0
Saturday 27 Oct 2018 19:49

اے سرزمین عشق، کعبہ عاشقاں

اے سرزمین عشق، کعبہ عاشقاں
تحریر: سید اسد عباس
 
کیا شمر، عمر سعد، عبیداللہ بن زیاد، یزید اور ان کا لشکر کبھی تصور کرسکتا تھا کہ دس محرم 61ھ کو جسے کربلا کے بے آب و گیاہ صحرا میں یک و تنہا پیاسا قتل کیا گیا۔ جس کے اہل خانہ کو توہین کی غرض سے اسیر کرکے کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں گھمایا گیا، اس کے چاہنے والے ہزاروں میں نہیں کروڑوں ہو جائیں گے۔ عاشق بھی ایسے کہ بے سروسامانی کے عالم میں اپنا گھر بار، سکھ چین، سکون و آرام چھوڑ کر موسموں کی سختیوں کے مقابلے میں اپنے وسائل خرچ کرکے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر مست الست حسین ؑ کی جانب گامزن۔ یہ عشق ہے اور شدید عشق۔۔۔! کہ نجف سے کربلا، بصرہ سے کربلا، حلہ سے کربلا، سامرہ سے کربلا، مشہد سے کربلا کا سفر لوگ پا پیادہ کرتے ہیں۔ یہ سفر گاڑیوں، جہازوں اور دیگر ذرائع سے بھی ممکن ہے، تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ جان چکے ہیں کہ ان کی زندگی کا جس قدر وقت اس سفر پر خرچ ہو غنیمت ہے۔

بصرہ کربلا سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے، اسی طرح سامرہ کا کربلا سے فاصلہ بھی کچھ کم نہیں، تاہم مرد و زن کو میں نے پیدل حسین کی جانب جاتے دیکھا۔ کچھ چل رہے ہیں اور کچھ چلنے والوں کو سہولیات مہیا کرنے کے لئے اپنی جان اور مال لٹا رہے ہیں۔ کروڑوں انسانوں کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اور انھیں موسمی حالات کے مطابق خوراک و رہائش فراہم کرنا، یہ عشق کے بغیر ناممکن ہے۔ حکومتیں یہ کام انجام دینے سے قاصر رہ جائیں، تاہم عشق حسین کے سبب عوام عراق یہ کام بخوشی انجام دے رہی ہے۔ کسی کے پاس فقط آلو ہیں تو وہ انہیں ابال کر زائرین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے، کوئی فقط قہوہ پلا سکتا ہے تو وہ اسے اپنی زندگی کا سرمایہ سمجھ رہا ہے۔العجب ثم العجب

 
عشق چاہے جس قدر گہرا ہو، حقیقت یہ ہے کہ راستے کی سختیاں بہرحال اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ دھوپ سے چہروں کے رنگ متغیر ہو جاتی ہے، پاؤں میں آبلے۔۔ ایسے آبلے کے چلنا ممکن نہیں رہتا، لیکن دل کبھی اس سفر سے نہیں بھرتا۔ یوں لگتا ہے جیسے زمینی فاصلہ نہیں بلکہ زمانی فاصلہ طے ہو رہا ہے اور ہر اٹھنے والا قدم مجھے حسین اور ان کے جانثاروں سے قریب کر رہا ہے۔ یہ محبت و عشق کا ایسا کارواں ہے جس پر یقیناً پوری انسانیت ورطہ حیرت میں ہے، چشم فلک بھی عشق کے اس کاروان کو حیرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ آج کی تیز رفتار ترقی کے دور میں جب انسانوں کے پاس اپنوں کے لئے وقت نہیں رہا، کروڑوں انسانوں کا دیوانہ وار ایک مزار کی جانب سفر اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
 
دختر علی سیدہ سلام اللہ علیہا نے دربار یزید میں اس بات کا پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اے یزید تو ہمارے امر کو ختم نہیں کرسکتا، تو ہمارے پیغام کو پھیلنے سے نہیں روک سکتا، یہ پیغام پوری دنیا میں نشر ہو کر رہے گا۔ سیدہ کا یہ خطاب ارادہ الہیٰ کا ترجمان تھا۔ تاریخ بشریت اس امر پر گواہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد سے اسلامی تاریخ میں آنے والے بڑے انقلابات اسی کربلا سے ہی پھوٹے۔ بنو عباس نے بنی امیہ کے خلاف قیام کربلا کے واقعہ کو سامنے رکھ کر ہی کیا تھا۔ اس کے بعد بنی ہاشم میں سے کئی افراد یا لثارات الحسین کا نعرہ لگا کر میدان عمل میں اترے۔ مصر میں فاطمیوں کی حکومت، یمن میں ہاشمیوں کا اقتدار، اسلام کی فارس و روم تک تبلیغ سب اسی کربلا کی مرہون منت ہے۔
 
کربلا اپنے وقوع کے بعد سے تادم تحریر اور یقیناً رہتی دنیا تک حق کا معیار ہے۔ دین کے نام پر جب بھی کسی نے عوام کے استحصال کی کوشش کی یا دین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کربلا کو اپنی راہ میں کھڑا پایا۔ حتٰی ظلم، ناانصافی، جبر، استحصال خواہ کسی بھی عنوان سے ہوا، کربلا اس کے سامنے ایک مستحکم دیوار کی صورت میں کھڑی ہوگئی۔ اس نے انسانوں کو قیام کی وہ منہج دکھائی کہ اب اس کی موجودگی میں کسی اور دلیل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی۔ کربلا نے انسانوں کو سکھایا کہ مظلومیت کے ساتھ کیسے فتح سے ہمکنار ہوا جاسکتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
عشق میں کیا بچایئے عشق میں کیا لٹایئے 
آل نبی ؐ نے لکھ دیا سارا نصاب ریت پر
 
یقنیاً امام حسین ؑ نے کربلا کی سرزمین پر عشق کا سارا نصاب تحریر کر دیا، جو اقوام عالم کے لئے رہتی دنیا تک مشعل راہ ہے۔ ہندو، مسیحی، یہودی، لامذہب، دہریے انسانیت کے اس عظیم سپوت کی زندگی سے درس حیات لیتے ہیں۔ امام عالی مقام کی انسانیت کے لئے اس لازوال قربانی کے اعتراف میں درگاہ حسین پر جبین نیاز کو جھکائے کھڑے ہیں۔ افراد، اقوام، قبائل، انسانی نسلیں اس چشمہ فیض سے سیراب ہو رہی ہیں۔ مذہب و مسلک خواہ کچھ بھی ہو، جیسے ہی انسانیت بیدار ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے حسین میرا ہادی و راہنما ہے۔ حسینیت نے تاریخ بشریت پر جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، وہ تو اپنی جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والا زمانہ ہے ہی حسین ؑ کا۔

یہ کروڑوں انسانوں کا حسین ؑ کی جانب سفر کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ حسین ؑ تک پہنچنے والا کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ پہلے ادوار میں جب سفر بہت کٹھن تھا، مشکلات بہت زیادہ تھیں، پابندیاں تھیں، مظالم تھے، اس وقت بھی کچھ لوگ اس بارگاہ میں حاضری دیتے تھے۔ وہ اپنے علاقوں میں لوٹ کر اپنی حیرت اور کیفیات کو بیان کرنے سے قاصر گم سم عشق حسین کی خوشبو لاتے تھے۔ ان کی دوبارہ حسین کی جانب پلٹ جانے کی تڑپ بتاتی تھی کہ کوئی ایسا خزانہ ہے، جو یہ شخص کربلا میں دیکھ آیا ہے، جس کو پانے سے ہم محروم رہ گئے ہیں۔ مجھ پر یہ حقیقت تب کھلی جب میں خود ایک روز کربلا سے لوٹ کر اپنے وطن واپس آرہا تھا۔ آج میں کہہ سکتا ہوں کہ روح کربلا کی فضاؤں میں معلق ہے اور وجود انسانوں کے مابین سرگرداں ہے۔ جو ایک بار پھر روح سے متصل ہونے کو بے چین ہے۔
اے سرزمین عشق کعبہ عاشقاں
پاؤں گا چین کیا تجھے دیکھنے کے بعد
خبر کا کوڈ : 758127
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش