0
Monday 22 Oct 2018 10:13

پاکستان میں ایک جدید خارجیت کا ظہور(2)

پاکستان میں ایک جدید خارجیت کا ظہور(2)
تحریر: ثاقب اکبر
 
ہمارے ہاں عموماً بعض مذاہب و مسالک کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ شدت پسندی کی طرف نہیں آتے، تکفیریت سے اجتناب کرتے ہیں اور ان کا مجموعی تاثر امن پسندی پر مشتمل ہے۔ البتہ شاید ہم جن گروہوں کے بارے میں یہ احتمال نہیں رکھتے کہ وہ شدت پسندی کی طرف آئیں گے، گاہے ان کے اندر سے بھی انتہائی شدت پسند عناصر سامنے آنے لگتے ہیں اور ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ یہی حیرت شاید اہل پاکستان کو مولانا خادم حسین رضوی کی شدت پسندانہ شخصیت کو دیکھ کر ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ ان کی تحریک کو پاکستان میں ایک جدید خارجیت کے ظہور سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر سے بعض ایسی خصوصیات سامنے آئی ہیں، جو خوارج ہی پر صادق آ سکتی ہیں، نیز عصر حاضر کے تکفیری گروہوں کے ساتھ بھی ان کے بہت سے مشترکات دکھائی دیتے ہیں۔

مولانا خادم حسین اپنی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں، وہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے اپنے نسخے کو ہی نسخہ کیمیا گردانتے ہیں بلکہ دوسری ہر تجویز کو باطل قرار دیتے ہیں۔ ان کے سامنے ان کے پیروکاروں نے گھیراﺅ جلاﺅ کا سلسلہ شروع کیا، لیکن انہوں نے اسے نہیں روکا، گاڑیاں جلائی گئیں، پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچایا گیا اور انہوں نے یہ سب ہوتے دیکھا اور اپنے پیروکاروں کو اس سے منع نہیں کیا۔ ان کے پیروکار بالکل خوارج کی طرح سے ان سے اندھی عقیدت رکھتے ہیں اور ان کے طرز عمل پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔ یہی نہیں بلکہ ان کے منہ سے جب گالیاں جھڑ رہی ہوتی ہیں تو وہ آگے سے ”سبحان اللہ“ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ یہ امر بہت ہی اہم ہے کہ خادم حسین رضوی اپنے نعروں اور متشدد مزاج کے ساتھ سیاست میں داخل ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کے مسائل کو بیان نہیں کرتے مثلاً گرے لسٹ میں پاکستان کی شمولیت، عالمی دہشتگردی، قومی و لسانی تحریکیں، بلوچستان کے داخلی مسائل، پاکستان میں پانی کی کمی کا خطرناک حد تک پہنچا ہوا مسئلہ وغیرہ۔ البتہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میرے پاس ان مسائل کے حل کے لئے لوگ موجود ہیں، میں تو اقبال اور قرآن پڑھاﺅں گا، مسئلے میرے عقیدت مند حل کریں گے۔
 
اگر کسی پارٹی کی یہی ترجیحات ہوں تو وہ برسراقتدار آکر مرکز یا صوبے میں کیا کرے گی؟ اگر ممتاز قادری نے جو کیا وہ درست ہے تو کیا ہم سمجھیں کہ جو بھی ان کی حکومت کے دور میں رسول اکرم کا نام لے کر کسی کو توہین رسالت کا مرتکب قرار دے اور اسے قتل کر دے تو خادم حسین رضوی کی حکومت اسے ایسے ہی ہیرو قرار دے گی، جیسے ممتاز قادری کو ہیرو قرار دیا ہے یا وہ کسی قانون اور قاعدے کے مطابق قاتل کو عدالت کے سامنے پیش کرے گی۔؟ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے کہ ایسے لوگ سیاست میں وارد ہو جائیں جن کے پاس مملکت کے مسائل کے حل کا تو کوئی ایجنڈا نہ ہو، فقط عقیدتی مسائل پر کچھ نعرے ہوں۔ قانون، عدالت اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے، عدالت کو وہ کیا سمجھتے ہیں، اس کا اندازہ ان کی گذشتہ چند سالہ تحریک اور کئی ایک واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان کے لئے ضروری نہیں کہ انتخابات میں کامیاب ہوں۔ وہ سڑکیں بند کرنے، شہر بند کرنے، یہاں تک کہ اسلام آباد اور لاہور جیسے شہر بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہر مخالف کو مغلظات سے نوازتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنی گالی گلوچ کے لئے مذہبی تاویلوں کا سہارا لیتے ہیں، اپنے ہر کام کو مقدس ظاہر کرتے ہیں۔
 
مولانا خادم حسین رضوی اہل سنت کے جس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے بارے میں عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ صلح جو ہیں، تمام مسلمہ مکاتب فکر کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد کے قائل ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر شیعوں کی مذہبی رسوم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ عوام بھی صوفیا کے اعراس اور عید میلادالنبی کے جلوسوں میں ان اہل سنت کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ صوفیاء کے مزارات پر بھی عموماً شیعہ سنی اکٹھے ہوتے ہیں، لیکن خادم حسین رضوی کے ظہور سے صورت حال بدلنا شروع ہوگئی ہے اور اہل سنت کے نسبتاً معتدل سمجھے جانے والے گروہ کے بارے میں نئے نئے سوالات سامنے آنے لگے ہیں۔ مسئلے کا زیادہ ضخیم اور وخیم پہلو یہ ہے کہ یہی لوگ سواد اعظم ہیں اور اگر یہ شدت پسندی کا راستہ اختیار کر لیں تو پھر اس ملک کا کیا بنے گا۔ یہاں اس گروہ کے شدت پسند ہو جانے سے خدا نخواستہ مختلف مسالک کے لوگوں کے مابین ٹکراﺅ ہوگیا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ سوچ کر بھی وحشت ہوتی ہے۔
 
مولانا خادم حسین رضوی کا ظہور ممتاز قادری کے ہاتھوں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل سے ہوا۔ مولانا خادم حسین رضوی نے ممتاز قادری کو ہیرو قرار دیا اور اس کے اقدام قتل کے درست ہونے کا اعلان کیا۔ ان کے مقابلے میں سب سے اہم آواز ڈاکٹر طاہر القادری کی تھی، جن کا نظریہ یہ تھا کہ قتل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ قانون کے مطابق عدالتوں کو کرنا چاہیئے تھا۔ مولانا خادم حسین نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اس پر وہ گالیاں دیں کہ الامان والحفیظ۔ جن لوگوں نے گالیوں سے آلودہ ویڈیو دیکھی ہے، وہ جانتے ہیں کہ مولانا خادم حسین نے موٹی موٹی گالیاں دینے کے بعد اعتراف کیا کہ ان کی لغت میں گالیاں ختم ہوگئی ہیں ورنہ وہ ڈاکٹر قادری کو مزید گالیاں دیتے۔ مولانا خادم حسین کے طرز عمل کو دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قوم و ملت کے دیگر تمام مسائل غیر اہم ہوگئے اور پس منظر میں چلے گئے ہیں، جبکہ چند مذہبی قوانین سب سے اہم ہوگئے ہیں۔ البتہ ہماری گفتگو مذہبی قوانین کی اہمیت کے بارے میں نہیں بلکہ اس بارے میں ہے کہ مولانا رضوی ان قوانین کے مطابق بھی چلنے کو تیار نہیں۔

قانون تو اجازت نہیں دیتا کہ کوئی خود سے ایک فرد کے بارے میں ایک رائے قائم کرلے، خود ہی اسے ختم کرنے اور سزا دینے کا فیصلہ کرے اور پھر اس پر ستائش و آفرین کا بھی حقدار قرار پائے۔ یہی تو خارجیت ہے اور یہی تمام متشدد گروہوں کا طرز عمل ہے۔ جب ایک گروہ اس ملک میں دوسرے گروہ کو کافر کافر کہہ رہا تھا اور ساتھ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ جو نہ مانے وہ بھی کافر تو اس خارجیت کے نتائج آخر کیا نکلے، قتل و غارت کا بازار کیسے گرم ہوا، ریاست کو اس کا کتنا نقصان ہوا اور عالمی سطح پر کیا تاثر پیدا ہوا؟ ہم ابھی تک اس کے برے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اب ایک اور مسلک کے اندر سے یہی فکر اور رویہ ابھرا ہے۔ اس گروہ کا سربراہ بزعم خویش عالم بھی ہے، صوفی بھی ہے اور پیر بھی، پیر بھی معمولی درجے کا نہیں بلکہ صاحب کشف و کرامات پیر، جسے جنّوں اور فرشتوں تک رسائی حاصل ہے، جن جس کا حکم مانتے ہیں۔ اس کے لئے دلیل درکار ہے نہ ثبوت۔ بس مستند ہے ان کا فرمایا ہوا، کیونکہ جو نہیں مانے گا وہ صوفیاء کا منکر قرار پائے گا۔ پھر اس دربار سے جو بھی منکر یا کافر قرار پا گیا، وہ قابل گردن زدنی بھی ہے۔ مولانا کے بقول انہوں نے ایک مرتبہ بلیوں کی شکل میں جنّات کو دیکھا اور ڈانٹ کر انہیں شور مچانے سے منع فرما دیا اور جنات فرمانبرداری کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

پچھلی حکومت کو تو اسلام آباد اور لاہور سے مہا جِن نکالنے کے لئے بہت پاپڑ بیلنا پڑے، نئی حکومت کو بھی کچھ کڑوے گھونٹ نگلنا پڑے ہیں۔ جب اگست 2018ء میں کارٹونوں کا مسئلہ ہالینڈ سے اٹھا تو مولانا رضوی نے ہالینڈ سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ہالینڈ کے سفیر کو فوری طور پر ان کے ملک میں واپس بھیجا جائے۔ عالمی سیاست میں سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مرحلہ بہت بعد میں آتا ہے۔ اس سے قبل سفارتی ذرائع سے معاملات حل کرنے کے لئے بہت سے آپشنز کو آزمایا جاتا ہے، لیکن مولانا نے اپنا مطالبہ منوانے کے لئے اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر دیا اور یہ سلسلہ شروع بھی ہوگیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تو معمولی سا مطالبہ ہے، ہم تو یہ بھی مطالبہ کرسکتے تھے کہ ہالینڈ پر فوجی حملہ کر دیا جائے۔ وفاقی حکومت اس پر مطمئن ہے کہ کارٹونوں کا منحوس مقابلہ منسوخ ہوگیا اور بلا ٹل گئی، لیکن اسے یقین کر لینا چاہیئے کہ بلا گھات لگائے بیٹھی ہے۔ ایک اور ایسا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا، جس سے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

کوئی بھی اور واقعہ رونما ہوسکتا ہے، ملک سے باہر یا ملک کے اندر، لہٰذا اس بلا کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ تجویز تو نہیں کرتے کہ پکڑ دھکڑ شروع کر دی جائے، کیونکہ مقدمات تو مولانا رضوی پر پہلے ہی موجود ہیں۔ مقدمات قائم بھی ہوتے رہے اور واپس بھی لئے جاتے رہے بلکہ سرد خانوں میں بھی پڑے ہیں۔ ان کے پیروکار ایک مرتبہ ضلع اٹک کے ایک تھانے پر حملہ کرکے انہیں آزاد کروا لائے تھے۔ اس ملک میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے شخص کی رہائی کے لئے تھانے اور جیل پر حملہ نہیں کیا گیا، لیکن مولانا خادم حسین رضوی کی رہائی کے لئے ایسا کیا جا چکا ہے۔ اس ملک میں توہین عدالت پر ایک وزیراعظم گھر جا چکا ہے، کئی سابق وفاقی وزراء اور سیاسی راہنما توہین عدالت کے ارتکاب پر سزائیں بھگت چکے اور بھگت رہے ہیں، ایسے بھی ہیں جنھیں توہین عدالت پر ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں۔ کئی ایک پر توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی ہے۔

دوسری طرف مولانا خادم حسین رضوی نے عدالتوں کو کیا کیا نہیں کہا بلکہ چیف جسٹس سے کہا ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو تم ہندو وکیلوں کے کتے نہلا رہے ہوتے۔ وہ حکومت اور عدالت کے لئے ایک جیسی زبان استعمال کرنے کی ”قدرتِ کمال“ رکھتے ہیں اور کوئی ”اقتدار یا مقتدرہ“ ان پر ہاتھ ڈالنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی لائق توجہ ہے اور وہ یہ کہ صوفی محمد کی تحریک اور ٹی ٹی پی کا اثرورسوخ نسبتاً قبائلی علاقوں میں تھا، جبکہ مولانا خادم رضوی ملک کے بڑے شہروں اور گنجان آباد علاقوں میں موثر ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے پیروکار عموماً دینی مدارس کے لوگ نہیں بلکہ ملک کے عام شہری ہیں۔ جو ان کے ہم نوا ہیں یا ان سے متاثر ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ انتخابات میں بظاہر قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکے، تاہم ان کے انتخابی امیدواروں کے حاصل کئے ہوئے ووٹوں اور ان علاقوں پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے، جہاں سے انہیں یہ ووٹ ملے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس زہر کا تریاق کیا ہے۔ شاید اس کا جوا ب مشکل ہے۔

خود امیرالمومنین حضرت علی ؑ نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا: "اے لوگو! میں نے فتنے کی آنکھ پھوڑ دی ہے، میرے علاوہ کسی میں یہ جرات نہ تھی اور جب اس کی تاریکیاں تہ و بالا ہو رہی تھیں اور باﺅلے کتوں کی طرح اس کی دیوانگی زوروں پر تھی تو میرے سوا کسی میں یہ جرات نہ تھی، جو اس کی طرف بڑھتا۔" (نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر۱۹) ہماری رائے میں اس مشکل کا سب سے اہم اور کامیاب حل یہ ہے کہ عوام الناس کو بڑی حکمت سے صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔ عوام کی اس بارے میں تربیت ضروری ہے کہ مسائل کے حل کے لئے قانون و آئین کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو سیاسی یا مذہبی مظاہروں، دھرنوں اور ریلیوں کے بارے میں بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ متشدد مظاہروں اور ریلیوں کے قومی نقصانات سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ وہ علماء جو قانون کے احترام پر یقین رکھتے ہیں، ان کے کندھوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک مسئلہ جو ایسی مشکلات کو سوا کر دیتا ہے یہ ہے کہ علماء، سیاسی راہنماء بلکہ صحافی اور دانشور بھی عموماً عوام کی مخالفت یا ایک خاص مذہبی گروہ یا مسلک کے ردعمل کے خوف سے خاموشی میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھ بند کرلے تو بلی ٹلتی ہے نہ بلا اور ہونی ہو کر رہتی ہے، آنی آکر رہتی ہے۔ بہرحال یہ وقتی حل ہے، قوموں کی تربیت ایک صبر آزما اور مسلسل عمل ہے۔ تعلیم و تربیت کے نظام کو بہتر بنانا چاہیئے۔ میڈیا کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے۔ حکومتی اور نجی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا اور کرتے رہنا چاہیئے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 757202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش