0
Monday 22 Oct 2018 13:54

مثلہ کی رسم کہاں سے چلی؟؟؟

مثلہ کی رسم کہاں سے چلی؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
 
چند دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری کہ سعودیہ کے معروف صحافی جمال خاشقجی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ جمال خاشقجی کا نام پہلی بار سنا تھا، کچھ ہی دنوں میں سوشل اور انٹرنیشنل میڈیا پر لیڈنگ خبر ہی یہی تھی۔ جمال خاشقجی پر اتنے زور و شور سے چلنے والی اس مہم پر غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ امریکہ کے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں لکھتے تھے، اس لئے یہ شور ذرا زیادہ ہے اور ساتھ ہی وہ امریکی شہریت بھی رکھتے تھے، اس لئے ان کا خون اعلیٰ درجے کا خون تھا، جس پر یہ عالمی دباو بنایا گیا تھا۔ ورنہ یمن میں سینکڑوں صحافی قتل ہوچکے، ان پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ نہ ان کا اخبار واشنگٹن پوسٹ ہے اور نہ ہی ان کے پاس امریکی شہریت ہے۔ اس قتل سے امریکہ نے کئی مفادات حاصل کئے ہیں، جیسے سعودی آمریت کے خلاف مذہبی لوگوں کی جدوجہد کو بڑے طریقے سے سیکولر حلقوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، شہید النمر جیسے شہداء کے خون سے چلنے والی اس تحریک کو اور رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکی سینیٹ اور امریکی میڈیا  جب ایک مقررہ حد سے آگے بڑھا اور یہ مطالبہ کیا کہ سعودی عرب کو امریکی اسلحہ کی فروخت روک دی جائے تو ٹرمپ جو امریکی اسلحہ کی فروخت میں امریکیوں کی نوکریاں دیکھتا ہے، اس سے چاہے پوری نسل تباہ ہو جائے، اس سے اسے کوئی غرض نہیں ہے، اس نے کہا کہ ایک سو بیس ارب ڈالر کے سودوں کی منسوخی کا مطلب سعودی عرب کو سزا دینے کی بجائے خود کو سزا دینے جیسا ہے، کیونکہ اس سے ہمیں  ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان ہو جائے گا۔

جیسے جیسے اس واقعہ کی تفصیلات منظر عام پر آرہی ہیں، انسانوں کا اضطراب بڑھتا جا رہے اور آل سعود کی وحشت و بربریت دنیا پر کھلتی جا رہی ہے کہ شخصی آمریت کو بچانے کے لئے ریاست کس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ اس نے اپنے ہی نامور فرزند کو تمام بین الاقوامی قوانین کو توڑتے ہوئے اپنے سفارتخانے میں قتل کیا اور قتل بھی بھیانک انداز میں کیا۔ قتل کرنے کے بعد لاش کا مثلہ کر دیا گیا، لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے۔ ساٹھ سالہ ایک شخص جس کے پاس قلم کی طاقت تھی، اس سے اتنا خطرہ محسوس ہوا کہ بجائے دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاتا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے، تاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے اور کوئی محمد بن سلمان کی مخالفت کا سوچ بھی نہ سکے۔

لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے عمل کو  عربی زبان میں مثلہ کہتے ہیں،  عربوں میں یہ رواج تھا، جس سے ان کی شدید دشمنی ہوتی، وہ جب اس کو قتل کر دیتے تو اس کے جسمانی اعضاء کو کاٹ لیا جاتا تھا اور اسے انتقام سمجھا جاتا تھا۔ حق و باطل کے درمیان برپا ہونے والے پہلے معرکہ جسے یوم فرقان کہا گیا، جو بدر کے مقام پر لڑا گیا، کفار کی بدترین شکست اور سرداران قریش کے واصل جہنم ہو جانے پر انہیں بڑا دکھ ہوا۔ ہند بنت عتبہ کا باپ اور بھائی اس جنگ میں مارے گئے، اس نے نذر مانی تھی کہ حمزہؑ  کا کلیجہ چبا لے گی! وحشی نے ابتداء میں علیؑ کے قتل کا وعدہ دیا، لیکن میدان میں جاکر اس نے حضرت حمزہ ؑکو شہید کر دیا اور ان کا کلیجہ نکال کر ہند بنت عتبہ کے حوالے کیا۔ ہند نے اپنا لباس اور زیور وحشی کو دیا اور وعدہ دیا کہ مکہ پہنچ کر دینار بطور انعام اس کو ادا کرے گی۔ بعدازاں حمزہ ؑکے جسم بےجان کے قریب آئی اور بدن کا مثلہ کر دیا اور ان کے اعضاء سے جسمانی ہار، کنگن، بالیاں اور پازیب بنالی اور انہیں حمزہ کے کلیجے کے ہمراہ مکہ لے گئی۔

حمزہ ؑکے پیکر بےجان کی حالت دیکھ کر بعض اصحاب نے قسم اٹھائی کہ وہ قریش کے 30 یا اس بھی زیادہ افراد کا مثلہ کریں گے، لیکن سورہ نحل کی آیت 126 نازل ہوئی: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ "اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر جس قدر انہوں نے تمہارے ساتھ سختی کی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر بہرحال صبر کرنے والوں کے لئے بہترین ہے۔" کسی نے مرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ان سے مثلہ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ پر ابھارتے تھے اور مثلہ سے روکتے تھے۔ قرآن کا حکم اور نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ کسی بھی مرنے والے کا مثلہ نہیں کیا جائے گا، میت چاہے کافر کی ہی کیوں نہ ہو، اس کی اہانت کی اجازت نہیں ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ ایسے لوگوں کو مسلمان ہونے جانے کے باوجود پسدیدہ نہیں سمجھتے تھے، جنہوں نے مثلہ کیا ہو۔ حضرت حمزہ ؑ کا کلیجہ نکالنے والے وحشی کا اسلام قبول فرمایا، اسے امان دی مگر اس بات کا اظہار بھی فرمایا کہ وہ کہیں اور چلا جائے۔ یہ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپﷺ حضرت حمزہؑ سے بہت شدید محبت کیا کرتے تھے اور دوسرے ایسے لوگ جو وحشی افعال سرانجام دیتے ہیں، باوجود مسلمان ہو جانے کے ان کے ان افعال کی وجہ سے ایک کراہت ان سے رہتی ہے۔

میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں نے جو خود کو مسلمان کہتے تھے، انہوں نواسہ پیغمبر ﷺ کو قتل کر دیا ہو؟ جبکہ وہ جانتے ہوں کہ وہ جس نبیﷺ کا کلمہ پڑھ رہے ہیں، یہ اس نبی ﷺ کا نواسہ ہے اور جس آل محمدؑ پر ہر نماز میں درود و سلام بھیج رہے ہیں، یہ  اس کا کامل فرد ہے۔ لاشوں کو پامال کرنا دشمنی کی انتہا اور مثلہ کرنے سے بھی اگلا مرحلہ ہے، یہ لوگ محبوب خاتم الانبیاءؑ حضرت امام حسینؑ کی دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ انہوں نے آپ کے  لاشہ کو بھی پامال کر دیا۔ اب اکیسویں صدی میں جب اس طرح کے واقعات دیکھتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ جو آج کے اس تہذیب یافتہ دور میں  بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک محفوظ علاقے میں ایک شخص پر بدترین تشدد کرتے ہیں اور اس کے بعد اسے قتل کر دیتے، ان کا کام تو ختم ہوگیا تھا، کیونکہ اپنے بادشاہ کے خلاف ایک آواز کو دبا دیا گیا تھا، مگر انہوں نے اس پر بس نہیں کی اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان نفرت میں کس حد تک گر سکتا ہے کہ اسے سامنے والا  انسان نظر نہیں آتا۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جہالت کے پیروکاروں نے ایسا ضرور کیا ہوگا کہ نواسہ پیغمبرﷺ کی بہن بھی تڑپ گئیں تھیں۔ حق و باطل کا معرکہ جاری ہے، کربلا بھی سفر کر رہی ہے، اہل حق قربانیاں دے رہے ہیں اور باطل کے نمائندے ظلم تشدد کے ذریعے سے ان کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اہل حق آگے بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 757282
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش