1
Tuesday 23 Oct 2018 22:16

حادثے ہماری مدد کو آتے ہیں، مگر!

حادثے ہماری مدد کو آتے ہیں، مگر!
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

ہمارے وزیراعظم سعودی عرب ہیں، جہاں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب بھی کرچکے ہیں۔ پاکستان جب بھی مشکل میں ہوتا ہے، دنیا میں پیش آنے والا کوئی حادثہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو ضیاءالحق کو معاشی مشکلات درپیش تھیں، جنرل مشرف جب مالی پریشانی کا شکار ہوئے تو نائن الیون کا وقوعہ پیش آیا، عمران خان کا وزیراعظم بننا بھی ایک حادثے سے کم نہیں، لیکن جب کھلاڑیوں کو بحران کا سامنا ہے تو ترکی میں سعودی صحافی کا قتل ہوا اور ہمارے عربی دوست سفارتی تنہائی محسوس کرنے لگے۔ ہم پہلے ہی ایسے موقعے کی تلاش میں تھے، ہمارا وفد جا پہنچا ریاض، 12 ارب ڈالر کے معاہدے طے پا گئے، وزیراعظم واپس آئیں گے اور کابینہ اپنا فیصلہ دیگی۔ معاشرے میں بحث جاری ہی تھی، لیکن جونہی کوئی نیا واقعہ رونما ہوگا، یہ ختم ہو جائے گی۔ ٹاک شوز میں کچھ عرصہ یہ شور رہے گا کہ سعودیوں کے ظالم، جابر، جارح اور قاتل ہونے میں کوئے شک نہیں، لیکن ہمارے لئے انصاف کے اصول کی پاسداری مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

میڈیا ٹاکس یہی ہیں کہ امریکہ جیسی طاقت یہ کہہ سکتی ہے کہ ہمیں معاہدے بھی جاری رکھنے ہیں، لیکن انسانی حقوق کے متعلق بات بھی کرینگے، ہمارے لئے ممکن نہیں۔ یہی مبصرین ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہمارا بھلا اسی میں ہے کہ بھارت کے مقابلے میں امریکہ کے قریب رہیں۔ خیر یہ رائے بھی عمومی طور پر حادثات کی پیداوار ہے، موجودہ ڈیل بھی ترکی میں ہونیوالے قتل کے نتیجے میں مکمل ہوسکی ہے۔ عمران خان نے سعودی سلاطین کے جرائم پہ چپ سادھ رکھی ہے، لیکن دنیا کو دیانت داری کا پاٹ پڑھا رہے ہیں۔ ان کے سر پہ صرف سرمایہ کاری ملک میں لے آنا سوار ہے۔ پاکستان میں اپنے علاوہ سب کو کرپٹ کہنے والے انصاف کے دعویدار ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کی کرپٹ اشرافیہ کو عرب شہزادوں کی آشیرباد حاصل ہے، لیکن وفاقی وزراء اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم کو جو عزت سعودی عرب میں ملی ہے، یہ کسی حکمران کو نہیں ملی۔ خواجہ آصف، اسحاق ڈار، شریف برادران، زرداری سمیت کسی کو نہیں ملی۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان کی ذات کرپشن کے داغ سے صاف ہے، وہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے ہے۔

انہوں نے خطاب میں کہا کہ معیشت کی بہتری کے لئے ہر صورت منی لانڈرنگ کو روکنا ہوگا، کرپشن ہی ملکوں کو غریب بناتی ہے، کرپٹ حکمران کرپشن کیلئے گرفت کرنے والے اداروں میں اپنے لوگ لگا کر انہیں تباہ کرتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے، منی لانڈرنگ کو تحفظ دینے والے یہی قاتل ہیں، جن کے دربار میں آپ کاسئہ گدائی لئے پھرتے ہیں۔ اگر آپ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کرپشن ہی ملکوں کو غریب بناتی ہے، اس لئے ہماری جماعت اور حکومت کا مرکزی ایجنڈا کرپشن پر قابو پانا ہے، کرپشن ملکی اداروں کو تباہ کرتی ہے اور زیادہ تر اشرافیہ بدعنوانی میں ملوث ہوتی ہے، کرپٹ حکمران کرپشن کے لئے گرفت کرنے والے اداروں میں اپنے لوگ لگا کر انہیں تباہ کرتے ہیں، حکومت پاکستان سے منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات کر رہی ہے۔ کیا کرپشن کی رٹ لگانے سے ظالموں کا ساتھ دینے کا گناہ دھل جاتا ہے۔؟ یہ وقت بتائے گا کہ سعودی شاہی رجیم نے تین سالوں کیلئے پاکستانی اکاونٹ میں اربوں ڈالر رکھنے کا وعدہ کیوں کیا، ان کی نظریں پاکستان کے معدنی ذخائر پر بھی ہیں، وہ ہمارا سونا مٹی کے بھاؤ لے جائیں گے، گوادر کو امریکی آماجگاہ بنائیں گے، چین کے ساتھ معاہدے منفی طور پر متاثر ہونگے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں ناہمواری بڑھتی جائے گی۔

