1
Saturday 3 Nov 2018 10:56

کیا دھرنا ملتوی ہوا ہے؟

کیا دھرنا ملتوی ہوا ہے؟
تحریر: ثاقب اکبر
 
گذشتہ شب (2 نومبر 2018ء کی شب) حکومت اور دھرنا پارٹی کے مابین ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں آخر کار ملک بھر سے دھرنے سمیٹ لئے گئے۔ ممکن ہے معاہدہ کرنے والے حکومتی اراکین اس بات پر خوش ہوں کہ دھرنا ختم ہوگیا ہے، انہیں بظاہر خوش ہونا بھی چاہیئے، ان کے کندھوں پر جو بوجھ تھا وہ یقینی طور پر اتر گیا ہے اور وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہے ہوں گے، لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ دھرنا ختم نہیں ہوا بلکہ ملتوی ہوا ہے، کیونکہ جنھوں نے دھرنا دیا، انہیں دھرنا لگ چکا ہے، انہیں دھرنے کا نشہ ہے، دھرنا ان کی زندگی کا ذریعہ ہے، دھرنا ان کی قیادت کی پہچان ہے، دھرنا ان کی سیاسی و مذہبی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔ جب تک وہ ہیں تب تک دھرنا ہے۔ یہ دھرنا وقفے وقفے سے جاری رہے گا، دھرنے میں وقفہ ہوا ہے۔ گویا ان کے ماننے والوں کے لئے پیغام ہے کہ ”ملتے ہیں ایک مختصر سے وقفے کے بعد۔“
 
دھرنے کے لئے اور دھرنے کے جواز کے لئے ہزار باتیں ہیں۔ حکومت، عدالت، پولیس، فوج یا کسی بھی طرف سے کوئی ایسی بات ہوسکتی ہے، جو طبع نازک پہ ناگوار گزرے اور پھر دھرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔ یہ دھرنا باز اس لحاظ سے مطمئن ہیں کہ انہیں دھرنوں کے لئے صرف فیصلہ اور اعلان کرنا ہوتا ہے، خرچ کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ انہیں ان کے ماننے والے اٹھا کر ان کی پسند کی جگہ پر لا کر بٹھا دیتے ہیں اور پھر چل سو چل۔ فتوے، دھمکیاں، پھبتیاں، گالیاں، کوسنے، کہہ مکرنیاں۔۔۔ قس علی ھذا القیاس۔ حاضرین کا کام شعر پر بھی واہ واہ کہنا ہے اور گالی پر بھی سبحان اللہ۔ نعروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ڈنڈے لہرائے جاتے ہیں، کافر موٹر سائیکلوں، بے ایمان کاروں، طاغوتی بسوں، غرض دشمن کے میمنہ، میسرہ اور قلب لشکر پر حملوں کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ دشمنوں کی دکانیں بھی توڑی جاتی ہیں، لوٹی جاتی ہیں، کافروں کا مال چھینا جاتا ہے اور کھانے کے لئے بھی جو کچھ ہاتھ آتا ہے لوٹ لیا جاتا ہے۔
 
سرکار کے ساتھ ہونے والے دھرنا پارٹی کے معاہدے کے مطابق وہ چیزیں جو سرکار کی نظر میں درست نہیں ہیں، ان کے لئے بڑے خوبصورت انداز سے معذرت چاہی گئی ہے، جملہ کچھ یوں ہے:”اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔“ یہ جملہ بہت دلچسپ ہے اور اس میں ”بلاجواز“ کا لفظ نہایت دلچسپ ہے۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جسے آپ بلاجواز سمجھیں ہوسکتا ہے دوسرا اسے ”بالجواز“ سمجھتا ہوتا ہو اور اگر آپ سمجھتے ہوں تو بس معذرت تو ہوگئی۔ دوسری طرف ایک اور جملہ بھی قابل لحاظ ہے اور وہ ہے معاہدے کا چوتھا نکتہ: ”عاصیہ مسیح کی بریت کے خلاف 30 اکتوبر اور اس کے بعد جو گرفتاریاں ہوئیں، ان افراد کو فوراً رہا کیا جائے گا۔" اس جملے میں بالجواز یا بلاجواز کا کوئی ذکر نہیں۔ لبیک کے قائدین کے نزدیک ان کے لشکر کے تمام گرفتار سپاہی اس معاہدے کے تحت رہا کئے جائیں گے۔ ہوسکتا ہے سرکار کی نظر اس پر ہو کہ جنھوں نے توڑ پھوڑ کی ہے، گھیراﺅ جلاﺅ کیا ہے یا لوٹ مار کی ہے، وہ اس شق کے تحت نہیں آتے، بہرحال طرفین کا اپنا اپنا موقف ہوسکتا ہے۔
 
آسیہ مسیح کے کیس کے بارے میں تو سرکار نے آئین اور قانون کے مطابق ہی معاہدے میں شقیں شامل کی ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ بھی ویسا ہی آگیا، جیسا سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دھرنا ہوگا اور حکومت کو پھر مذاکرہ کرنا ہوگا۔ اسی لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ دھرنا ملتوی ہوا ہے، ختم نہیں ہوا۔ ایک سوال اور قابل غور ہے اور وہ یہ کہ فوج میں بغاوت کے لئے جس طرح سے اکسایا گیا، حکومت کے خاتمے کے لئے جیسے للکارا گیا اور ججوں کو قتل کرنے کے لئے جیسا فتویٰ جاری کیا گیا، کیا وہ بھی سب ”معذرت“ کے ایک لفظ کے ذریعے واپس ہو جاتا ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر آئندہ غدار کون قرار پائے گا اور مفسد فی الارض کسے کہا جائے گا۔؟

ہمیں اس سے غرض نہیں کہ دھرنا پارٹی کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں موقف کیا ہے۔ وہ اس کی حمایت کرتی ہو یا مخالفت، اسے درست سمجھتی ہو یا غلط۔ اس کا اسے اور دیگر جماعتوں کو یا افراد کو حق پہنچتا ہے، لیکن ہمارا اعتراض لبیک پارٹی کی قیادت اور اس کے ماننے والوں کے طرز عمل پر ہے۔ ملک میں دیگر مذہبی جماعتوں نے بھی بالعموم سپریم کورٹ کے فیصلے کو ناپسند کیا ہے، لیکن انہوں نے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ ان کے بارے میں ہمیں صرف اتنا کہنا ہے کہ انہوں نے تحریک لبیک کے طرز عمل پر بالعموم چپ سادھے رکھی ہے۔ انہیں واضح طور پر ملک میں افراتفری پھیلانے اور قتل و غارت نیز بغاوت پر اکسانے کے طرز عمل کی کھلے بندوں مخالفت کرنا چاہیئے تھی، جو انہوں نے نہیں کی۔

ہم نے دیکھا کہ ان دنوں میں پاکستان اور اسلام کے دشمنوں نے پاکستان کی داخلی صورت حال سے سوئے استفادہ کرنے کے لئے تیز رفتار کوششیں کی ہیں۔ جب داخلی طور پر ملک کے تمام بڑے شہروں میں افراتفری ہو، تمام ادارے بند ہو جائیں، کاروبار مملکت ٹھپ ہو جائے، ریاستی اداروں کے اعصاب اپنے ہی شہریوں کے ہاتھوں شل ہو جائیں تو مشرق و مغرب میں گھات میں بیٹھے دشمنوں کو کون روک سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری رائے میں اس صورت حال کا مستقل تدارک کرنے کی ضرورت ہے اور اس اعصاب شکن دھرنے کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا ہے، اس کے نتیجے میں یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ دھرنا ختم ہوگیا ہے بلکہ یقین رکھنا چاہیئے کہ یہ ملتوی ہوا ہے۔ اس کے بارے میں سوچ سمجھ کر کوئی حکمت عملی اختیار کرنا چاہیئے۔
 
آخر میں موقع کی مناسبت سے ارتجالاً کہے گئے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
دھرنا ہوگا
جن بوتل میں کرنا ہوگا
شہر تو بند ہی ورنا ہوگا
جب تک اُس کا جینا ہوگا
قوم کو یوں ہی مرنا ہوگا
پھر اِک بات پہ ناک چڑھے گی
پھر اِک تازہ دھرنا ہوگا
ہے یہ بجا کے مریض ہے مشکل
کچھ تو طبیب کو کرنا ہوگا
ملک بچاﺅ بُھوت بھگاﺅ
کب تک بُھوت سے ڈرنا ہوگا
خبر کا کوڈ : 759213
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش