QR CodeQR Code

یمن کے "خشوگی"

24 Oct 2018 17:08

اسلام ٹائمز: اگر ہم حقیقت کا پردہ چاک کریں تو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ دنیا ایک جمال خشوگی کیلئے بیتاب اور تڑپ رہی ہے جبکہ یمن کا ہر گھر کئی کئی جمال خشوگی رکھتا ہے، جنہیں برباد کر دیا گیا ہے، جنکے پاس خدا کے سوا کچھ نہیں، جنکے بچے بھوک اور خوراک نہ ملنے کے باعث سوکھ سوکھ کے مر رہے ہیں، جنکے رہنے کیلئے چھت نہیں ہے، جنکے اسکول ملیامیٹ ہوچکے ہیں، جو سکول جاتے بسوں میں چیتھڑوں میں بدل دیئے جاتے ہیں، جنکا محاصرہ ہوئے تین سال گزر چکے ہیں، جن کیلئے عالمی ضمیر سویا ہوا ہے، جن کیلئے کوئی بھی انسانی حقوق کی پائمالی کا رونا نہیں رونے والا، جنہیں ہاتھ پائوں باندھ کے مارا جا رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر
 

2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصلیٹ میں جا کر غائب ہونے والے سعودی جلا وطن صحافی جمال خشوگی کی پر اسرار گمشدگی سے لیکر اس کے قتل کو آفیشل تسلیم کئے جانے تک اگر ہم عالمی میڈیا سمیت عرب میڈیا کا جائزہ لیں تو ایک کہرام برپا ہوا ہے، ایک طرف الجزیرہ اور دوسری طرف سی این این اور دیگر نیوز چینل اپنے اپنے انداز میں خبریں لیک کر رہے ہیں، تجزیئے و تحلیل اور احتمالات و امکانات پہ مسلسل بات چیت نظر آتی ہے، پاکستانی میڈیا بھی کسی حد تک ایک خبر کے طور پہ اسے پیش کرتا رہا ہے، ظاہر جب بات عالمی سطح پر تسلسل سے ہو رہی ہو تو پاکستانی میڈیا جس کے ملک سے باہر نمائنندگان نہ ہونے کے برابر ہیں، کچھ نہ کچھ ملنے والے مواد میں سے دکھاتا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ایک شخص کی گمشدگی اور بعد ازاں قتل تک پہنچنے کی واردات پہ امریکی سینیٹرز سیخ پا نظر آئے، امریکی صدر ٹرمپ اگرچہ اپنا موقف مسلسل بدلتے نظر آئے، مگر اس ایشو سے خود کو اس طرح علیحدہ نہیں رکھ سکے، جیسے ہماری حکومت نے خود کو اس سے الگ رکھا۔

امریکہ کیساتھ ساتھ کینیڈا اور کئی یورپی ممالک نے بھی سعودیہ کیساتھ اس معاملے میں سختی دکھائی اور یہاں ہونے والی عالمی اقتصادی کانفرنس کابائیکاٹ کیا، اسی طرح ان ممالک سے تعلق رکھنے والی بہت سے کمپنیز اور اداروں نے بھی اس قتل پر احتجاج کے طور پہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ یوں ایک شخص کا قتل ایک عالمی مسئلہ بن گیا اور یہ خون ناحق کے طور پر سامنے آیا۔ دنیا کے آزادی پسند اور انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اسے سعودیہ کی سنگین غلطی اور ظلم سے تعبیر کیا۔ خود ترک حکمران اردوگان اور اس کی حکومت نے نہایت محتاط انداز میں اس گمشدگی اور قتل میں بدلتے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا موقف پیش کیا۔ گذشتہ روز اردوگان کی تقریر کو عالمی سطح پر لائیو نشر کیا گیا، ہر ایک کو یہ توقع تھی کہ ترک صدر اس حوالے نہایت ٹھوس اور واضح ثبوتوں کیساتھ سعودیہ کو ننگا کر دینگے، مگر ہم نے دیکھا کہ بہت ہی محتاط انداز میں لگ بھگ وہی باتیں سامنے لائی گئیں، جو اس سے پہلے میڈیا میں امکانی طور پر یا تجزیوں میں پیش کی جاتی رہی ہیں، ماسوائے اس بات کے کہ اردوگان کا کہنا تھا کہ جن پندرہ سعودی باشندوں نے ہمارے ملک میں آکر قانون کی خلاف ورزی کی، ان پر یہیں مقدمہ چلنا چاہیئے۔

یاد رہے کہ قتل والے دن سعودیہ سے سپیشل ڈیتھ اسکواڈ کے پندرہ اراکین خصوصی طیارے کے ذریعے ترکی آئے تھے اور اسی دن کارروائی کرکے واپس چلے گئے تھے۔ ترک صدر رجب طیب اردوگان نے کہا تھا کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی منصوبہ بندی کئی دن پہلے کی گئی تھی۔ ترک صدر کا کہنا تھا ترکی کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ دو اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں جمال خشوگی کے "وحشیانہ" قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ ترکی بھی اس ایشو کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بالخصوص قطر جو سعودیہ سے کشیدگی کے بعد ترکوں کے مزید قریب ہوا ہے، کے معاملے اور اخوانیوں کیساتھ سعودیہ کا سلوک اس کے پیش نظر ہوسکتا ہے۔
 
سعودیہ نے اس قتل کی ذمہ داری بعض ایسے افراد پر ڈالنے کی کوشش کی ہے، جو حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر اور ولی عہد کی ٹیم کا اہم ترین حصہ ہیں، مگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کا یہ عمل ولی عہد کو بتائے بغیر تھا، اسی وجہ سے ان کی گرفتاری و برطرفی کی خبریں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک اور عرب خفیہ اداروں کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے برطرف کئے جانے والے ولی عہد کے قریبی ساتھی سعود ال قحطانی نے جمال خشوگی کی قونصل خانے میں آمد کے بعد وہاں موجود اہلکاروں سے سکائپ پر بات کی تھی اور صحافی سے سخت الفاظ کے تبادلے کے بعد کہا کہ "مجھے اس کتے کا سر لا کر دو۔" ذرائع کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے پاس اس گفتگو کی ریکارڈنگ موجود ہے، لیکن انہوں نے اسے امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا ہے۔

ادھر سعودی شاہ سلمان نے کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی کی، جس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب اس قتل کے ذمہ داران کو سزا دے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔ سعودی سرکاری میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہ سلمان اور ولی عہد نے ریاض میں جمال خشوگی کے اہلخانہ سے بھی ملاقات کی ہے، جن میں مقتول جمال خشوگی کے بیٹے صلاح بن جمال بھی شامل تھے۔ ایک تصویر بھی اس حوالے سے جاری کی گئی ہے، جس میں جمال کا بیٹا صلاح جمال ولی عہد محمد بن سلمان سے ہاتھ ملا رہا ہے، جو ایک دردناک منظر ہے، ایک مقتول کا بیٹا اپنے باپ کے قاتل سے مل رہا ہے، جو بہت ہی مشکل صورتحال ہے۔
 
آل سعود کے ظالمانہ و سفاکانہ اقدامات ایک تسلسل رکھتے ہیں، بالخصوص موجودہ حکمران اور اس کے ولی عہد نے ملک و بیرون ممالک میں اپنے مخالفین و ناقدین کیساتھ بے رحمانہ، متکبرانہ اور غیر انسانی انداز و سلوک اختیار کیا ہے اور کسی بھی صورت میں اپنی بادشاہت کی راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو برداشت نہیں کر رہا بلکہ انہیں ختم کرنے کیلئے ہر حد کو عبور کر رہا ہے۔ دوسرا اس ناتجربہ کارشہزادے نے اسرائیل جو امت مسلمہ کا ازلی دشمن ہے، کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے، یو اے ای، کویت، بحرین اور کئی دیگر ممالک کی فوج کیساتھ یمنیوں کو تاراجی و بربادی کا سامنا ہے۔ قطر کیساتھ جو سلوک سعودیہ نے کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے اور لبنان کے وزیراعظم سعد حریری جو ان کا اپنا دوست اور ساتھی تھا، اس کو جس انداز میں استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، وہ بھی ایک تاریخ ہے۔

یمن جنگ جسے تین برس سے زائد کا عرصہ ہو چلا ہے اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود اس کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے، یمنیوں نے اپنی تمام تر بے سر و سامانی کے باوجود عزت و غیرت و حمیت اور مزاحمت کا راستہ اپنایا ہوا ہے۔ اگر ہم حقیقت کا پردہ چاک کریں تو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ دنیا ایک جمال خشوگی کیلئے بے تاب اور تڑپ رہی ہے جبکہ یمن کا ہر گھر کئی کئی جمال خشوگی رکھتا ہے، جنہیں برباد کر دیا گیا ہے، جن کے پاس خدا کے سوا کچھ نہیں، جن کے بچے بھوک اور خوراک نہ ملنے کے باعث سوکھ سوکھ کے مر رہے ہیں، جن کے رہنے کیلئے چھت نہیں ہے، جن کے اسکول ملیامیٹ ہوچکے ہیں، جو سکول جاتے بسوں میں چیتھڑوں میں بدل دیئے جاتے ہیں، جن کا محاصرہ ہوئے تین سال گذر چکے ہیں، جن کیلئے عالمی ضمیر سویا ہوا ہے، جن کیلئے کوئی بھی انسانی حقوق کی پائمالی کا رونا نہیں رونے والا، جنہیں ہاتھ پائوں باندھ کے مارا جا رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ آیة اللہ شیخ باقر النمر کو پھانسی دینے کا جرم اس خائن الحرمین اور اس کے ولی عہد کی الٹی گنتی کا آغاز تھا، موجودہ قتل سے ان کی جو رسوائی ہوئی ہے، وہ ان کے ان گنت سفاکانہ جرائم کا ہی نتیجہ ہے، جس میں ان کے چہروں پر پڑی ہوئی نقاب الٹ گئی ہے اور اب وہ بھی بول رہے ہیں، جو کبھی نہیں بولتے تھے۔

افسوس کہ پاکستان اپنی کمزور اقتصادی پوزیشن کے بہانے ایک بار پھر سعودی لابی کے چنگل میں جا پھنسا ہے، اس کے اثرات ہمارے ملک پر اچھے نہیں ہونگے، اگرچہ مالی مفادات حاصل ہوسکتے ہیں اور وقتی افاقہ ہو جائیگا، مگر ملک میں طالبانائزیشن، بلوچستان میں کی گئی محنت اور قربانیاں رائیگاں جانے کا اندیشہ ہے۔ اس لئے کہ سعودیہ ایک بار پھر شدت پسند عناصر کو بلوچستان میں اپنے عالمی سرپرستوں کے کہنے اور اشاروں پر استعمال کریگا۔ اس وقت بھی سعودی حمایت یافتہ جیش العدل نے ایران کے چودہ سکیورٹی اہلکار اغوا کئے ہوئے ہیں، جس کیوجہ سے ایران پاکستان کو ان دہشت گردوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھانے کیلئے کہہ رہا ہے۔ گوادر میں آئل ریفائنری اور بلوچستان میں معدنی ذخائر ڈھونڈنے کیلئے اپنی دلچسپی کا اظہار دراصل اسرائیلی لابی کی پلاننگ ہوسکتی ہے، جو اندر کھاتے سعودیوں کیساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور ایران کو داخلی طور پہ کمزور کرنے کیلئے پہلے ہی اس علاقے میں اس کے ایجنٹ فعال ہیں، جو کھلے عام کام کرتے ہیں۔


خبر کا کوڈ: 757684

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/757684/یمن-کے-خشوگی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org