کیا دنیا میں جب بھی ظلم، ناانصافی، کسی سرمایہ دار کو اپنے مظالم کی تائید کی ضرورت پیش آئے گی، ہم ہی آگے بڑھیں گے۔ اس طرح عمران خان کے بیان کردہ وژن اور اصولوں کی پاسداری ممکن نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ جس رہنماء نے یہ تاثر دیا ہو کہ وہ پاکستان کے استقلال اور عزت و وقار کو بحال رکھے گا، شرق و غرب کی ظالم طاقتوں کا ساتھ دینے کی بجائے بابائے قوم کی راہ پہ چلے گا، کیا حالیہ دورے، معاہدے، بیانات، اس کی تصدیق کرتے ہیں؟ بالکل نہیں۔ کیا جب پاکستان معرض وجود میں آیا، اس وقت ہمیں زیادہ ضرورت نہیں تھی کہ پاکستان طاقتور عالمی بلاک کا ساتھ دے، لیکن بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو تسلیم کیا، نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ عزت و وقار اور اصولوں کی پاسداری کی، اسی کو نوزائیدہ مملکت کا جواز بیان کیا اور مستقبل کی پالیسی قرار دیتے ہوئے آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے راستہ متعین کیا۔ عمران خان کے اتحادیوں کیلیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ ایسی سیاسی قوت کی تائید کیسے کی جا سکتی ہے، جو سابق موقع پرستوں کے راستے کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔

ایسی قوم جس کے اسلاف نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی ہو، عفت مآب ماؤں بہنوں بیٹوں نے عصمتیں قربان کی ہوں، ستر سال کے بعد ہم ایٹمی قوت کے مالک بھی ہوں اور دوسری طرف شریفانہ طور پر مشکلات کا برداشت کرنے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں۔ اس سے بڑھ کر شرم کا مقام کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارا میڈیا، حکمران، بیوروکریسی، پالیسی ساز سب یہ کہہ رہے ہوں کہ چونکہ سعودی حکمران ترکی میں ایک صحافی کو قتل کرنے کی وجہ سے اس وقت پریشان ہوسکتے ہیں، اس لئے یہ ہمارے پاس بہترین موقع ہے کہ ہم وہاں سرمایہ کاری کریں اور انہیں پاکستان میں پیسہ لگانے کی دعوت دیں، کیونکہ یہ ایک موقع ہے، جب وہ آسانی سے ہماری بات سن لیں گے، سخت شرائط نہیں رکھیں گے۔ کپتان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے، یہ درست ہے کہ موجودہ معاشی بحران گذشتہ حکمرانوں کی کرپشن اور غلط فیصلوں کو نتیجہ ہے، لیکن آپ اس مشکل سے پاکستان کو نکالنے کی صلاحیت اور حوصلے سے عاری ہیں، کیا صرف معاشی مفادات ہی انسان کو اشرف بناتے ہیں، کیا موقع پرستی کی پالیسی روشن مستقبل کی ضمانت ہوسکتی ہے، نہیں تو آپ کے دامن میں اور کیا ہے، جو آپ نے پیش کیا ہو۔ کاش ہم سمجھتے کہ یہ حادثے رب العزت کی طرف سے انسان کا امتحان ہیں، ثابت قدمی دکھائیں تو آپ کامیاب ہیں، ورنہ عذاب میں اضافہ ہوگا، اس کے سوا کچھ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 757521
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش