0
Thursday 25 Oct 2018 15:30

قرضہ مفت ملا ہے جی

قرضہ مفت ملا ہے جی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

محترم وزیراعظم عمران خان صاحب جب سے برسر اقتدار آئے ہیں، پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بڑی محنت کر رہے ہیں۔ لوگوں نے عمران خان کو اس لئے ووٹ دیا تھا کہ وہ پہلے حکمرانوں سے تنگ آئے ہوئے تھے، جو کبھی امریکہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے تھے اور کبھی سعودیہ کے سامنے کشکول لئے پہنچ جاتے تھے۔ جب نواز شریف نے  قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی اور کہا کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے تو مولانا طاہرالقادری نے جملہ کسا تھا، ہاں کشکول توڑ کر ڈرم اٹھا لیا ہے اور حقیقت میں بھی یہی تھا۔ لوگوں کو عمران خان میں ایک عام آدمی نظر آتا تھا، جس کی زبان سے وہ باتیں نکلتی تھیں، جو ملکی اور بین الاقوامی  اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتی تھیں۔ آج بھی عمران خان صاحب کے وہ خطابات موجود ہیں، جس میں وہ کہتے ہیں کہ عمران خان مر جائے گا، مگر کبھی قرضہ نہیں لے گا۔ ہر پاکستانی جانتا ہے کہ قرضہ لے کر عیاشی کوئی اور کرتا ہے اور قرض ان کے سر پر چڑھ جاتا ہے۔

عمران خان صاحب کرسی اقتدار پر براجماں ہوئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کریں گے، ان کے اس فیصلے سے بہت سے لوگ حیران ہوئے کہ یہ تو وہی راستہ ہے، جس پر پہلے حکمران چلتے رہے ہیں، جس پر عمران خان چل رہے ہیں۔  کچھ ہی دنوں میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دورہ کا مقصد صرف اور صرف قرض کا حصول ہے۔ سب حیران تھے کہ یہ وہ والا عمران خان نہیں ہے، جسے وہ ایک نجات دہندہ کے طور پر دیکھ رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ ضمنی انتخابات میں  لوگوں نے اسے بری طرح سے مسترد کر دیا۔ عمران خان صاحب کا یہ دورہ بری طرح ناکام رہا اور ہمارے وزیر اطلاعات کے بقول انہوں نے قرض دینے  کے لئے ایسی شرائط رکھی ہیں، جو ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ مجھے اس وقت لگا کہ قومی مفادات کی وجہ سے یہ قرض نہیں لیا گیا۔

اب اچانک عمران خان صاحب نے دوبارہ سعودیہ جانے کا اعلان کر دیا اور حیران کن طور پر جیسے ہی وہ وہاں پہنچے، جیسے ہر چیز ان کی منتظر تھی۔ نو ارب ڈالر کا تیل اور تین ارب ڈالا نقد اکاونٹ میں، وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ اب پوچھنا صرف اتنا تھا کہ وہ سعودیہ جو دو ہفتے پہلے ایک دو ارب ڈالر اکاونٹ میں رکھنے پر آمادہ نہیں تھا، دو ہفتے میں یہ ایسی کیا تبدیلی آگئی ہے کہ وہ بارہ ارب ڈالر کا پیکج دینے کے لئے تیار ہوگیا ہے۔؟ وہ تبدیلی فقط یہ ہے کہ سعودی عرب بری طرح سے سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے، جمال الخاشقجی کے قتل کی وجہ سے سعودیہ شدید دباو میں ہے۔ خطے میں اردگان سعودیہ پر دباو بڑھا کر اپنے مفادات کو حاصل کر رہا ہے، کہا جا رہا ہے قطر اور اخوان کے معاملے میں بات کافی آگے بڑھی ہے اور امریکہ نے اپنے ایک سو بیس ارب ڈالر کے اسلحے کے سودے بچائے ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف نے جو شرائط بتائیں، وہ بہت سخت تھیں، اس لئے ہم نے بھی سعودیہ سے اپنا حصہ وصول کرنے کی جلدی کی اور بارہ ارب ڈالر کے وعدے لے اڑے۔

اس کا طریقہ کار تقریباً وہی ہے، جو اس سے پہلے دیئے گئے قرضوں کا تھا، جس میں سیاسی مفادات کے بدلے میں ان کی واپسی کبھی ہو ہی نہیں سکی۔ پی ٹی آئی کے رہنماوں کا ردعمل بہت ہی دلچسپ تھا،  ہمارے وزیراعظم جو ہر قرضے کو پاکستان کی بے عزتی سے تعبیر کیا کرتے تھے، وہ اس قرضے کو ایک بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور یہ ان کی نظر میں اس قدر اہم کامیابی تھی کہ انہوں نے قوم سے خطاب بھی کر ڈالا۔ شاہ محمود قریشی سے جب پوچھا گیا تو ان ردعمل بھی بہت زبردست تھا، فرمانے لگے یہ قرض آقا (ﷺ) نے دیا ہے۔ اب انسان اس پر کیا تبصرہ کرے؟ شاہ محمود قریشی صاحب نے اسی طرح مسلمانوں کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، جیسے سعودی حکمران خادم حرمین شریفین سے کرتے ہیں۔ ان کا بیان دیکھ کر وہ تاریخی واقعہ یاد آگیا جب ہلاکو خان کے لشکر نے بغداد پر قبضہ کر لیا اور بادشاہ کو گرفتار کر لیا تو مسلمانوں نے کہا بادشاہ ظل اللہ ہوتا ہے، اس کو تلوار سے قتل کرنا عذاب کا موجب ہوسکتا ہے تو اس کا دلچسپ حل نکالا گیا کہ بادشاہ کو بوریوں میں باندھ کر اتنی چوٹیں دی گئیں کہ وہ مرگیا۔ محترم وزیر خارجہ صاحب یہ قرضہ ہے، جو پاکستانی عوام نے دینا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان بارہ سو ارب روپے کا مقروض ہو جائے گا۔

میں سوچ رہا تھا کہ چلیں جیسے بھی ہے، خان صاحب نے ہمیں آئی ایم ایف سے بچا لیا ہے، مگر میرا یہ اطمنان ہمارے وزیر اطلاعات کے اس بیان نے قصہ پارینہ بنا دیا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ ہم عرب امارات اور چین دونوں سے اس طرح کا ایک ایک پیکج لے رہیں اور ساتھ میں آئی ایم ایف کے پاس بھی جا رہے ہیں۔ قرض کو پیکج کا نام دے دیں تو کیا وہ قرض نہیں رہتا؟ جناب عمران خان صاحب وہ قرض ہی رہتا ہے اور اس کے لینے سے بھی ملک کی اتنی ہی بے عزتی ہوتی ہے، جتنی کسی قرض لینے سے ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں سب سے دلچسپ بیان وزیر اطلاعات صاحب  کا ہے، فرماتے ہیں، اس کے بدلے میں ہم نے سعودیہ کو کچھ بھی نہیں دیا ہے، یہ قرضہ مفت ملا ہے۔ محترم وزیر اطلاعات صاحب "مر نہ جاتے جو  اعتبار ہوتا۔" بین الاقوامی تعلقات کا پہلا اور آخری اصول مفادات ہے اور مفادات کے بغیر کوئی ملک دوسرے ملک میں ایک روپے کی سرمایہ کاری نہیں کرتا اور ہمارے اکاونٹ میں تین ارب ڈالر اور نو ارب ڈالر کا تیل ہمیں مفت میں دے دیا گیا ہے۔؟؟؟

جمال الخاشقعی کے قتل کی مذمت نہ کرکے نظریہ کو تو بیچ ہی دیا گیا اور اب کی ڈیل یمن کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالے گی۔ فواد چودھری صاحب فرما رہے تھے کہ ہم یمن میں ثالث کا کردار ادا کریں گے، ویسے  مجھے حیرت ہے کہ انہوں نے یہ بات سوچ بھی کیسے لی۔؟ جب ہم نے یمنیوں کے قاتلوں سے بارہ ارب ڈالر وصول کر لئے تو یمنی پاگل ہیں، جو ہم پر اعتبار کریں گے۔ عمران خان صاحب نواز شریف کے دور میں آپ نے فرمایا تھا کہ میں اس لئے پارلیمنٹ آیا ہوں کہ کہیں نواز شریف یمن فوج نہ بھیج دے اور اس وقت فوج نہیں گئی تھی، انہی دلیلوں کی بنیاد پر جو اس وقت آپ نے نواز شریف کے خلاف دیں تھیں، آج بھی یمنی ہمارے بھائی ہیں، ہمارا کردار آگ لگانے کا نہیں آگ بجھانے کا ہونا چاہیئے۔

چلتے چلتے یہ بات بھی سن لیں، ممکن ہے کچھ فائدہ ہو جائے، جانے کیوں کل سے مجھے اپنے علاقے میں ہوا ایک واقعہ بار بار یاد آرہا ہے۔  گاوں میں کچی مسجد تھی، سب گاوں والے مل جل کر محبت سے رہتے تھے۔ گاوں میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ جھگڑا نہیں ہوا تھا، دیہاتی لوگ مذہب کی سادہ تعلیمات پر عمل کرتے تھے، ایک لڑکا شہر گیا اور یہ خوشخبری لایا کہ ہماری یہ مسجد اب کچی نہیں رہے گی بلکہ اسے ازسر نو کشادہ کرکے پکا تعمیر کیا جائے گا۔ سب گاوں والے بہت خوش ہوئے۔ قصہ کوتاہ مسجد بننے لگی سب خوش تھے، جب تعمیر مکمل ہونے لگی تو ماہ رمضان تھا، ایک مولوی صاحب مسجد بنانے والوں نے بھجوائے کہ یہ تبلیغ کریں گے اور ساتھ میں افطاری کا کافی سارا سامان بھی آیا۔ ایک ماہ بعد یہ مبلغ تو چلے گئے، مگر فرقہ واریت کا بینج بو گئے، جس کے اثرات ظاہر ہوئے اور دو گروہ معمولی سے بات پر دست و گریبان ہوگئے۔ بروقت مداخلت سے جانی نقصان تو نہ ہوا، لیکن ایک بری رسم کی بنیاد پڑ گئی۔ سب نے سوچا کہ مسئلہ کو مستقل حل کیا جائے، تاکہ پھر ایسی نوبت نہ آئے۔ سب مل کر علاقے کے ایک بزرگ کے پاس گئے اس نے ساری بات سنی، ہر کوئی خود کو حق پر کہہ رہا تھا، بزرگ نے کہا دیکھو تم دونوں ٹھیک ہو، تمہارا کوئی قصور نہیں، اصل مسئلہ سعودیہ سے آئے اس تیل کے پیسے کا ہے، جو جہاں جاتا ہے، آگ لگا دیتا ہے۔ اب میرے وطن میں بھی تین ارب ڈالر اور نو ارب ڈالر کا خود تیل آیا ہے، خدا خیر کرے۔
خبر کا کوڈ : 757809
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش