1
Sunday 28 Oct 2018 18:52

چودہ صدیوں کی میراث

چودہ صدیوں کی میراث
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
اربعین امام حسین کے موقعہ پر کربلا میں حاضری کی جتنی تاکید فرمائی گئی ہے اور زیارت قبر امام حسین کے فضائل و ثواب کے بارے آئمہ طاہرین کی طرف سے بتائی گئی فضیلت کا اثر ہے کہ آج دنیا میں اربعین امام حسین ایک ایسا عالمی اجتماع بن چکا ہے، جس میں دنیا بھر سے شرکاء کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے، یہ حج سے بھی کئی گنا بڑھ چکا ہے اور ہر برس پچھلے سال سے زیادہ قوت، شہامت اور شان و شوکت سے برپا ہوتا ہے۔ اس میں جہاں دنیا بھر کے لوگ شریک ہوتے ہیں، بھاری بھر کم رقوم اور اخراجات کرکے شریک ہوتے ہیں، بہت سی تکالیف سہہ کر ہر ممکن طریقہ سے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی برس رہ جانے کی صورت میں سال بھر اس موقعہ کا انتظار کرتے ہیں، وہاں سب سے بڑھ کر اس کو کامیاب و کامران اور پرشکوہ بنانے میں اہل عراق کا کردار بے مثل ہے۔ اربعین کے اس عالمی اجتماع میں جہاں دیگر بہت سے مذہبی و عقیدتی مظاہر بندے کو اپنی جانب کھینچتے ہیں، وہاں سب سے بڑھ کر مشی بالخصوص نجف تا کربلا "پیادہ روی" کا دلوں کو موہ لینے والا عمل انسانوں کو حیران و ششدر کرتے ہوئے اس کا حصہ بننے کی طرف مائل کرنے کا باعث ہے۔

امام کا فرمان ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی نیت سے نکلے، اگر وہ پیدل سفر کرے تو اللہ اس کے ہر قدم پر اس کے لئے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے، یہاں تک کہ حرم کی حدود میں داخل ہو جائے، اس وقت خداوند عالم اسے منتخب مصلحین میں سے قرار دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ زیارت کے مناسک انجام دے۔ زیارت کی انجام دہی کے بعد اسے کامیاب لوگوں میں سے قرار دیتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ واپسی کا ارادہ کرے تو خدا اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے، وہ فرشتہ اسے کہتا ہے کہ رسول خدا نے تمہیں سلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم اپنے اعمال نئے سرے سے شروع کرو، اس لئے کہ تمہارے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ میں پانچ سال پہلے اس پیادہ روی کے عمل سے گذرا تھا، اس کے بعد ہر سال اس کا حصہ بننے کی کوشش رہی، اس اجتماع کو اگرچہ عالمی طاقتیں بالخصوص میڈیا کو کنٹرول کرنے والی قوتیں بہ ظاہر نظر انداز کرتی ہیں اور اس کو اس انداز میں کوریج نہیں دیتے جیسا اس کا حق ہے یا جس قدر یہ بڑا اجتماع ہے، مجھے سوشل میڈیا پر ابھی تک کسی غیر مسلم کی بنائی ہوئی ڈاکیومنٹری دکھائی نہیں دی، وگرنہ یہی غیر مسلم ہندوستان کے مذہبی تہواروں کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ان پر رپورٹس اور ڈاکیومنٹریز بھی بناتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عالمی سطح پر میڈیا اس عالمی اجتماع اور بے نظیر واک کو اتنے برسوں سے نظر انداز کر رہا ہے؟ جیسے ان کے علم میں بھی نہ ہو۔ حقیقت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ استعماری طاقتیں جو دنیا کے میڈیا کو بھی کنٹرول کرتی ہیں، اس سے بہت پریشان ہیں۔
 
میں سمجھتا ہوں یہ طاقتیں جانتی ہیں کہ یہ ایک اتحاد ہے، یہ غیر علانیہ وحدت کا اظہار ہے، حسینیوں کی وحدت، اہلبیت نبوی کے عشاق کے قافلہ کی تشکیل اور اتحاد، اہلبیت نبوی کے ایک فرد جس کا دنیا کو انتظار ہے، ان کے ظہور کی جانب، ان کے انصاران و یاوران کا اتحاد، ایسے لشکر کی تشکیل جس نے استعمار کے نمک خواروں کو اسی مملکت میں شکست سے دوچار کرکے عملی طور پہ انہیں اپنے ارادوں اور سازشوں میں ناکام کیا۔ بھلا وہ ایسی کسی ہستی کے اجتماع کو کیسے دکھا سکتے ہیں، جن کے وجود مبارک پر لاکھوں جوانوں نے اپنی جوانیاں لٹا دیں اور ان کے مزارات پر آنچ نہیں آنے دی۔ بھلا وہ اس اجتماع اور بے مثال پیادہ روی کو کیسے دکھائیں گے، انہی جذبوں اور احساسات نے تو انہیں عراق و شام میں نکلنے پر مجبور کیا ہے، بھلا وہ کیسے اس اجتماع کو دنیا بھر میں نشر کرسکتے ہیں، جہاں کے قدم قدم پہ ان کی شکست کے نشانات ہیں، ناصرف ان کی شکست کے نشانات بلکہ اگر دیکھا جائے تو بات بہت دور تلک نکل جاتی ہے اور تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہم تھک جاتے ہیں، ان مقدس ہستیوں سے عشق و عقیدت کے اظہار کرنے والوں کی داستانیں ختم نہیں ہوتیں۔

بھلا کوئی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو قربان کرکے کوئی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے، کوئی اپنے جسم کے حصوں سے محروم ہو کر اس اجتماع اور مقدس مقام کی زیارت کرنے پر کیسے راضی اور تیار ہو جاتا تھا۔ ذرا سوچیئے تو سہی دنیا ایسی کوئی مثال پیش کرنے کی جرات رکھتی ہے، متوکل کے زمانے میں یہ شرط کہ زیارت امام حسین پر جانے والے اپنے نام لکھواتے اور یہ شرط ہوتی تھی کہ دایاں بازو کٹوانا پڑتا۔ ایک خاتون نے ایسے ہی اپنا نام لکھوایا اور جب جانے کا موقعہ آیا تو ہاتھ کٹوانے کیلئے حجاب سے دایاں کی بجائے بایاں بازو نکالا، ڈیوٹی دینے والے نے خاتون سے کہا کہ بایاں نہیں دایاں ہاتھ نکالو تو اس نے قطع شدہ دایاں ہاتھ نکال کے دکھایا اور کہا کہ یہ گذشتہ برس کٹوایا تھا۔ یہ روضے ایسے نہیں آباد ہوئے، ان کو ویرانی بھی دیکھنا پڑی ہے، ان کو مٹانے کی کونسی کوشش نہیں کی گئی، ان کو گرانے کیلئے کونسا حربہ استعمال نہیں کیا گیا، انہیں بے آباد کرنے کیلئے کونسا ظلم ہے جو انجام نہیں دیا گیا، پھر بھی یہ آباد ہیں اور شاد ہیں، پھر بھی یہ مقدس مقامات اور ان میں تشریف فرما ہستیوں کو دلوں سے نہیں نکالا جا سکا۔
 
اربعین حسینی کا اجتماع اور زیارت امام حسین کی سعادت کا یہ اجتماع واقعی اپنی مثال آپ ہے، کوئی دوسرا اجتماع یا مقدس مقام اس جیسی مثال نہیں رکھتے، حج مبارک کی فضیلت اور اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آل سعود کی حکومت کے زیر انتظام حج کے وہ مقاصد اور فوائد امت مسلمہ حاصل نہیں کرسکی، جو اس عالمی اجتماع سے حاصل کئے جا سکتے ہیں اور تو چھوڑیں یہ ایک تجارت اور کمائی کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے، روحانیت اور وجود باری تعالیٰ سے عشق و محبت اور جنون کا ماحول دیکھنے کو نہیں ملتا، اس کی وجہ جہاں آل سعود کی عیاش حکومت ہے، وہیں اس کے عقائد اور نظریات ہیں، جن کے باعث یہاں کے عوام اور لوگوں کے قلوب سخت ہوچکے ہیں اور انہیں حجاج مہمان خدا کی شکل میں نظر نہیں آتے بلکہ یہ لوگ انہیں کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے برتائو کرتے ہیں، جبکہ کربلا اور عراق بھر میں اہل عراق نے اس اجتماع کو اپنی نجات کا ایک ذریعہ سمجھتے ہوئے ان زواران امام حسین کیلئے اپنا سب کچھ پیش کر دیا ہے۔

آل سعود نے کا سانحہ منی پر عمل دیکھیں، کس طرح حجاج کرام کو پامال کیا گیا، ان کی لاشوں کو کس طرح گھسیٹا گیا اور کوڑے کرکٹ کی طرح اٹھایا گیا۔ دوسری طرف اس سے کئی گنا بڑا اجتماع اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کہنی بھی نہ لگے، کہنی لگنے کے ڈر سے بہت سے زائرین کو میں نے دیکھا ہے کہ رش میں آگے نہیں بڑھتے اور دور سامنے کھڑے رہ کر اپنی مناجات اور حال دل بیان کر رہے ہوتے ہیں، یہاں اگر چار کروڑ کے دعوے کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف ایک کروڑ کو ہی سمجھ لیا جائے تو اتنے بڑے اجتماع میں کوئی ایک موت کسی دھکم پیل کے نتیجہ میں نہیں ہوتی، مجال ہے کوئی کسی کو دھکا دے، کسی کو روند کے آ گے بڑھ جائے۔
 
اس وقت اگر پوری دنیا میں حسینیوں کی طاقت اور فعالیتوں کو دیکھیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، ہم تاریخ میں ہر دور میں ظلم کا شکار کئے گئے، آج بھی نائجیریا میں اسلامک موومنٹ آف نائیجیریا کے حسینیوں کو چہلم کا اجتماع کرنے پر خاک و خون میں آلودہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ہر ضلع میں ہم ایسے ہی مناظر دیکھ چکے ہیں، عراق والوں نے جتنی قربانیاں دی ہیں، وہ ابھی تازہ ہیں اور شہداء کی تصاویر کے ہر پول کے ساتھ لگے بورڈز گواہ ہیں، شام میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، حجاز مقدس میں بحرین اور یمن میں آگ، بارود اور بموں کی بارش جاری ہے، یزیدیت اپنے تمام حربے استعمال کر رہی ہے اور دنیا اس کے ساتھ کھڑی ہے، مگر امام حسین کو اپنا امام و رہنما ماننے والوں نے بھی عہد کیا ہوا ہے کہ ہم چودہ صدیوں کی میراث کو کم نہ ہونے دینگے، اپنے لہو کی رنگینی سے اسے سیراب کرتے ہوئے یزیدان عصر نو کو شکست سے دوچار کریں گے، حسینیت جو اتنی طاقت رکھتی ہے، یہ معمولی تو نہیں، یہ چودہ صدیوں کی میراث ہے، جسے ہم نے اس کے حقیقی وارث کے سپرد کرنا ہے، ہماری جانیں اس امانت کو آگے منتقل کرنے کیلئے طاقت، قوت، اتحاد، وحدت، یکجہتی، ایثار و قربانی اور حریت کی داستانیں رقم کرتے رہینگے، آگے بڑھتے رہینگے۔ ان شاء اللہ
خبر کا کوڈ : 758274
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش