0
Wednesday 31 Oct 2018 19:33

اے حسین۔ؑ آپکی محبت نے ہمیں یکجا کردیا

اے حسین۔ؑ آپکی محبت نے ہمیں یکجا کردیا
رپورٹ: سید شاہریز علی

محسن انسانیت امام حسین علیہ السلام کی 61 ھ میں راہ خدا میں اپنے خانوادے اور انصاران سمیت سرزمین کربلا میں دینے جانے والی عظیم الشان قربانی کی یاد ہر گزرتے سال کیساتھ ساتھ بھرپور عقیدت و احترام اور جوش و جذبہ کیساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب روضہ امام حسین علیہ السلام کو کئی مرتبہ مسمار اور منہدم کیا گیا، زائرین امام عالی مقام علیہ السلام کو ایسی ایسی مشکلات و مصائب کا سامنا کرکے پہنچنا پڑتا تھا کہ جو ناقابل بیان ہیں۔ ظالم و جابر حکمرانوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح امام حسین علیہ السلام کی محبت کو لوگوں کے دلوں سے نکال دیں، کربلا سے شروع ہونے والے انقلاب کو اسی صحرا میں دفن کر دیا جائے، انسانیت کو حریت اور آزادی کا درس دینے والی کتاب کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیا جائے، ظلم و بربریت کیخلاف اٹھنے والی اس آواز کو دبا دیا جائے، جو کہ ہر دور کے مظلوم کو ہمت و حوصلہ دیتی ہے، یزید کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا جائے۔ لاکھ کوششوں کے باوجود ہر دور کے یزید اور ابن زیاد اپنی ان کوششوں میں ناکام رہے، محبان اہلبیت علیہ السلام اور ہر رنگ و مذہب سے تعلق رکھتے ہوئے کربلا سے درس حریت لینے والے ہر انسان نے محسن انسانیت حضرت امام حسین علیہ السلام کی محبت کو اپنے دلوں میں نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ آج کے دور میں اربعین کے موقع پر کربلا میں 4 کروڑ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوکر ثابت کر دیا کہ اے حسین علیہ السلام آپ کی محبت کو ہمارے دلوں سے دنیا کا کوئی یزید نہیں نکال سکتا۔

سرزمین کربلا پر دنیا بھر سے کروڑوں زائرین کا ایک ساتھ جمع ہونا اور لبیک یاحسین علیہ السلام کی صدائیں بلند کرنا ایک عجیب دلفریب منظر تھا، ایک وقت وہ تھا کہ نواسہ رسول (ص) 61 ھ کو یوم عاشور کو اپنے شہید بیٹوں، بھانجوں، بھائیوں، بھتیجوں اور انصاران کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے تھے، شدید پیاس اور گرمی کے عالم میں زخموں سے چور حضرت زہراء (س) کا لعل تنہا یزیدی لشکر کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا کہ ’’ہے کوئی میری مدد کرنے والا۔‘‘ اے حسین علیہ السلام آج آپ دیکھیں، ایک نہیں آپ کے کروڑوں محبان آپؑ کیلئے کربلا پہنچے، آپ ؑ جیت گئے، یزید ہار گیا۔ چند سال قبل جب عالمی دہشتگرد تنظیم داعش نے عراق میں اپنا قدم رکھا اور موصل پر قبضہ کرنے کے بعد آہستہ آہستہ پورے عراق کو اپنے ناپاک وجود کی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی تو استعماری طاقتیں یہ سوچ رہی تھیں کہ ان کا خلق کردہ یہ یزیدی لشکر آج داعش کی شکل میں عراق کیساتھ ساتھ شام پر بھی قبضہ کر لے گا۔ داعش کے دہشتگرد سرعام بڑے بڑے کانوائے اور جلوسوں کی شکل میں نقل مکانی کرتے دیکھے جاتے تھے، مہنگی مہنگی گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں لوگوں کے دلوں میں دہشت بٹھانے کیلئے سڑکوں پر نکالی جاتی تھیں۔ لیکن جب گذشتہ روز نجف اشرف سے کربلا معلیٰ تک امام حسین علیہ السلام کے کروڑوں متوالوں کو پیدل اور گاڑیوں میں گزرتے دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ اس دور کا یزیدی لشکر (داعش) بھی آج ہار گیا۔

کربلا ہر گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ہر دور کے یزید کو بے نقاب کر رہی ہے، وقت کے ابن زیاد اور عمر سعد کے منہ پر چڑھے نقاب ہٹا رہی ہے، دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی آج ظلم ہو رہا ہے، کربلا ہی وہاں پر مظلوموں کیلئے ڈھال بنی ہوئی ہے، کربلا ہی انہیں طاقتور اور ظالم قوتوں کیخلاف ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیئے ہوئے ہے، فلسطین ہو، یمن ہو، کشمیر ہو یا کوئی اور ملک۔ ہر مقام پر مظلومین کو آج مشکلات کا سامنا تو ہے، لیکن کربلا سے درس حریت لینے والوں کیلئے فتح یقیناً زیادہ دور نہیں۔ ہر ملک کی اپنی سرحدیں، اپنا پرچم، اپنی ثقافت اور اپنے اہداف ہوتے ہیں، لیکن جب اس بار بھی اربعین کے موقع پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف ممالک سے زائرین کربلا پہنچے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ ان سب کا ایک ہی ملک ہے، جس کا نام ہے کربلا، یہاں خود کو کوئی مہمان محسوس نہیں کر رہا تھا، سب کا ایک ہی پرچم تھا، جس کا نام ہے پرچم عباسؑ، سب کی ایک ہی ثقافت اور ایک ہی ہدف محسوس ہوتا تھا، زیارت نواسہ رسول (ص)۔ یعنی حسین علیہ السلام ہم سے راضی ہو جائیں۔ ہر ملک کے کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر دوریاں اور اختلافات ہوسکتے ہیں، مگر نجف سے کربلا تک مشی کے دوران ہر قسم کا اختلاف محبت میں اور دوریاں قربتوں میں بدل جاتی ہیں۔

عراقی شہری اس طرح ان زائرین کی خدمت کرتے ہیں، جیسے کوئی غلام اپنے آقا کی کرتا ہوگا، ان میزبانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ زائر امام ؑ کس ملت سے ہے، کونسی زبان بولتا ہے، شیعہ ہے یا سنی، حتیٰ انہیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ جس زائر کے وہ پاوں دبا رہے ہیں، وہ مسلمان ہے یا کسی اور مذہب کا پیروکار۔ اگر یوں کہا جائے کہ کربلا میں صرف ایک ہی مذہب نظر آتا ہے، جس کا نام ہے انسانیت، تو غلط نہ ہوگا۔ عراقی میزبان گو پورے سال اس موقع کے انتظار میں رہتے ہیں، وہ نجف سے کربلا جانے والے ان زائرین کیلئے تمام راستہ میں مختلف اقسام کے کھانوں اور مشروبات کا بندوبست کرتے ہیں، تھکے ہوئے زائرین کو روک کر ان کے پاوں دھوتے ہیں، ان کے پیروں کی مالش کرتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے گھروں کے دروازے ان کیلئے کھول دیتے ہیں اور منت و سماجت کرتے ہیں کہ خدا کیلئے صرف ایک رات کیلئے ہمارے مہمان بن جائیں، شائد آپ کی خدمت کی وجہ سے مولا حسین علیہ السلام ہم سے راضی ہو جائیں، راستہ میں کھڑے یہ عراقی شہری زائرین کے قدموں میں گر گر یہ التجا کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو حسین ؑ کا واسطہ ہم سے یہ نیاز لے لیں، ان زائرین کے قدموں کی خاک تک کو میزبانوں کی جانب سے اٹھا کر سر پر لگاتے دیکھا گیا ہے۔ اس سرزمین پر غریب، امیر کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔

عراق کے سابق سربراہ صدام حسین کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد سے یوم عاشورہ اور اربعین کے موقع پر دنیا بھر سے زائرین کی کربلا آمد کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ایک تحریک بنتا جا رہا ہے، زائرین امام عالی مقام ؑ کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بلاشبہ اربعین حسینی کا یہ اجتماع نہ صرف مسلم امہ بلکہ عالمی سطح پر سب سے بڑا عوامی اجتماع بن چکا ہے، عالمی میڈیا کی جانب سے کوریج نہ ملنے کے باوجود سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کی توجہ اس روحانی اجتماع کی جانب مبذول ہو رہی ہے۔ یہ عالمی اجتماع آج یہ واضح کر رہا ہے کہ حسین علیہ السلام کی شخصیت آج بھی پوری دنیا کے انسانوں کیلئے امن و محبت کا محور ثابت ہوسکتی ہے، فرقوں میں بٹی امت مسلمہ کو یہ اربعین کا یہ اجتماع مرکز وحدت پر اکٹھا کر سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف ملک سے آنے والے زائرین کربلا سے اگر امن، محبت، اتحاد و وحدت، روحانیت اور بندگی خدا کا درس لیکر اپنے اپنے ملک واپس جائیں اور ان پیغامات کا پرچار کریں تو دنیا بھر کو امن و محبت کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے، تفرقوں کو مٹایا جاسکتا ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں، امت مسلمہ کو سربلندی اور اتحاد کی طرف لایا جاسکتا ہے، کیونکہ اربعین حسینی کے اس عظیم الشان اجتماع نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ صرف صرف امام حسین علیہ السلام کی محبت ہے، جس نے ہم سب کو سرزمین کربلا پر یکجا کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 758826
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش