1
0
Monday 12 Nov 2018 18:49

اندرون سندھ نجی اسکولوں کی لوٹ مار، سرکاری تعلیمی ادارے بدحال، حکومت غائب

اندرون سندھ نجی اسکولوں کی لوٹ مار، سرکاری تعلیمی ادارے بدحال، حکومت غائب
رپورٹ: ایس ایم عابدی

سندھ میں تعلیم کا جنازہ کافی عرصے پہلے ہی نکل چکا ہے، رہی سہی کسر نجی اسکولوں نے نکال دی ہے کہ جن کا مقصد صرف کمائی کرنا ہے۔ جب حکومت کے بنائے ہوئے اسکولوں کا حشر نکلا ہوا ہو تو صرف میدان میں کسی کو تو کھیلنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔ زیر نظر رپورٹ میں کچھ شہروں کا احوال قارئیں کے پیش کررہے ہیں۔ محکمہ تعلیم سندھ کی عدم دلچسپی کے باعث سندھ کے شہر جھڈو میں نجی اسکولوں نے تعلیم کو کمائی کا دھندا بنالیا ہے، مختلف شہروں میں سرکاری تعلیمی ادارے بدحالی کا شکار ہیں، عمارتیں مخدوش، پانی، بجلی اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور طلبا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جھڈو میں پرائیویٹ اسکولوں نے طلبا سے لوٹ مار شروع کر رکھی ہے اور مڈٹرم امتحانات کے لئے اسکول کے ہر بچے سے 400 روپے فیس وصول کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین پریشان ہیں۔ والدین کے مطابق پرائیویٹ اسکولوں میں بچوں کو پڑھانا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔ رابطہ کرنے پر ڈائریکٹر پرائیویٹ اسکول ضلع میرپورخاص نے بتایا کہ پرائیویٹ اسکولوں کا مڈٹرم امتحان کے لئے ہر بچے سے 400 روپے فیس وصول کرنا غیر قانونی ہے۔ والدین ناجائز فیس وصول کرنے والے اسکولوں کے خلاف تحریری درخواستیں دیں تاکہ ان اسکولوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔

ایک اور علاقے سامارو میں سندھ کے وزیر تعلیم سردار علی شاہ کے حلقہ انتخاب پتھورو کے گاوں محمد اسماعیل ہالیپوٹو میں 2002ء میں قائم ہونے والے گورنمنٹ پرائمری اسکول کے طلبا l6 سال گزرنے کے باوجود عمارت سمیت بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی گاوں سے تعلق رکھنے سماجی رہنما مرحوم ارباب علی ہالیپوٹو نے 10 سال قبل اسکول کے لئے ایک کچا کمرہ تعمیر کیا تھا، جو گزشتہ سال ہونے والی بارشوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور کسی بھی وقت گرسکتا ہے، جس کی وجہ سے بچے باہر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ گاوں والوں اور بچوں کے والدین نے صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اسکول میں ایک کمرہ تعمیر کررہے ہیں اور اس کے لئے فرنیچر کا بھی خود انتظام کررہے ہیں، اس بے حس حکومت سے کوئی توقع کرنا حماقت ہے۔

تجارتی شہر تلہار کے نواحی اور شہری حدود کے گاوں میاں پوٹا میں اسکول کیلئے کوئی عمارت نہ ملنے کی وجہ سے وارڈ نمبر سات کے گورنمنٹ گرلز اسکول میاں پوٹا کی طالبات مشکلات کا شکار ہیں۔ دیہاتیوں کی جانب سے درخواستوں کے باوجود کسی منتخب نمائندے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس سلسلے میں سٹی پریس کلب کے صحافیوں کے سامنے احتجاج کرتے والدین نے بتایا کہ مذکورہ اسکول بڑے عرصے سے ہے لیکن اس کیلئے کوئی عمارت نہیں، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک جھونپڑی بنائی تھی جو کئی بار موسمی اثرات کے باعث گرچکی ہے، جس کی وجہ سے اسکول میں زیر تعلیم 84 طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، ہم نے کئی بار محکمہ تعلیم اور منتخب ایم پی اے و ایم این اے کو اسکول کی عمارت کیلئے درخواست دی ہے، لیکن ووٹ کیلئے ہماری منتیں کرنے والے الیکشن جیتنے کے بعد اب نظر ہی نہیں آتے۔ انہوں نے وزیر تعلیم سے اپیل کی ہے کہ بچیوں کیلئے اسکول کی عمارت دی جائے۔

نوکوٹ میں بھی حکومت سندھ اور صوبائی وزیر تعلیم سردار علی شاہ کے صوبے کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔ نوکوٹ شہر میں دو مشترکہ مین اور ٹاؤن (اردو و سندھی) گورنمنٹ پرائمری اسکول میں فرنیچر اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے طلبا کو نہ صرف حصول علم میں مشکلات کا سامنا ہے، بلکہ اسکول میں 600 سے زائد طلبہ و طالبات کو تین ماہ سے پینے کے پانی کا بھی مسئلہ درپیش ہے، کیونکہ اسکول کو ملنے والے واٹر سپلائی کے کنکشن میں ٹاؤن کمیٹی نوکوٹ کی جانب سے پانی رات بارہ بجے کھولا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طلبا صبح میں پینے کے پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ چند مخیر حضرات اسکول کے بچوں کی حالت زار پر ترس کھاتے ہوئے کبھی کبھار ٹینکروں کے ذریعے پانی فراہم کردیتے ہیں جو دو روز میں ختم ہوجاتا ہے، جس کے بعد طلبا آس پاس کے گھروں میں جاکر پانی پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسکول میں پینے کے پانی کی سنگین صورتحال کے بعد بورنگ بھی کرائی گئی مگر کڑوا پانی نکلنے کی وجہ سے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اسکول کے پرنسپل ضیاء اللہ نے بتایا ہے کہ اسکول کے کنکشن سے پانی کم مقدار میں آتا ہے جس کی وجہ سے ٹینک میں پانی جمع نہیں ہوپاتا، اس سلسلے میں ہم نے ٹاؤن کمیٹی نوکوٹ سے بھی درخواست کی تھی کہ ہمیں متبادل جگہ سے کنکشن دے کر پانی کے مسئلے کو حل کیا جائے لیکن شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ اساتذہ اور بچوں نے محکمہ تعلیم سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ پینے کے پانی کا بند وبست کیا جائے۔

ایک اور علاقے باندھی کے قریب دیہہ 60 نصرت کے گاوں حاجی مراد علی بروہی میں پرائمری اسکول دس سال سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور اسکول میں بچے اور بچیاں ڈیسکوں، پینے کے صاف پانی، بجلی اور پنکھوں سمیت دیگر سہولیات سے محروم ہیں اور شدید گرمی و سردی میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ گاوں کے معززین حاجی مراد علی بروہی، ذوالفقار بروہی، صادق بروہی اور دیگر نے صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ اسکول کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ایک اور علاقے شادی لارج کے پرائمری اسکول میں فرنیچر نہ ہونے کے باعث بچوں کے فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی خبریں شائع ہونے پر ٹاون کمیٹی کھوسکی کے مرزا گروپ کے جنرل کونسلر خلیل احمد بھر گھڑی اور ضلع کونسل کے ممبر عبدالعزیز ڈیرو نے اپنی ذاتی کوشش سے بیس ہزار روپے کی بینچیں اور پانی کے کولر اسکول کو فراہم کئے جبکہ بچوں میں اسٹیشنری تقسیم کی۔ اس موقع پر خلیل احمد بھر گھڑی نے کہا کہ وہ اس کام کو جاری رکھیں گے اور اسکول کو مزید فرنیچر فراہم کریں گے اور اسکول کے دو کمروں کی مرمت کرائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 759100
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
جب سرکاری اسکولوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہوگی تو پرائیوٹ اسکول اس صورتحال کا فائدہ تو اٹھائیں گے
ہماری پیشکش