0
Friday 26 Oct 2018 20:37

سیاست کے قہقوں کے درمیان "گمشدہ آواز"

سیاست کے قہقوں کے درمیان "گمشدہ آواز"
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

"میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں بول سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ بول بھی نہیں سکتے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔"[1] شاید یہی وہ الفاظ ہیں جو جمال خاشقجی کی صفحہ روزگار سے دائمی گمشدگی کا سبب بن گئے۔ کتنا عجیب ہے کہ 5 اکتوبر 2018ء بروز جمعہ کو جمال خاشقجی کا کالم چھاپنے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لئے ان کے کالم کی جگہ "دی مسنگ وائس" یعنی "گمشدہ آواز" کی جو شہ سرخی خالی چھوڑ دی تھی، وہ  اب تک اپنے گمشدہ کالم نگار کا انتظار کر رہی ہے، تب سے لیکر اب تک انکے قتل کے سلسلہ سے تو دنیا بھر کے اخبارات میں مسلسل بہت کچھ چھپ رہا ہے، لیکن جمال کا قلم انکے سر کے ساتھ قلم کرکے خاموش کر دینے والوں سے دو ٹوک انداز میں کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے کہ تمام تر انسانی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تم نے ایک ایسے صحافی کو سفاکانہ انداز میں موت کے گھاٹ کیوں اتار دیا، جس نے تمہارے سامنے لب کشائی کی ہمت کی تھی۔؟

یوں تو زبانی جمع خرچ کرنے والے بہت ہیں، لیکن کوئی نہ ہی وقت کے فرعونوں کی لگام کسنے والا ہے اور نہ ہی پوچھنے والا ہے۔ ہزار منہ ہیں تو ہزار ہا باتیں اور یہ جو کچھ آپ میڈیا میں دیکھ رہے ہیں، اسکی حیثیت گیدڑ بھبکیوں سے زیادہ نہیں، کیا کہیں آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی انسان مجرم کو سزا دینے کی بات کہے اور پھر یوں مکر جائے کہ مجرم کے بعض متعلقین سے ہمارے اچھے تعلقات و روابط ہیں، ہم انہیں خراب نہیں کرسکتے۔؟ لیکن جمال خاشقجی کے معاملہ میں سزا دینا تو دور ہے، اگر غیر جانبدار تفتیش کی بات کی جائے تو بھی نہیں ہو رہی ہے کہ کہیں تیل کے کنویں بند ہوگئے تو کیا ہوگا۔ جو کچھ ہے وہ دکھاوا ہے اور پھر رائے عامہ کے سامنے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا، ورنہ مغرب کی جانب سے اظہار آزادی کے نعرے کا کیا بنے گا۔؟ یاد رہے کہ جمال خاشقجی پر مغرب و امریکہ کی عنایت تھی، خاشقجی گرچہ مذہبی اعتبار سے مالکی مذہب کے حامل تھے، لیکن تقریباً لیبرل طرز فکر کی چھاپ انکی زندگی پر دکھتی تھی، اسی وجہ سے مغرب خاص طور پر امریکہ میں انہیں ایک بے باک و ایسے سچے صحافی کے طور پر جانا جاتا تھا، جو اپنے اصولوں کا پابند ہے، لیکن انہیں اصولوں کے بنانے والوں نے اپنے ہی آدمی کو نہیں چھوڑا کہ دنیا پرستوں کا ایک ہی اصول ہوتا ہے اور وہ ہے مفاد پرستی، جب تک انکا مفاد ہے، سب کچھ ہے، لیکن جہاں مفاد کو خطرہ ہوا یا چھوٹے مفاد سے بڑا مفاد ٹکرایا، وہیں سب کچھ ختم اور ایک نام نہاد با اصول صحافی کے اسکے تمام تر اصولوں کے ساتھ لاش کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔

اسے تاریخ صحافت کے بے رحم طنز کے طور پر بھی دیکھا جا رہا کہ واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم its time to divide Syria" اب ملک شام کی تقسیم کا وقت آگیا ہے۔" کے تحت انہوں نے جس فکر کی عکاسی کی تھی، وہی فکر ان کی لاش کے ٹکڑوں پر اب سیاست کر رہی ہے،  جبکہ دوسری طرف شام کی تقسیم کے سلسلہ سے ان کے مذکورہ کالم کے عنوان کو انکی لاش کے ٹکڑوں کی تیار شدہ تصاویر کے ساتھ  پیش کیا جا رہا ہے، جبکہ شام کے ایک رکن پارلیمان "فارس شہابی" کی ٹوئٹر کی یہ پوسٹ بھی خوب گردش کر رہی ہے کہ "خاشقجی ہمیں افسوس ہے کہ تمہارے آقاوں نے تمہیں ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔" ایک طرف گول میزوں پر بڑے بڑے سیاسی رہنماوں کے ہاتھوں میں کھنکتے جاموں کے ساتھ قہقوں کی آوازیں ہیں تو دوسری طرف خاشقچی کی استنبول کے قونصل خانےکی فضاوں میں تیرتی ہوئی چیخیں، وہ چیخیں جو حقوق بشر کے علمبراداروں سے اپنا انصاف مانگ رہی ہیں۔
 
 جو کچھ خاشقجی کے ساتھ ہوا، وہ بہت ہی بعید ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخ صحافت میں کسی کے ساتھ ہوا ہو۔ انکا مغرب نواز ہونا  بھی انہیں اسی سبب نہیں بچا سکا کہ وہ مغرب نواز ضرور تھے، لیکن شاید اب کارآمد نہیں رہ گئے تھے۔ مغرب نوازی کے باجود وہ یہ حقیقت نہیں سمجھ سکے کہ مغرب نوازی کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے اس ضمیر کی آواز کو تھپک کر سلا دینا چاہیے تھا، جو گاہے بہ گاہے ایک دنیا کی آمر ترین حکومت پر تنقید کو شہہ دے رہی تھی، وہ یہ نہ سمجھ  سکے کہ  انہیں ایک صحافی کی طرح نہیں ایک تاجر کی طرح بالکل ویسے ہی سوچنا چاہیے اور کہنا چاہیے تھا، جیسے صحافت کے لباس میں دیگر تاجر سوچتے اور کہتے ہیں، کاش وہ ایسی ہی سوچ و فکر کے حامل ہوتے، جیسے امریکی صدر ٹرمپ کی سوچ، فکر اور انکی زبان ہے تو شاید انکی جان بچ جاتی اور اگر نہ بھی بچ پاتی تو کم از کم مرنے کے بعد مچھلی کی طرح آری سے ٹکروں میں تقسیم نہ ہوتی کہ اس تجارت پیشہ سیاست میں کچھ تو ٹرمپی فکر کے خریدار نکل ہی آتے، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے اور اپنے بعض مغربی پرستاروں کی بنائی مصنوعی ہوا کا شکار ہوگئے۔ جنہوں نے انہیں اپنے سر کا تاج بنا لیا تھا اور انہوں نے یہ سمجھنے میں غلطی کی جو مغرب انکی تحریروں کو آب و تاب کے ساتھ اپنے اخباروں اور روزناموں کی زینت بنا رہا ہے، جو ٹی وی چینلز انکے تجزیوں اور تبصروں کو کھلے دل سے نشر کر رہے ہیں۔

وہ سب کے سب زنجیری حلقوں کی صورت ایک ایسی جگہ سے متصل ہیں، جہاں مفاد دیکھ کر بات ہوتی ہے، لہذا اگر انکے مفاد میں کسی صحافی کا ٹکڑوں میں بٹ جانا ہوگا تو وہ ایسا کریں گے، شور مچا کر خاموش ہو جائیں گے اور اگر مفاد میں یہ ہوگا کہ خود ہی سازشوں کے تحت لائے گئے ولی عہد کو ہٹا لیا جائے، چاہے اس کے لئے ایک صحافی کی بھینٹ کیوں نہ دینا پڑے تو وہ یہ بھی کریں گے، لیکن ان کو نہ آزادی بیان سے غرض ہے، نہ اظہار خیال کی حریت سے کوئی مطلب۔ یہ تو ہر جگہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور اب جبکہ ایک تاجرانہ ذہنیت دنیا کی سب سے بظاہر مقتدر حکومت کو چلا رہی ہو تو  مفادات کے تحت ہی سب کچھ آگے بڑھے گا با این ہمہ یہ ضرور ہے کہ  انکا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کے کٹر نقاد تھے۔ دونوں پر ہی کھلے الفاظ میں تنقید کرتے تھے اور یہیں پر غچا کھا گئے، انہیں لگا انکی تنقیدوں کی پذیرائی جب امریکہ سے لیکر یورپ میں ہے اور انکے پرستار دنیا بھر میں موجود ہیں تو انکی آواز کو دبانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یہی سوچ کر وہ اپنے پیروں چل کر اس اژدہا خانے پہنچ گئے، جہاں 18 لوگ اپنی اپنی محولہ ذمہ داریوں کو انجام دینے کے لئے انکا انتطار کر رہے تھے اور پھر وہ سب کچھ پیش آیا جو آپ نے میڈیا کے ذریعہ سنا اور دیکھا۔

لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جو آزاد کہے جانے والا مغربی میڈیا انکے قتل کے بعد سے اب تک انکے قتل کو چو طرفہ کیوریج دے رہا ہے اور مسلسل ایسے پروگرام اور ٹاک شوز نشر کر رہا ہے، جو جمال خاشقجی کے ارد گرد گھوم رہے ہیں، وہ بھی جب بات اصلی قاتلوں کی آتی ہے تو حاشیوں میں چلا جاتا ہے، یہ بات اپنے آپ میں کیا قابل غور نہیں کہ جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل کے تشہیری غبارے میں ہوا بھرنے والا بھی یہی میڈیا ہے اور اسکے بعد یہی میڈیا بے سر پیر کی سعودی حکومت کی جانب سے صفائیوں کو بھی خوب خوب نشر کر رہا ہے۔ یہ سب ایسی صورت میں ہے کہ جمال خاشقجی کوئی معمولی آدمی نہیں تھے بلکہ  امریکہ کی نظر میں ایک جمال خاشقجی کی قیمت دس لاکھ یمنی لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر تھی[2]۔ کتنا زبردست قسم کا کنفیوژن ہے، ایک طرف ایک ایسا شخص موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، جسکی زندگی دس لاکھ یمنیوں سے بڑھ کر ہے تو دوسری طرف تمام تر سچائی سامنے آنے کے باجود مزید سچ کے سامنے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے، کیا یہ پہلے سے سجا ڈرامہ نہیں لگتا کہ تم جیسے ہی اظہار خیال کروگے، ہم فوراً ہی اسکی تائید کر دیں گے کہ ہمیں آپکی بات پر یقین اور مکمل اطمینان ہے، یہ اور بات ہے کہ ہماری انٹیلی جنس کی چیف ہمارے اطمینان کے بعد ترکی کا دورہ کریں گی، تاکہ حقیقت واضح ہوسکے اسکے بعد تمہارے ہر بیان کے بعد ہمارا بیان بھی تبدیل ہوتا رہے گا، تم بھی 70 سالہ دوستی کے رشتے کو نبھاتے رہنا، ہم بھی تمہیں اپنی غلامی کا صلہ تمہاری ہاں میں ہاں ملا کر، کبھی جھڑک کر، کبھی شاباشی دیکر دیتے رہیں گے۔

  اب تو انٹیلی جنس کے ذریعہ تحقیق کا کام بھی پورا ہوگیا، چنانچہ خبروں کے مطابق واشنگٹن میں امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل نے صدر ٹرمپ کو جمال خاشقجی کو قتل کے حوالے سے اب تک کی جانے والی تحقیقات کی اطلاعات فراہم کر دی ہیں، قابل ذکر ہے کہ جینا ہیسپل خاشقجی قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں گذشتہ ہفتے استنبول گئی تھیں اور اطلاعات کے مطابق وہاں انھیں سعودی قونصلیٹ میں جمال خاشقجی کے قتل کے وقت کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سنوائی گئی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اس ریکارڈنگ میں جمال خاشقجی کے ساتھ تفتیش اور بعد میں قتل کرنے کے دوران ہونے والی گفتگو موجود ہے۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ مسلسل سعودی قونصل خانے میں انکی موت کا انکار کرنے والی سعودی انتظامیہ نے بھی نہ صرف انکی موت کو قبول کر لیا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر گذشتہ جمعرات کو پہلی بار اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ استنبول میں جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی تین ہفتے پہلے کی گئی تھی، اب شاید سر جوڑ کر سارے شیطان اس لئے بیٹھے ہیں کہ ایک ایسا مشترکہ پلاٹ تیار ہو، جس کے تحت ہمارا بھرم بھی رہ جائے اور وہ مقاصد بھی حاص ہو جائیں، جو ایک دس لاکھ یمنیوں کے برابر کسی ایک فرد کے قتل سے ہوسکتے ہیں۔

اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ امریکہ یورپ و ترکی سمیت کس کو اس صحافی کے قتل سے کیا ملا اور کس کے نام کتنے تیل کے کنویں الاٹ ہوئے، سودا کتنے میں ٹھہرا، البتہ اتنا سوء ظن بھی اچھا نہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح ترکی نے ابتداء میں اپنا سخت موقف رکھا، پھر اس میں ذرا نرمی آگئی، دوبارہ اس میں سختی آجائے اور کسی ایک کا ضمیر جاگ جائے اور اس متازعہ قتل کی گتھیاں سلجھ جائیں۔ بعید نہیں کہ رجب طیب اردگان ہی سعودی عرب سے دو ٹوک انداز میں خاشقچی کی لاش کو تحویل دینے کا مطالبہ کر بیٹھیں اور پھر لاش کے ٹکڑوں کے ذریعہ اس کیس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے مل جائیں، لیکن یہ سب احتمالات ہیں، انکے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اس درمیان جو بات یقین سے کی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ دنیا پہچان لے کہ جس دس لاکھ یمنیوں کے برابر اپنے ہی آدمی کے  ساتھ امریکی حکومت انصاف نہ کرسکی، وہ دنیا کے ساتھ کیا انصاف کرے گی، سعودی عرب کی معیت میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے امریکی صدر کے بیانات کافی حد تک یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہیں کہ گم شدہ آوازوں تک ہرگز وہ نہیں پہنچ سکتے، جنکی بساط سیاست پر بلند قہقہے ہر تنقیدی آواز کو دبا کو نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا کریہہ منظر پیش کرتے ہیں۔ جمال خاشقجی تو محض ایک گمشدہ آواز ہے، نہ جانے کتنی ہی آوازیں ایسی ہیں، جنہیں ہمیشہ کے لئے دبا کر خاموش کر دیا گیا، وہ شہید نمر کی آواز ہو کہ فتحی شقاقی کی، یا شیخ یسٰین و شہید ابو ثریا کی آوازیں، کتنی ہی ایسی آوازیں ہیں، جو سیاست کے قہقوں کے درمیان گم ہو کر رہ گئیں ہیں، کسی پر کیا فرق پڑا، ایک آواز اور سہی اور پھر یہ تو انکی اپنی ہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 757992
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش