولنگ سٹیشنز پر سکیورٹی انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں جبکہ ان پولنگ سٹیشنز پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کر دیئے گئے ہیں۔

PK97 میں پی ٹی آئی کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان سردار علی امین خان گنڈہ پور نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، مگر بعد ازاں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھ کے صوبائی اسمبلی کی یہ نشست چھوڑ دی تھی۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے اس نشست کا ٹکٹ علی امین کے بھائی فیصل امین گنڈہ پور کو دیا۔ ان کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک فرحان دھپ کو انتخابی ٹکٹ جاری کیا تھا۔ ملک فرحان دھپ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے قبل کالعدم سپاہ صحابہ کے انتہائی متحرک ضلعی رہنما تھے۔ سابق ایم پی اے اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنما خلیفہ عبدالقیوم (مرحوم) کے ڈیرہ میں رائٹ ہینڈ سمجھے جاتے تھے۔ کالعدم جماعت سے وابستہ ماضی کے باعث ڈیرہ کے عوامی حلقوں میں انہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملی، حالانکہ ملک فرحان دھپ نے سابق ڈپٹی سییکر قومی اسمبلی فیصل کریم کنڈی کے ہمراہ کوٹلی امام حسین (ع) کی اراضی پہ موجود مدرسہ جامعۃ النجف میں شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب علامہ محمد رمضان توقیر سے تفصیلی ملاقات بھی کی۔ اس ملاقات کے بعد پی پی پی کی جانب سے سوشل میڈیا پہ جاری بیان میں بتایا گیا کہ علامہ محمد رمضان توقیر نے انہیں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس ملاقات پہ تشیع نوجوانوں نے سوشل میڈیا پہ شدید تنقید کی تھی۔

پی پی پی کے نامزد امیدوار نے دوسری اہم ملاقات چاہ سید منور میں زیدی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد سے کی تھی۔ واضح رہے کہ ڈیرہ میں چاہ سید منور کا زیدی خاندان سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار اور کالعدم دہشتگرد تنظیموں کی بربریت کا نشانہ بنا ہے۔ گرچہ اس ملاقات کی تفصیل سامنے نہیں آئی، مگر ڈیرہ کے اہل تشیع ووٹرز نے پی پی پی کی جانب سے منافرانہ ماضی رکھنے والے ملک فرحان دھپ کی نامزدگی پہ سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ یہ شخصیت کی عدم مقبولیت ہی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے یونین کونسل ون اور یونین کونسل ٹو میں ملک فرحان دھپ کی انتخابی مہم ڈھونڈے سے بھی نہیں مل پائی، حالانکہ دونوں یونین کونسلز نے ہمیشہ ہی پی پی پی کی ضمانت ضبط ہونے سے بچائی۔ دوسری جانب قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی نشست پہ کامیابی اور صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کے بعد ووٹرز پرامید تھے کہ پی ٹی آئی اب کسی کارکن یا علاقے کی کسی نمایاں شخصیت جیسے ملک قیوم حسام، سجاد شیرازی کو اپنا امیدوار نامزد کرے گی، تاہم صوبائی اسمبلی کی اس نشست کا ٹکٹ بھی علی امین گنڈہ پور کے بھائی فیصل امین کی جھولی میں ڈال دیا۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے کو بھی زیادہ عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔

اس حلقے میں صوبائی نشست پہ پولنگ کا عمل جاری ہے، قوی امید ہے کہ یہ نشست پی ٹی آئی کے فیصل امین آسانی سے جیت لیں گے، مگر اس کی وجہ ان کی ذاتی یا پارٹی مقبولیت نہیں بلکہ عوام کے پاس کسی بہتر آپشن کی عدم موجودگی ہوگی۔ ایک جانب پی ٹی آئی کا وہ امیدوار ہے کہ جس کی اکلوتی قابلیت یہی ہے کہ وہ وفاقی وزیر سردار علی امین گنڈہ پور کے بھائی ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں پی پی پی کا نامزد کردہ ایسا امیدوار ہے کہ جس کا ماضی منافرانہ اور کالعدم جماعتوں سے قریبی روابط پہ مبنی ہے، ایسی صورت میں عوام کیا کرسکتے ہیں۔؟ آگے کنواں اور پیچھے کھائی کے مصداق پولنگ کا عمل جاری ہے، پولنگ اسٹیشنز کی ویرانی، گہما گہمی کی عدم موجودگی اس امر کی غماز ہے کہ عوامی نمائندگی کی دعویدار دونوں جماعتیں ضمنی انتخاب میں عوامی مقبولیت کا حامل کوئی امیدوار دینے میں ناکام رہی ہیں۔

چند گھنٹوں بعد اس صوبائی نشست کے کامیاب امیدوار کا نام سامنے ہوگا، مگر سوال یہ ہے کہ اگر کامیاب امیدوار ٹوٹل ووٹ کا 33 فیصد بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو کیا اسے کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔؟ نیز یہ کہ اگر 33 فیصد ووٹ سرے سے کاسٹ ہی نہیں ہوتا تو کیا اس انتخاب کو حقیقی انتخاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ 33 فیصد کی بات اس لئے کہ پرائمری کلاس کے پرچے میں بھی طالب علم کو کامیاب ہونے کیلئے 33 فیصد نمبرز حاصل کرنے لازم ہوتے ہیں، جبکہ جاری انتخابی پرچے میں تو ان افراد کا چناو ہو رہا ہے کہ جنہوں نے قانون سازی کے ذریعے نہ صرف ڈیرہ بلکہ پورے صوبے کی تقدیر کے فیصلے کرنے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کی نامزدگی کیلئے اہلیت کا کوئی تو معیار مقرر کریں، کیا دیگر مصائب کی طرح یہ بھی عوام کا مقدر ہے کہ انہیں منافرانہ یا خاندانی سیاست میں سے کسی ایک کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔؟ ڈیرہ کے حلقہ پی کے 97 میں تو یہی دیکھائی دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 755763
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش