1
Monday 15 Oct 2018 21:30

بالفور و ٹرمپ اعلامیہ، دنیا جان لے فلسطین بکاؤ مال نہیں!

بالفور و ٹرمپ اعلامیہ، دنیا جان لے فلسطین بکاؤ مال نہیں!
تحریر: صابر ابو مریم 
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

1917ء میں 2 نومبر کو برطانوی استعمار کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے ایک اعلان نامہ حکومت برطانیہ کو لکھ بھیجا تھا، جس میں فلسطین کو تقسیم کرنے کا کہا گیا تھا اور فلسطین پر بعد میں قائم ہونے والی ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل بھی اسی ’’اعلان بالفور‘‘ کے نتیجہ میں قائم ہوئی جس کی پشت پناہی شیطان بزرگ امریکہ سمیت اس وقت کی اقوام متحد ہ میں موجود امریکی غلامی کی سوچ رکھنے والی حکومتوں نے کی تھی۔ اعلان بالفور کو اب ایک سو ایک سال بیت چکے ہیں اور فلسطین کے قضیہ کو بھی اسی طرح ایک صدی بیت چکی ہے جبکہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ تسلط ستر سالہ تاریخ رکھتا ہے، یعنی مسئلہ فلسطین ایک صدی سے حل طلب ہے اور اقوام عالم تاحال اس مسئلہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔ جہاں عالمی برادری فلسطین کے مسئلہ میں فلسطینی قوم کو انصاف و حقوق کی فراہمی میں ناکام رہی ہے وہاں ساتھ ساتھ غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کے بڑھتے ہوئے ظلم و ستم اور جنگی جنون کو روکنے میں بھی ناکامی واضح ہے اور اس ناکامی کا سب سے بڑا سبب شیطان بزرگ امریکہ کی جانب سے غاصب جعلی ریاست اسرائیل کی پشت پناہی اور امداد کے نام پر اربوں ڈالر کا خطرناک جنگی اسلحہ و سازو سامان جعلی ریاست اسرائیل کو فراہم کرنا ہے، جس کو اسرائیل ہمیشہ سے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کی دوسری ریاستوں اور ان کے عوام کے خلاف جنگوں اور نت نئے طریقوں بالخصوص دہشتگرد گروہوں کو جنم دینے اور ان کی مدد کرنے کے ذریعہ انجام دیتا آیا ہے، خطہ کے حالیہ حالات اور موجودہ زمانہ کی بدنام زمانہ دہشتگرد سفاک گروہ بشمول داعش، القاعدہ و النصرۃ و دیگر اس کی منہ بولتی مثالیں ہیں۔

اعلان بالفور جو آج سے ایک سو ایک سال قبل نافذ ہوا جس کا مختصر خلاصہ کچھ یوں تھا کہ فلسطین کو بیچ ڈالو اور اسرائیل فلسطین پر قابض ہو جائے، دراصل اس وقت برطانوی استعمار فلسطین کی کفالت کے فرائض انجام دے رہا تھا تاہم یہی سوچ کر برطانوی استعمار نے فیصلہ کیا تھا کہ فلسطین بکاؤ مال ہے، لیکن اس وقت بھی یعنی ایک سو ایک سال قبل فلسطین کی با غیرت و با حمیت ملت نے عالمی شیطانی قوتوں کے اس منصوبہ اور فارمولہ کو کہ جس میں وہ یہ سمجھتے تھے کہ فلسطین بکاؤ مال ہے ، شدت سے مسترد کر دیا تھا اور آج بھی ایک سو ایک سال گزر جانے کے بعد کہ جب فلسطینیوں کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے ، اس موجودہ نسل نے بھی اپنے اسلاف کی قربانیوں اور جد وجہد کو اسی جذبہ اور ہمت کے ساتھ جاری رکھا ہے کہ جس کا آغاز اعلان بالفور سے قبل اور بعد ہو اتھا۔
آج 2018ء میں کہ جب دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ فلسطین کے مسئلہ پر ایک سو سال کی تکمیل پر صدی کا منصوبہ متعارف کروا رہا ہے جس میں فلسطینیوں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ جعلی ریاست اسرائیل کے سامنے تسلیم ہو جائیں اور فلسطین کے دارالحکومت یروشلم شہر اور اس میں موجود مقدسات بالخصوص قبلہ اول بیت المقدس سے بھی دستبردار ہو جائیں تو امریکہ فلسطینیوں کو امن فراہم کر سکتا ہے اور اسرائیل کے ساتھ صلح صفائی کا معاملہ کیا جا سکتا ہے لیکن فلسطینیوں نے امریکی صدر کی جانب سے پیش کئے گئے اس خطرناک اور غیر منصفانہ فارمولہ کہ جس کو صدی کی ڈیل کہا گیا ہے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

برطانوی اعلان بالفور کے ایک سو سال بعد امریکی اعلان ٹرمپ دونوں ہی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں، ایک استعماری شیطان نے فلسطین پر ناجائز صیہونی ریاست قائم کرنے کی بنیاد رکھی تو شیطان بزرگ امریکہ جعلی ریاست اسرائیل کے تحفظ کے لئے فلسطین کی سودے بازی کرکے ایک سو سالہ ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے۔ چاہے بالفور اعلامیہ ہو یا کہ ٹرمپ اعلامیہ (صدی کی ڈیل) فلسطین کے عرب اس کو مسترد کر چکے ہیں، نہ صرف فلسطین میں بسنے والے مسلمان عرب فلسطینی بلکہ عیسائی و ایسے یہودی فلسطینی بھی موجود ہیں جو صیہونیوں کے فلسطین پر تسلط کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے صیہونی آبادکاروں کا فلسطین کی سرزمین پر کوئی حق نہیں ہے۔ فلسطینیوں نے جس طرح ماضی میں بالفور اعلامیہ کو مسترد کیا اور اس کے خلاف متحد ہو کر مزاحمت کی آج ایک سو سال بعد ٹرمپ اعلامیہ یعنی صدی کی ڈیل کے خلاف بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں اور اپنے حقوق کی جنگ اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر لڑنے میں مصروف عمل ہیں، رواں سال فلسطینیوں کے یوم ارض فلسطین کے دن سے یعنی تیس مارچ کو شروع ہونے والی فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک دن بدن زور پکڑ رہی ہے جبکہ دو سو سے زائد فلسطینی اب تک جام شہادت نوش کر چکے ہیں لیکن مسلسل حق واپسی کے لئے مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں جو نہ صرف اسرائیل کی پریشانی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ خود امریکی منصوبوں کے خاک میں مل جانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ان مظاہروں اور حق واپسی کے نعروں میں گونجتا ہوا ایک منفرد اور زبردست قسم کا نعرہ ’’فلسطین بکاؤ مال نہیں ‘‘ بھی ہے جس نے نہ صرف پوری دنیا بلکہ شیطان بزرگ امریکہ اس کی ناجائز اولاد اسرائیل اور عرب دنیا میں موجود ان کے حواریوں اور غلاموں پر واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ فلسطین پر ہونے والی سودے بازی کو قبول کر لیا جائے گا، ایسا نہ تو ایک سو سال قبل بالفور اعلامیہ کے وقت ہوا تھا اور نہ آج کے زمانہ میں ایسا ہونے دیا جائے گا۔
فلسطین عرب (مسلمان، عیسائی، یہودی جو صیہونیوں کو مسترد کرتے ہیں) سب کے سب کا ایک ہی نعرہ ہے ، ’’دنیا جان لے، فلسطین بکاؤ مال نہیں !‘‘۔ فلسطینی قوم نے امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے سر نہ جھکانے کا اصولی اور شجاعت مندانہ فیصلہ کر لیا ہے جبکہ خطے کی عرب ریاستیں امریکی شیطان کے سامنے تسلیم خم ہو چکی ہیں اور ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی ناپاک سازشوں میں بھی مصروف عمل ہیں۔ یہ فلسطینی قوم کا اعزاز ہے کہ اس نے بالفور اعلامیہ سے قبل اور اس کے بعد آج تک کبھی بھی اپنے اصولی مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ فلسطینی با غیرت و شجاع قوم نے امریکہ کی طرف سے پیش کردہ نام نہاد امن تجویز "صدی کی ڈیل" کو ایک منحوس اسکیم قرار دیا ہے جو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہوگی۔

آج شیطان بزرگ امریکہ دنیا کی تمام تر قوت اور ٹیکنالوجی کے باوجود پا برہنہ فلسطینی مجاہد ملت کے سامنے بےبس نظر آ رہا ہے جبکہ دوسری طرف فلسطینی قوم کی یکجہتی اور اتحاد کے سامنے صہیونی، امریکی سازش پارہ پارہ ہو رہی ہے۔
فلسطینیوں کی بےمثال جدوجہد نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے فلسطینی قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور فلسطینیوں کو دباؤ میں لانے اور انہیں بلیک میل کرنے کی مجرمانہ پالیسی اپنا رکھی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت حالیہ دنوں امریکہ میں موجود فلسطینی تنظیم پی ایل او کے دفاتر کو بند کرنے جیسے اقدامات اور اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے ورکس کی امداد کاٹنے جیسے اقدامات ہیں۔ امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جو کہ خود امریکہ کی بےبسی اور شکست کو ظاہر کرتا ہے۔ فلسطینیوں نے شیطان بزرگ امریکہ اور اس کے عرب حواریوں پر ایک بات واضح کر ڈالی ہے کہ فلسطین کوئی چیز نہیں کہ اسے نیلام کیا جائے اور ہر ایک اس کی بولی لگاتا پھرے۔ فلسطین دنیا کا سب سے بڑا حل طلب مسئلہ ہے۔ یہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک فلسطینی قوم کو بلا کم و کاست اس کے دیرینہ حقوق مل نہیں جاتے۔ القدس فلسطینی قوم کا اور فلسطین کا دارالحکومت ہے جس کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ القدس کے حوالے سے فلسطین کے مسلمان اور عیسائی سب ایک ہی صفحے پرہیں۔ فلسطینی عربوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے تک جدو جہد جاری رکھیں گے۔
خبر کا کوڈ : 756032
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش