0
Wednesday 17 Oct 2018 08:22

قیام امام حسین (ع) کے اہداف امام خمینی (رہ) کی نظر میں (2)

قیام امام حسین (ع) کے اہداف امام خمینی (رہ) کی نظر میں (2)
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

۲۔ اسلامی معاشرے کی اصلاح:
امام حسین علیہ السلام  کے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی، اور یہی تمام انبیاء و اولیائے کرام کا ہدف تھا۔ امام خمینیرح اس سلسلے میں فرماتے ہیں، "تمام انبیاء کی بعثت کا مقصد اسلامی معاشرے کی اصلاح تھی ان سب کا مسئلہ یہی تھا کہ فرد معاشرے پر قربان ہو جائے اور یہ فرد  جس قدر عظیم اور بڑا ہی کیوں نہ ہو جب معاشرے کی مصلحت کے ساتھ اس کا ٹکراؤ ہو تو اسے معاشرے پر اپنے آپ کو فدا کرنا چاہیئے"۔ ایک اور مقام پر امام خمینی (رح) فرماتے ہیں، "سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے اسی معیار کے مطابق اپنے آپ کو اور اپنے اصحاب و انصار کو  اسلامی معاشرے کی اصلاح کی خاطر قربان کیا ۔ "و لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معهم الکتاب و المیزان، لیقوم الناس  بالقسط"۔ 8 اسی طرح آپ فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام کے اوپر یہ ذمہ داری تھی کہ آپ قیام کریں اور اپنے پاکیزہ خون کو اسلام پر قربان کریں تاکہ ملت کی اصلاح ہو اور آپ نے ایسا ہی کر دیا"۔۹۔ امام خمینی فرماتے ہیں امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: "انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولاظالما انما خرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدی و ابی علی بن ابی طالبؑ"۔۱۰۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام نے علماء دین کو مخاطب قرار دیتے ہوئے جو عالمانہ خطبہ ارشاد فرمایا اس میں بھی بنی امیہ کے خلاف اپنے قیام کو معارف دینی کی ترویج ، اسلامی معاشرے کی اصلاح، مظلوم افراد کی فریاد رسی، قرآنی تعلیمات اور دستورات اسلامی کا اجراء قرار دیا۔۱۱ ‏

۳۔ظلم کے خلاف قیام اور عدل و انصاف کی فراہمی:‏
 امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف بنی امیہ کی طرف سے ہونی والے ظلم و ستم اور ناانصافی تھی۔ امام خمینی اس بارے میں فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام اور امام زمان (عج) اسی طرح تمام انبیاء کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ ظالم و جابر حکومت کے مقابلہ میں ایک الٰہی حکومت تشکیل دے۔ اسی طرح فرماتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد شروع سے ہی عدل کا نفاذ تھا اور اپنی پوری زندگی  ظالم و جابر حکومت کے خاتمہ میں صرف کی۔ ایک اور مقام پرآپ فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ سب خدا کی راہ میں قربان کر دیا اور اسلام کی تقویت کی خاطر ظلم کے خلاف قیام فرمایا"۔ امام خمینی ایک اور جگہ فرماتے ہیں، "سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ایک ظالم و جابر جب ایک رعایا پر حکومت کر رہا ہے  تو آپ نے  فرمایا، اگر کوئی ظالم و جابر لوگوں پر حکومت کرے اور ان پر ظلم و ستم روا رکھے تو لوگوں کو چاہیئے کہ اس کا مقابلہ کرے اور اس کے خلاف قیام کرے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے، جو کوئی خاموش تماشائی بن کر بیٹھے اور اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس کا مقام بھی یزید جیسے جابر و ظالم کا مقام ہے"۔ ۱۲۔ امام خمینی فرماتے ہیں، ایک اور مقام پر امام حسین علیہ السلام خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں، "میں موت کو سعادت جبکہ ظالمین کے ساتھ زندگی کرنے کو ننگ و عار  سمجھتا ہوں "انی لا اری الموت الا السعادة و الحیاة مع الظالمین الا برما"۔ ‏۱۳ امام علی علیہ السلام علماء ربانی کے وظائف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ظالموں کے ظلم اور مظلومین کی آواز پر خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔۱۴اسی طرح امام علی علیہ السلام کے اس عہد نامہ میں جسے آپ نے مالک اشتر کے نام لکھا اس میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانی معاشرے میں عدل کا قیام حکمرانوں کے لئے بہترین تخفہ ہے۔15

‏‏۴۔ امر بالمعروف و نہی از منکر:
 اسلامی معاشرے میں منکرات اور برائیوں کا اصلی سبب اموی حکومت تھا اس کے خلاف اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا، امام خمینی اس بارے میں فرماتے ہیں، "حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام نے قلیل افراد کے ساتھ یزیدی حکومت کے خلاف جو قیام کیا اس بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میرا فریضہ ہے کہ میں اس حکومت کے خلاف قیام کروں اور نہی از منکر کروں"۔ ایک اور مقام پر امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد معروف کو معاشرے میں رائج کرنا اور منکرات کا خاتمہ کرنا تھا۔ توحید کے علاوہ باقی سب چیزیں منکرات ہیں اور یہ سب انحرافات اسی منکرات کی وجہ سے ہیں۔ آپ کے قیام کا مقصد نہی از منکر تھا تاکہ کسی بھی معاشرے میں کوئی برائی اور منکر موجود نہ رہے۔ سید الشھداء امام حسین علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی منکرات کو ختم کرنے اور  ظالم حکومت کی وجہ سے پیدا ہونے والے مفاسد کے خاتمے کے لئے صرف کی"۔۱۳۔ آپ نے‏ محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا، "ارید ان آمر بالمعروف و نهی عن‌ المنکر" میں امر بالمعروف و نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں۱۶۔آپ علماء دینی کو مخاطب قرار دیتے ہوئے اپنے مشہور خطبہ میں  امر بالمعروف و نہی از منکر اور اس الٰہی فریضہ کو درج ذیل چیزوں کے ساتھ ضروری قرار دیتے ہیں۔
۱۔ لوگوں کو اسلام کی دعوت۔
۲۔ رد مظالم۔
۳۔ ظالم کی مخالفت اور اس کے خلاف قیام۔
۴۔ لوگوں کے درمیان بیت المال کی عادلانہ تقسیم۔
۵۔ زکوۃ کی جمع آوری اور اسے صحیح مصرف میں خرچ کرنا۔

آپ فرماتے ہیں:"ان الامر بالمعروف و النهی عن‌المنکر دعاء الی الاسلام مع ردالمظالم و مخالفة‌ الظالم و قسمة الفی و الغنائم و اخذ الصدقات من مواضعها و وضعها فی حقها"۱۷۔ ایک اور جگہ پر امام حسین علیہ السلام نے فلسفہ قیام کو حق پر عمل نہ کرنے اور باطل سے اجتناب نہ کرنے کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں,"الا ترون ان الحق لا یعمل به و ان الباطل لایتناهی عنه"۱۸۔ کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے اجتناب نہیں کیا جا رہا۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر کے بارے میں قرآن مجید میں زیاد ہ تاکید ہوئی ہے جیسا کہ:
(۱)۔ ارشاد رب العزت ہے،"ولتکن منکم امۃیدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر اولئک ھم المفلحون"۱۹۔ اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہیئے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے، برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔
(۲)۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :{ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ}۲۰۔ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تم لوگون کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے۔
(۳)۔ اسی طرح فرماتا ہے، "یؤمنون باللہ و یوم الآخر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و یسارعون فی الخیرات و اولئک من الصالحین"۲۱۔ یہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکیوں کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہیں اور یہی لوگ صالحین اور نیک کرداروں میں ہیں۔

(۴)۔ سورہ توبہ میں ارشاد فرماتا ہے، "التائبون الحامدون السئحون الراکعون الامر و بالمعروف والناھون عن المنکر والحٰفظون لحدود اللہ و بشر المؤمنین"۲۲۔ یہ لوگ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد پروردگار کرنے والے، راہ خدا مین سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکیوں کا حکم دینے والے، برائیوں سے روکنے والے اور حدود الٰہیہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اے پیغمبر آپ انہیں جنت کی بشارت دیدیں۔
(۵)۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے، "فلو لا کان من القرون من قبلکم اولو بقیۃ ینھون عن الفساد فی الارض الا قلیلا ممن انجینا منھم"۲۔ تو تمہارے پہلے والے زمانوں اور نسلوں مین ایسے صاحبان عقل کیوں نہیں پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے علاوہ ان چند افراد کے جنہیں ہم نے نجات دیدی۔
(۶)۔ اسی طرح ارشاد رب العزت ہوتا ہے "کانوا لا یتناہون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانو یفعلون" ۲۴۔ انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے اور بدترین کام کیا کرتے تھے۔ سیدا لشہدؑا خود کو تمام احکام اسلامی خصوصا منکرات اور فحشاء کے مقابلہ میں ذمہ دار سمجھتے تھے جبکہ اسلامی معاشرہ فسق و فجور اور فساد سے بھر چکا تھا خاص کر یزید کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک ہادی، مصلح اور منادی کی قیام کی ضرورت دو چندان ہو گئی تھی، لہٰذا آپ نے اس فریضہ کے انجام دہی کے لئے قیام فرمایا۔

۵۔حکومت اسلامی کا قیام:
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کا قیام تھا یا نہیں۔ اس حوالے سے دو نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بعض افراد کا عقیدہ ہے کہ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کو تشکیل دینا تھا۔ بعض افراد کے عقیدہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں یہ ہدف نہیں ہو سکتی کیونکہ تاریخی شواہد اور بہت ساری روایات کے مطابق امام حسین علیہ السلام اپنی اور اپنے اعوان و انصار کی شہادت کے بارے میں پہلے سے ہی مطلع  و آگاہ تھے۔ لہٰذا تشکیل حکومت آپ کے اہداف میں سے نہیں ہو سکتا۔ ‏امام خمینی کے کلمات میں یہ دونوں باتیں جمع نظر آتی ہیں۔ یعنی آپ اپنی اور اپنے اصحاب کی شہادت سے آگاہ تھے اور ساتھ ساتھ آپ کے قیام کے اہداف میں سے ایک حکومت اسلامی کی تشکیل اور ظالم و جابر حکومت کا خاتمہ تھا۔ امام خمینی فرماتے ہیں، امام حسین علیہ السلام نے اپنا شرعی وظیفہ سمجھا کہ اس ظالم  حکومت کے خلاف قیام کرے یہاں تک کہ اسی راہ میں شہید ہو جائے۔ آپ نے بھی سب کچھ اسی راہ میں  قربان کیا تاکہ یہ حکومت ہمیشہ کے لئے ذلیل اور رسوا ہو۔  امام خمینی فرماتے ہیں، امام حسین علیہ السلام  نے جب دیکھا کہ ایک جابر حکومت اسلامی معاشرے پر قابض ہے تو آپ نے اس شرائط میں اپنی شرعی ذمہ داری کو تشخیص دیتے ہوئے قیام فرمایا درحالیکہ آپ جانتے تھے کہ ایک قلیل گروہ اس ظالم حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔۲۵۔

‏‏بنابریں مندرجہ بالا عبارات میں تین نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
۱۔ متعدد روایات کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام  اپنی شہادت سے آگاہ تھے۔
۲۔ ظاہری محاسبات سے بھی یہی معلوم ہوتا تھا کہ امام اور آپ کے انصار و اعوان اموی حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
۳۔ اسلامی معاشرے میں انحرفات اور برائیاں اس قدر پھیل چکی تھی کہ اس کی اصلاح کے لئے ایثار و فدا کاری اور شہادت کی ضرورت تھی۔
امام خمینی اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے فرماتے ہیں، اگر کوئی امام حسین علیہ السلام کے ان خطبات کا مطالعہ کرے جسے آپ نے مدینہ سے نکلتے وقت اور مکہ سے نکلتے وقت بیان فرمائے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ آپ حکومت اسلامی کی تشکیل چاہتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حکومت کی خاطر قیام نہیں فرمایا، یہ صحیح نہیں ہے بلکہ آپ نے حکومت  اسلامی کی خاطر قیام  فرمایا تھا۔ حکومت اسلامی امام حسین علیہ السلام جیسی شخصیت کے ہاتھوں میں ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۲6۔

لیکن یہ سوال کہ امام حسین علیہ السلام کو اگر اپنی شہادت کا علم تھا یا آپ جانتے تھے کہ ظاہری طور پر آپ کو شکست ہوگی اور آپ اسلامی حکومت تشکیل نہیں دے پائیں گے۔ یعنی اس مقصد کے عدم حصول کو بھی جانتے تھے، بنابریں اسلامی حکومت کی تشکیل ایک انسان عاقل کا مطلوب و ہدف نہیں ہو سکتا؟ امام خمینی کے کلمات میں غور و فکر کرنے سے اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ یہ اشکال اس وقت صحیح ہے، جب امام کا مقصد اپنے زمانے میں اسلامی حکومت کی تشکیل ہو لیکن اگر امام حسین علیہ السلام کا مقصد یہ ہو کہ مسلمان اس بات کو جان لین کہ اسلامی حکومت کی بھاگ دوڑ ایک صالح انسان اور ایک معصوم ہستی یا اس کے نمائندہ  کے ہاتھ میں ہونا چاہیئے، جیسے مسلم بن عقیل وغیرہ اس وقت یہ مسئلہ پیش نہیں آتا اور جو کچھ امام خمینی کے کلمات سے سمجھ میں آتا ہے وہ یہی ہے جیسا کہ فرمایا یہ لوگ حکومت کی خاطر قیام کر چکے تھے اس کے بعد فرماتے ہیں حکومت اسلامی کو حسین ابن علی علیہ السلام  جیسی ہستی اور ان کے پیروکاروں کے ہاتھوں ہونا چاہیئے۔

‎‏‏‏۶۔ اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی حفاظت:
عظیم انسانوں کے ارمان اور اہداف بھی عالی ہوا کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی شخصیت صرف اس زمانے کے  انسانوں کے ساتھ مختص نہیں تھی بلکہ آپ کی شخصیت پوری انسانیت اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے ساتھ مختص ہے۔ آپ  پوری انسانیت کی فلاح، بھلائی اور خیر خواہی چاہتے تھے۔ اور یہ سب دین مقدس اسلام کے مرہون منت ہی محقق ہو سکتی ہے۔ امام خمینی فرماتے ہیں، اسی لئے امام حسین علیہ السلام کے قیام کے اہداف میں سے ایک سبب اسلامی معارف کی نشر  اور اسلام کی حفاظت تھی۔ امام حسین علیہ السلام، اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ اسلام آپ کی فدا کاری اور ایثار و شہادت کی بدولت دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان پھیل جائے اور اسلامی سیاسی و اجتماعی نظام ہمارے معاشرے میں رائج ہو اس لئے آپ نے بنی امیہ کی مخالفت کی اور قیام فرمایا۔ ۲۷۔ ایک اور مقام پر امام خمینی فرماتے ہیں، سید الشہدا  علیہ السلام  صرف  ثواب کی حصول کے لئے اپنی جان کو قربان نہیں کیا بلکہ اس مقدس مکتب اور دین کو نجات دلانے کی خاطر اور اسے ایک دفعہ پھر زندہ کرنے کی خاطر اپنی جان کو اسلام پر قربان کیا۔۲۸۔

امام خمینی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں، امام حسین علیہ اسلام نے اسلام کو  اپنے اعمال کے ذریعے ہمیشہ کے لئے حفظ  کیا۔ جو اسلام  آج ہم تک پہنچا ہے وہ سید الشہداء علیہ السلام کی قربانی اور بچانے کی وجہ سے ہے۔ آپ نے ان پاک جوانوں اور باوفا اصحاب کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اپنی جانیں اسلام پر نچھاور کر دی اور اسلام کو ہمیشہ کے لئے زندہ کیا۔ اسی طرح آپ فرماتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے اسلام کو زندہ کیا۔ آپ خود شہید ہوگئے لیکن مکتب اسلام اسی شہادت کی وجہ سے زندہ ہوگیا۔ ‏امام خمینی فرماتے ہیں۔ "امام حسین علیہ السلام نے اپنے آپ اور اپنے سارے عزیز و اقارب کو اسلام پر قربان کیا اور یوں ان کی شہادت کے بعد اسلام بہت زیادہ طاقتور ہوا۔۲۹۔ امامت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری حفظ دین اور حفظ قوانین اسلامی ہے، اور سید الشہداء ؑ کو رسول اللہ ؐاورحضرت علی نے تربیت دی تھی کہ اسلام کے علاوہ باقی سب کچھ بے فائدہ ہے اگر اسلام ہے تو سب کچھ ہے اگر دین نہیں تو کچھ بھی نہیں، لہٰذا امام نے دین کو بچانے کے لئے قیام کیا اور عظیم قربانی دی آپؑ کی قربانی نے نہ صرف دین کو بچایا بلکہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بنا: "جاء الحق و زہق الباطل ان الباطل کان زہوقا"۳۰۔

امام حسینؑ شہید ہوئے لیکن آپ ؑ نے اپنے بنی ہاشم ا ور اصحاب کے خون سے اسلام کی آبیاری کر کے دین کو بچا لیا اور باطل بھی مٹ گیا اس کے بعد کسی کو بھی اسلام کو مٹانے کے لئے میدان میں آنے کی جرات نہ ہوئی اور امام ؑعالی کا ہدف اس عظیم انقلاب، قیام اور قربانی کا حفظ دین اور بقاء دین کی بہترین دلیل آپؑ کے اپنے کلام اور فرمائشات ہے۔ جیسا کہ آپ نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا، "انی لم اخرج اشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما انما خرجت لطب الاصلاح فی امتی جدی و اسیر بسیرت جدی وابی علی بن ابی طالب"۔ مدینے سے نکلنے لگے تو روضہ رسول پر تشریف لے گئے اور یوں دعا فرمائی، مالک اس وقت مجھے اپنی ذمہ داری کی طرف راہنمائی فرما تاکہ میں اس پر عمل کر سکوں اور فرمایا "اللہم ان ہذا قبر نبیک وانا ابن بنت نبیک" مکہ میں آپؑ نے جو خطبہ دیا جس میں اپنی شہادت کا ذکر کے ساتھ اس کے مقصد عظمٰی اور ہدف حقیقی کی طرف بھی اشارہ فرمایا اور اس کے علاوہ ابن عباس کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا یہ لوگ کہیں مجھے رہنے نہیں دیں گے۔ بہرحال اسلام کلی طور پر خطرے میں تھا اور دشمن کا یہ آخری فیصلہ تھا کہ اسلام کو ختم کرے تو امام ؑ نے یہ محسوس کیا جب تک قربانی نہیں دینگے، دین نہیں بچ سکتا لہٰذا اپنے سارے کنبہ اور اصحاب کے ساتھ میدان کربلا میں آئے اور شہید ہوئے لیکن اسلام اور توحید کو بچا لیا۔

۷۔ ‏‏الٰہی ذمہ داری پر عمل کرنا:
وظیفہ شناسی اور اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل کرنا اعلٰی ترین اخلاقی و دینی  احساس ہونے کی علامت ہے۔ اس احساس کو  پروان چڑھانے  کے لئے نفس کی بہت زیادہ ریاضت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی احساس کے سایہ میں انسان کی روح پائیدار اور مضبوط ہو جاتی ہے۔ اپنے الٰہی وظائف کی انجام دہی اور اس راستہ میں آنے والے جتنے ناگوار حوادث اور وقائع  کے ساتھ سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس  کی راہ میں ناکامی، نا امیدی اور شکست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سخت سے سخت شرائط میں بھی اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہے کیونکہ وہ سوائے الٰہی وظیفہ کے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتا۔ امام خمینی خود ایک عظیم انسان تھے جس نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو یہ درس  دیا۔ اپنی گفتگو میں ہمیشہ اس بات کی تاکید کی اور ہمیشہ لوگوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ انسان مومن سوائے الٰہی وظیفے کے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اسی مقصد کی خاطر قیام فرمایا یہاں تک کہ شہادت  جیسے عظیم رتبہ پر فائز ہوگئے۔ ایک اور مقام پر امام خمینی فرماتے ہیں، سید الشہداء نے اپنا وظیفہ سمجھ  کر اموی طاقت کے سامنے قیام فرمایا اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا چاہے جو کچھ بھی ہو جائے درحالیکہ ظاہری اعتبار سے آپ جانتے تھے کہ قلیل تعداد ان کے کثیر تعداد کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی آپ نے  اپنے الٰہی ذمہ داری پر عمل کیا۔ امام خمینی فرماتے ہیں، "امام حسین علیہ السلام کی شرعی ذمہ داری تھی کہ اموی حکومت کے خلاف قیام کرے اور اپنا خون اسلام پر قربان کرے تا کہ ملت کی اصلاح ہو۔ اسی طرح فرماتے ہیں، سید الشہداء نے اپنے  اہلبیت اور اصحاب و اعوان  کے ساتھ قیام فرمایا چونکہ یہ قیام اللہ کے لئے تھا اس لئے اس طاغوتی خبیث حکومت کا تختہ پلٹا دیا۔ جو اللہ کی راہ میں کام کرتا ہے اس کے لئے اس راہ میں شکست نہیں ہے اگرچہ وہ اس راہ میں مر جائے۔ امام حسین علیہ السلام بھی شہید ہوگئے لیکن آج بھی زندہ  ہے۔۳۱۔ بنی امیہ کے مردہ دل سیاستدان اس خیال میں تھے کہ حسین بن علی علیہ السلام کے بعد کام تمام ہو جائے گا، لیکن زمانے کی گردش نے ان افراد کو یہ بتا دیا کہ جس حسین کو تم شہید کر چکے ہو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


حوالہ جات:
۸۔ سورۀ حدید، آیه 25 ۔
۸۔ فرهنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی (س) ص 37 و 41.
۹۔ بحارالانوار: 44 / 331، مقتل المقرم / 156۔
۱۰۔ تحف العقول، انتشارات بصیرتی، قم، ص 170۔
۱۱۔ فرهنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی (س)۔ ص 33 -42 ۔
۱۲۔ تحف العقول، ص 174، بلاغة الحسین (ع)، ص 158۔
۱۳۔ نهج البلاغه، خطبه 3، "اخذالله علی العلماء ان لا یقاروا علی کظة ظالم و لا سغب مظلوم"۔
۱۴۔ نهج البلاغه، نامه 53، فراز 57، «ان افضل قرة عین الولاة، استقامة العدل فی البلاد».
۱۵۔ فرهنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 33، 38، 39۔
۱۶۔ اللهوف، ص 10۔
۱۷۔ تحف العقول، ص 168
۱۸۔ مدرک قبل، ص 174، بلاغة الحسین(ع)، ص ۔157
۱۹۔ سورہ آل عمران ، آیت۱۰۴۔
۲۰۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۱۰۔
۲۱۔ سورہ  آل عمران ، آیت ۱۱۴ ۔
۲۲۔ سورہ توبہ  آیت ۱۱۲۔
۲۳۔ سورہ ہود ، آیت ۱۱۶۔
۲۴۔ سورہ مائدہ ،آیت ۷۹ ۔
۲۵۔ فرهنگ عاشورا در کلام و پیام امام خمینی(س)، ص 40-41.
۲۶۔ ایضا، ص 39، 41
۲۷۔ ایضا، ص 40-41
۲۸۔ ایضا، ص 42
۲۹۔ایضا، ص 52 -50
۳۰۔ اسراء؍ ۸۱۔
۳۱۔ ایضا، ص 48 -49۔
خبر کا کوڈ : 756031
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش