0
Wednesday 24 Oct 2018 15:15

تبدیلی سرکار کے 2 ماہ

تبدیلی سرکار کے 2 ماہ
تحریر: نادر بلوچ

یہ بات درست ہے کہ کسی بھی حکومت کو وقت ملنا چاہیئے، تاکہ وہ اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کرا سکے اور عوام سے کئے ہوئے وعدوں کو نبھا سکے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے آتے ہی چیزوں کی نرخ آسمان کو چھونے لگے ہیں، مختلف اشیاء کی قیمتوں میں کم و بیش 50 سے 60 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، چند روز قبل راقم کا راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ سے ہیلمٹ چوری ہوا اور مارکیٹ سے نئے ہیلمٹ کی قیمت سنی تو عقل ٹھکانے آگئی، 1 ہزار روپے والا ہیلمٹ اب 16 سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ دوسری جانب لاہور میں موٹر سائیکل پر سوار دونوں افراد کے لئے ہیلمٹ کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے، جس پر عمل درآمد کے لئے ٹریفک پولیس نے وارننگ بھی جاری کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ عالمی معیار کو پاکستان میں لاگو تو کرنا چاہتے ہیں، لیکن عالمی معیار کے مطابق شہری حقوق بھی تو دیں۔ اسپتالوں میں میڈیسن نہیں، عدالتوں میں انصاف نہیں، تھانوں میں سفارش اور پیسوں کے بغیر کوئی سنتا نہیں، ہر جگہ غریب ہی کیوں پِس رہا ہے۔؟

ہوشربا مہنگائی کی صورتحال یوں ہے کہ سبزیاں مرغی کے نرخوں سے بھی مہنگی ہوگئی ہیں۔ مارکیٹ میں مٹر کی قیمت دو سو سے کم نہیں، اور ستر روپے میں فروخت ہونے والے ٹینڈے اب 120 روپے میں فروخت ہو رہے ہیں، وہ بھی سبزی منڈی میں، یعنی عام مارکیٹ میں اس کا کیا ریٹ ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سبزی منڈی میں ریٹ مہنگا ہونے کی شکایت کی تو دکاندار نے دو جملے کہہ کر اپنی بات تمام کر دی، کہنے لگا ’’روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے۔‘‘ عام شہریوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پچھلی حکومت کیا کرکے گئی ہے، وہ تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے اپنے وعدوں پر کتنا عمل درآمد کیا ہے۔ یہ بیانیہ اب غالب آتا دکھائی دے رہا ہے کہ آپ نے کوئی تیاری نہیں کی ہوئی تھی، تبھی حالات دگر گوں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

نئی حکومت کے دو ماہ میں ڈالر نے ایسی اڑان بھری کہ 125 سے بڑھ کر 138 روپے تک پہنچ گیا اور اب واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہا، روپے کی بےقدری کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے، اوپر سے گیس کی قیمتوں میں تین سو فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔ وزیر خزانہ جو سابقہ حکومت کے بڑے ناقد تھے، اب خود اسی تنقید سے جان چھوڑواتے دکھائی دے رہے ہیں۔ موصوف کہتے ہیں کہ اگر اڑھائی سال میں پالیسی تبدیلی نہ لا سکے تو عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔ حضور والا عوام یہ کہانی سننے کے لئے تیار نہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا پلان کدھر ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے لئے کئے جانے والے دعووں پر ابتک عمل درآمد شروع کیوں نہیں ہوا۔ آپ نے ڈالروں کی بارش ہونے کا اعلان کیا تھا، اب تک اوورسیز پاکستانیوں نے وہ بارش کیوں نہیں کی۔ آپ نے کہا تھا کہ ٹیکس کا مزید کوئی بوجھ تنخواہ دار طبقے پر نہیں بلکہ امرا طبقے پر پڑے گا، لیکن ابھی تک ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

عمران خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ وہ قرضوں کی بھیک نہیں مانگیں گے، اپنے وقار کا سودا نہیں کریں گے، بیورو کریسی کو ٹھیک کریں گے، اپوزیشن میں رہ کر خان صاحب یہ تاثر دیتے تھے، جو درست بھی ہے کہ حکمران اپنا وقار کھو دیں تو اس کی دنیا پر کوئی عزت نہیں ہوتی، لیکن جب حاکم میں خود اعتمادی کا فقدان ہو اور اسی پرانے گھسے پٹے بیورو کریٹک نظام ہی جو خود بھی اس شعر کے 
’’قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقمہ مستی ایک دن‘‘

کے مصداق ہے اور حکومت بھی
’’میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
 اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘

 کی عملی تفسیر بنی ہوئی ہے۔
یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ پاکستان اس وقت ایک بڑے اقتصادی بحران اور قرضوں کی ادائیگی میں شدید قسم کے عدم توازان کا شکار ہے، تجارتی خسارہ آسمانوں کو چھو رہا ہے، اس کے باوجود انہی بابو قسم کے ماہرین اقتصادیات جو ہمیشہ ’’قرض کی پیتے تھے مے‘‘ والا قدیمی نسخہ کیمیا تجویز کریں تو ملک کو اس بحران سے کیسے نجات مل سکتی ہے۔ کیسے غیر ملکی اثر و رسوخ سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے؟، کیسے آزاد خارجہ پالیسی ترتیب دی جاسکتی ہے۔؟

نئی تبدیلی سرکار کو اب سمجھ آجانا چاہیئے کہ اپوزیشن میں رہ کر دعوے کرنا اور بات ہوتا ہے اور حکومت میں آکر چیزیں ڈیلور کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ آپ کرپشن کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، اچھی بات ہے لیکن اربوں روپے کی منی لانڈرنگ جسے آپ رکوانے کے دعوے کیا کرتے تھے، اس بارے میں بتائیں کہ روزانہ کتنی منی لانڈرنگ رکوا رہے ہیں۔؟ خان صاحب فرماتے ہیں کہ نئی پالیسیوں پر عملدرآمد کے سو دن بعد اثرات سامنے آنا شروع ہوں گے، لیکن قوم جاننا چاہتی ہے کہ وہ پالیسیاں ہیں کیا، جن کے اثرات سو دن بعد نمودار ہوں گے۔ عوام کو اپنی معاشی پالیسیوں سے متعلق آگاہ کریں۔ وزیراعظم صاحب کے منشور کو دیکھیں اور عملی صورتحال کو دیکھیں تو ماضی کی حکومتوں میں اور اس حکومت میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔

یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ سعودی عرب سے لئے جانے والے قرض کے عوض پاکستان کے پاس دینے کو کیا ہے؟، کہیں دوبارہ پاک ایران سرحدی معاملات خراب ہونا تو شروع نہیں ہو جائیں گے۔؟ کیونکہ جیش العدل کی حالیہ کارروائی کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو دو ملکوں کے درمیان تعلقات بہتری کی بجائے کشیدگی کی طرف جائیں گے، جو خطے اور بالخصوص پاکستان کے لئے درست نہیں، جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام ہمسائیوں سے اچھے تعلقات کی خواہاں ہے۔ موجودہ صورتحال پر میر تقی میر کی یہ غزل صادق آتی ہے۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں
تخم خواہش دل تو بوتا ہے کیا
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
خبر کا کوڈ : 757638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش