0
Sunday 28 Oct 2018 23:33

اربعین حسینی و احساس ذمہ داری

اربعین حسینی و احساس ذمہ داری
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

 اربعین امام حسین علیہ السلام کی گھڑیاں جیسے جیسے نزدیک آ رہی ہیں، عاشقان حسینی کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی جا رہی ہیں، ہر دل کی دھڑکن کی ایک ہی صدا ہے لبیک یاحسین، لبیک یاحسین۔ فضاوں میں، ہواوں میں ہر طرف واحسیناہ کی صدائیں ہیں، کیوں نہ ہوں، ایک بہن اپنے بھائی کے چہلم کے لئے کربلا پہنچ رہی ہے، ایک بیٹا اپنے بابا کے چہلم کے لئے زندان سے چھوٹ کر کربلا کے دشت کی طردف گامزن ہے، ایک قافلہ ہے جو دھیرے دھیرے کربلا کی طرف رواں دواں ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہم بھی، آنکھوں میں اشکوں کے دیئے روشن کئے یاحسین (ع)، یاحسین (ع) کرتے اپنے مولا کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ اب زیادہ وقت نہیں بچا ہے، ہم آہستہ آہستہ امام حسین علیہ السلام کے چہلم سے نزدیک ہو رہے ہیں، بہت سے زائرین اس وقت نجف پہنچ کر کربلا کے سفر پر نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں، کچھ وہ ہیں جو  پہلے ہی کربلا پہنچ چکے ہیں اور آنے والے زائرین کربلا کا انتظار کر رہے ہیں تو کچھ وہ ہیں، جو اپنے مستحکم عزم و ارادہ کے ساتھ گامزن ہیں تو کچھ وہ ہیں، جو قافلوں اور کاروانوں کے ساتھ نجف سے کربلا تک زائرین کی خدمت میں مشغول ہیں۔

ہر ایک اپنی اپنی محولہ ذمہ داری کو ادا کر رہا ہے، کوئی لوگوں کے کھانے کا انتطام کر رہا ہے تو کوئی پانی کا، کوئی زائرین کی استراحت کی فکر میں ہے تو کوئی کسی اور طرح خدمت کر رہا ہے، امام حسین علیہ السلام کے چہلم منانے کو لیکر عزاداروں اور ماتم داروں، دوستوں اور عاشقوں کے درمیان جو جوش و خروش ہے، اسکی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی، اربعین امام حسین علیہ السلام نے ہر ایک کو ذمہ دار عزادار بنا دیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا یہ چہلم  جہاں ایک بہترین موقع ہے، اپنے وجود میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کا، اپنے وجود میں معرفت پیدا کرنے کا، وہیں اس بات کا سبب بھی ہے کہ ہم واقعہ کربلا کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جانیں کہ آج کی کربلا میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور سیدالشہداء کا ہم سے مطالبہ کیا ہے۔؟

کربلا اور احساس ذمہ داری:
واقعہ کربلا ایک ایسا جاوداں واقعہ ہے، جو اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر طول تاریخ میں محققین و طالبان حقیقت کے لئے تحقیق و جستجو کا ایک زندہ و جاوید موضوع رہا ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے کے بعد سے لیکر اب تک ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے اس سے مثبت نتائج اخذ کئے ہیں، جتنا جتنا لوگ کربلا کی پناہ میں آتے گئے، اتنا ہی انکے عزم میں اضافہ ہوتا گیا۔ انکا وقار بڑھتا گیا، انکی شان و شوکت ہمہ گیر ہوتی چلی گئی، اسکی ایک مثال امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہے، جو نہ صرف ہر سال گزرے ہوئے سال سے زیادہ عظمت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے بلکہ اربعین میں لوگ پہلے سے زیادہ عزم و ہمت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے حضور تجدید بیعت کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کے اندر ایک ذمہ دار عزادار ہونے کا احساس جاگتا ہے۔

امام خمینی (رہ) سے لیکر علامہ طباطبائی و شہید مطہری جیسے مفکرین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے جب یزیدی حکومت کا حد درجہ انحراف دیکھا تو اسکے مقابل جو ردعمل پیش کیا، وہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری کی تشخیص دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بروقت ردعمل کا اظہار کیا بلکہ کوشش کی کہ دوسرے لوگ بھی اپنی شرعی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اسکی ادائیگی کے لئے قدم آگے بڑھائیں۔[1] امام خمینی (رہ) نے تو بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے جو کچھ کیا، وہ اپنی ذمہ داری پر عمل تھا، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہتے تھے اور آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل بھی کیا۔[2]

امام خمینی (رہ) نے یزید کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کو انکی شرعی ذمہ داری کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح امام علیہ السلام یزید جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، ویسے ہی ہمیں بھی اپنے وقت کے یزید کو پہچانتے ہوئے اسکے مقابل اٹھ کھڑے ہونے کا عزم رکھنا چاہیے، چونکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت تمام ہی مسلمانوں اور خاص طور پر شیعان حیدر کرار کے لئے نمونہ عمل ہے، لہذا آپکی سیرت کو دیکھ کر ہر انسان کے اندر احساس ذمہ داری جاگنا چاہیے، چونکہ ایسا نہیں ہے کہ یزید صرف 61 ہجری میں تھا اور اسکے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور بات ختم ہوگئی، ہر دور کی حسینیت کا تقاضا ہے کہ زمانے کی یزیدیت کے خلاف اٹھے اور اسے ذلیل و رسوا کرتے ہوئے پرچم حق کو بلند کرے۔

یہاں پر جو بات اہم ہے، وہ انسان کے وجود کے اندر ذمہ داری کے احساس کا جاگنا ہے، جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ ہر کام سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسکا کام مرضی الہیٰ کے مطابق ہے یا نہیں؟ وہ تمام تر شرعی جوانب کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے، وہ زندگی کے امور میں اپنی ذات کو لیکر نہیں سوچتا بلکہ خدا کو محور قرار دیکر سوچتا ہے اور خدا محوری کا جذبہ ہی کسی عمل کے ترک یا اس کے انجام پذیر ہونے کا محرک قرار پاتا ہے۔[3] امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی محرک کو مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی ہے کہ امام کی شہادت کو انکے وجود میں ذمہ داری کے احساس ساتھ جوڑ کر موجودہ دور میں شہادتوں کے محرک کی وضاحت اسی ذمہ داری کے محور پر کرتے ہوئے ظلم و ستم لوگوں کے سامنے  سوءے ضمیر کو بیدار کریں، لہذا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:"سیدالشہداء نے خود پر لازم جانا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور شہادت کے درجے پر فائز ہو جائیں، امیر شام و اسکے بیٹے کے آثار کو صفحہ روزگار سے مٹا ڈالیں۔[4] اسی احساس ذمہ داری کو ایک اور مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں:"سیدالشہداء نے خود پر ضروری و فرض جانا کہ اس فاسد طاقت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائیں، آپ نے واجب جانا کہ جہاں ضروری ہے، وہاں قیام کریں، اپنا لہو دیں، تاکہ یزید کا پرچم سرنگوں ہوسکے، آپ نے ایسا ہی کیا اور سب کچھ ختم ہوگیا۔[5]

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای بھی قیام امام حسین علیہ السلام کو دلیل بناتے ہوئے اسی احساس ذمہ داری کے پیش نظر امام خمینی کے قیام کے سلسلہ سے فرماتے ہیں:"امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک فریضہ واجب کی ادائیگی کی خاطر  قیام کیا، یہ ایسا واجب ہے، جو طول تاریخ میں ہر ایک مسلمان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور یہ واجب اس بات سے عبارت ہے کہ جب دیکھیں کہ اسلامی معاشرہ بنیادی فساد کا شکار ہوگیا ہے اور اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ کلی طور پر اسلامی احکامات تبدیل ہوسکتے ہیں تو ایسی صورت میں ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اٹھ کھڑا ہو، قیام کرے، البتہ اس کے لئے مناسب شرائط کا ہونا ضروری ہے اور یہ جان لے کہ یہ اسکا اٹھ کھڑا ہونا رائیگاں نہ جائے گا، اسکا اثر ہوگا۔ یاد رہے کہ شرائط کے مناسب ہونے کا مطلب زندہ رہنا، شہید نہ ہونا، مصیبتوں کا برداشت نہ کرنا، اذیتوں کا نہ ہونا نہیں ہے، یہ سب شرائط کے اجزاء نہیں ہیں، لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور عملی طور پر ایک واجب کو انجام دیا، تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے ایک درس ہو جائے۔[6]

جب انسان حق کی سربلندی کے لئے، احیاء دین کے لئے اٹھ رہا ہے، نفاذ عدالت کے لئے کھڑا ہو رہا ہے، بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو رہا ہے، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و برکات کو محو ہونے سے بچانے کے لئے اٹھ رہا ہے، ولایت کے دفاع کی خاطر اٹھ رہا ہے تو یقیناً اسکے سامنے مشکلات بھی آئیں گی اور پریشانیاں بھی، لیکن جو کچھ بھی اسکے مقدس ہدف کے تحت اسے ملے گا، سب کے سب اسی بل پر حاصل ہوگا کہ کسی بھی بات کی پراہ کئے بنا اسے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے اور بس اب ایسے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمانہ خراب ہے، ماحول سازگار نہیں ہے، ہمارا کیا ہوگا۔؟ رہبر انقلاب اسلامی اسی سلسلہ سے اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: اگر امام حسین علیہ السلام اپنے سامنے آنے والے دشوار حالات، تلخ حوادث کو دیکھتے، جیسے جناب علی اصغر (ع) کی شہادت، اہل حرم کا اسیر ہونا، بچوں کی تشنگی،  جوانوں کا شہید ہو جانا، ان تمام چیزوں کو اگر آپ معمولی شریعت پر عمل کرنے والے عام انسان کی طرح دیکھتے تو آپکو اپنی واقعی ذمہ داری کو بھلا دینا چاہیے تھا اور قدم بہ قدم "الضرورات تبیح المحظورات" کے تحت پیچھے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے تھا اور یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب میری ذمہ داری نہیں ہے، لیکن امام علیہ السلام نے سخت ترین شرائط میں اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائیگی پر اصرار کیا۔ اس لئے کہ انسان کے عقیدے اور اسکے دین کی اہمیت، آبرو، مال، جان اور ناموس سے کہیں بڑھ کر ہے، ایسی صورت میں اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور اس کے سلسلہ سے آپکا موقف آپکی روحانی طاقت اور دینی بصیرت سے ماخوذ ہے۔[7]

امام حسین علیہ السلام اور شرعی ذمہ داری کے سلسلہ سے آپکا موقف:
جب سیدالشہداء کا سامنا حر کے لشکر سے ہوا تو آپ نے فرمایا: "اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو بھی ایسے ظالم و جابر حاکم کو دیکھے، جس نے حرام خدا کو حلال کیا ہو، عہد خدا کو توڑا ہو، سنت رسول خدا کی مخالفت کی ہو، لوگوں کے درمیان گناہ، سرکشی کے ساتھ عمل کیا ہو اور ایسے ظالم حاکم و جابر کے سامنے اپنے قول و فعل سے اپنی مخالفت کا اظہار نہ کرے تو یہ خدا پر حق ہے کہ ایسے نظارہ گر انسان کا ٹھکانہ وہی قرا ر دے، جو اس ظالم کا ہے۔ آگاہ ہو جاو کہ انہوں نے شیطان کی اطاعت کو خود پر لازم کر لیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے، فساد کو ظاہر کر دیا ہے، حدود الہیٰ کو معطل کر دیا ہے، بیت المال کو غارت کر دیا ہے، حلال الہیٰ کو حرام کر دیا ہے اور حرام کو حلال قرار دے دیا ہے، میں ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونے میں زیادہ سزاوار ہوں۔ تمہارے خطوط مجھ تک پہنچے ہیں اور تمہاری جانب سے بھیجے گئے وفود و تمہارے نمائندے تمہاری بیعت کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں اور انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ تم مجھے اپنے عہد و پیمان کے بعد تنہا نہیں چھوڑو گے۔ مجھے دشمن کے سامنے خوار و ذلیل نہ کروگے۔ اب اگر تم اپنی بیعت پر باقی رہے تو رشد و کمال سے جا ملو گے۔ میں حسین ابن علی فرزند فاطمہ زہرا سلام علیہا دختر رسول خدا ہوں، میں تمہارے سامنے ہوں، میرا خاندان تمہارے سامنے ہے، تمہارے لئے میری ذات نمونہ عمل ہے۔[8]

امام حسین علیہ السلام نے اس مقام پر واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب کوئی ظالم حاکم حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو، بیت المال کو ضائع کر رہا ہو تو اسکے مقابل کھڑا ہونا ہی حسینت ہے اور یہ کہہ کر امام حسین نے واضح کر دیا ہے کہ اگر کبھی ایسی صورت حال آئے تو میری زندگی کو دیکھنا، جو تمہارے لئے نمونہ عمل ہے، ہرگز ہرگز ظلم اور ظالمین کے خلاف خاموش نہ بیٹھنا کہ ایسی صورت میں تمہارا ٹھکانہ بھی وہی ہوگا، جو ظالمین کا ہے۔ آیئے اس اربعین حسینی کے روح پرور موقع پر بارگاہ امام حسین علیہ السلام میں دعاء کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں عزم حسینی اور زیبنی عطا فرما، تاکہ ہم اپنے معاشرہ و ملک میں انہیں خطوط پر گامزن ہوسکیں، جن پر چل کر دنیا کے غلام "حر" بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
[1]۔ سید رضا موسیٰ، نہضت خمینی جلد ۱ ص ۷۳
[2]۔ صحیفہ نور جلد ۴ ص ۱۶
[3]۔ ایضاً۔ جلد ۱ ص ۷۷
[4]۔ صحیفہ نور ، جلد ۳ ص ۱۸۲ جلد ۱۷، ص ۵۹
[5]۔ صحیفہ نور جلد ۱۳ ص ۱۵۸
[6] سید علی خامنہ ای، امانداران عاشورا و درس حا و عبرت ھای کربلا ص ۴۴
[7] ایضاً ۶۹
[8] ۔ اَیُّهَا النّاسُ؛ اِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله) قالَ: «مَنْ رَاى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّهِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ اَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». الا وَ اِنَّ هوُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَهَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَهَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَاْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ اَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَ اللّهِ، وَ اَنَا اَحَقُّ مَنْ غَیَّرَ. قَدْ اَتَتْنی کُتُبُکُمْ، وَ قَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ بِبَیْعَتِکُمْ اَنَّکُمْ لا تُسَلِّمُونی وَ لا تَخْذُلُونی، فَاِنْ تَمَمْتُمْ عَلى بَیْعَتِکُمْ تُصیبُوا رُشْدَکم، فَاَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِىٍّ، وَابْنُ فاطِمَهَ بِنْتِ رَسُولِ اللّهِ(صلى اللهعلیه وآله)، نَفْسی مَعَ اَنْفُسِکُمْ، وَ اَهْلی مَعَ اَهْلیکُمْ، فَلَکُمْ فِىَّ اُسْوَهٌ، ». تاریخ طبرى، ج 4، ص 304 ; کامل ابن اثیر، ج 4، ص 48 و فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 144-145۔
خبر کا کوڈ : 758307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش