0
Saturday 3 Nov 2018 19:41
ایرانی سرحدی محافظوں کا اغواء...!؟

نئی عالمی سازش

نئی عالمی سازش
تحریر: مولانا محمد امین انصاری
(بانی سیکرٹری جنرل متحدہ علماء محاذ پاکستان)
email:ameen.ansari111@gmail.com


پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں گمشدہ شہریوں کی بازیابی سے متعلق لواحقین کی فریادوں کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی کہ پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران کے درجن بھر سرحدی محافطوں کے اغواء کا معاملہ زور و شور سے اٹھ گیا ہے۔ ایران کے یہ ساحلی محافظ اپنے سرحدی ساحل پر معمول کی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے دو ہفتے قبل اغواء ہوئے تھے، جن کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان سے آئے مسلح افراد نے آتشی ہتھیاروں کے زور پر اغواء کیا ہے اور پاکستان ہی میں کسی نامعلوم جگہ پر رکھا گیا ہے۔ ان سرحدی ساحلی محافطوں کے اغواء پر ناصرف ایران میں خاصی بے چینی اور سنسنی پائی جاتی ہے بلکہ ایرانی قیادت پر بھی دباؤ ہے کہ مغوی محافظوں کی فوری اور محفوظ واپسی کے لئے حکومتِ پاکستان سے ہر سطح پر مذاکرات کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ایرانی صدر حسن روحانی کا پیغام لیکر ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف بدھ کے روز دوسری بار تہران سے اسلام آباد پہنچے ہیں، قبلِ ازیں پاکستان میں عمران خان کی حکومت قائم ہونے پر مبارکباد اور ایرانی حکومت کی جانب سے خیر سگالی کے پیغام کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔

ایک ماہ کی مختصر مدت میں ایرانی وزیرِ خارجہ کا یہ دوسرا دورہ بلاشبہ خوشگوار تو نہیں کہا جاسکتا، تاہم پڑوسی اور ہم مذہب ہونے کے ناطے محترم جواد ظریف نے عالی مرتبت ایرانی صدر حسن روحانی کا پیغام اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی بعد ازاں وزیرِاعظم عمران خان کو پہنچایا، جس میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور کے ساتھ ساتھ مؤدبانہ طور پر مغوی ایرانی گارڈز کی بازیابی کی استدعا بھی کی گئی۔ ایرانی وزیرِ خارجہ اس ضمن میں پاکستان کے آرمی چیف سے بھی ملاقات کرچکے ہیں۔ دیکھا جائے تو ایرانی گارڈز کا اغواء ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے، اس میں حکومت ملوث نہ ہوتے ہوئے بھی ذمہ دار بہرحال ٹھہرائی جائے گی، کیونکہ واقعہ اس کی سرحد ی حدود میں ہوا ہے، چنانچہ یہ سوال تو باقی رہے گا کہ اغواء کنندگان کس طرح وہاں سے ایران میں داخل ہوئے اور کس طرح مغویوں کے ہمراہ واپس ہوئے۔؟

ایرانی حکومت نے اگرچہ اس معاملے میں تاحال کوئی سخت یا دھمکی آمیز لہجہ اپنایا ہے، نہ ہی افغانستان یا بھارت کی حکومت کی طرح بلاجواز دہشت گردی اور سرحدی خلاف ورزی کو بہانہ بنا کر جوابی کارروائیوں کی دھمکی دی ہے، تاہم ایرانی صبر و تحمل اس امر کا متقاضی ضرور ہے کہ ناصرف اس کی شکایت پر کان دھرا جائے بلکہ مغوی اہلکاروں کی اگر وہ پاکستانی حدود میں ہیں، بازیابی کے لئے سنجیدہ اقدام کئے جائیں یہاں ایک امکان پر بھی غور کی گنجائش ہے کہ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی عرصہ دراز سرد مہری کا شکار پاک ایران تعلقات ایک بار پھر گرم جوشی کی سمت بڑھے تو بھارت اور امریکہ کے پروردہ دہشت گرد جو ہمارے سکیورٹی اداروں کے لئے بھی عرصہ دراز سے دردِ سر بنے ہوئے ہیں، متحرک ہوگئے ہیں۔ طالبان نما یہ تخریب کار پاکستانی فوجیوں، سرحدی محافظوں اور سکیورٹی سے وابستہ اہلکاروں کو دن دہاڑے اغواء کرکے ان کے گلے کاٹتے اور بے دردی سے قتل کرتے رہے ہیں، چنانچہ امکان یہی ہے کہ جونہی الیکشن 2018ء میں تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان کو اقتدار منتقل ہونے پر ایرانی صدر عزت ماب حسن روحانی نے تہنیتی پیغام کے ساتھ اپنے وزیرِ خارجہ محترم جواد ظریف کو پاکستان بھیجا یہود و ہنود لابی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

ہندوستان کو اپنے گرفتار فوجی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے عالمی عدالتِ انصاف سے خطرہ ہے تو دوسری جانب امریکہ بھی ایران سے جوہری معاہدے کو جواز بنا کر نئی پابندیوں کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف جانے سے خوف زدہ ہے، جیسا کہ ایران کے وکیل محسن محبی نے عالمی عدالتِ انصاف میں امریکہ کے خلاف مقدمہ کرنے کا اعلان کیا ہے، چنانچہ قوی امکان ہے کہ افغانستان میں موجود امریکہ اور بھارت کے پروردہ دہشت گرد جو موساد اور را کے تربیت یافتہ ہیں، بھیس بدل کر بلوچستان کے راستے ایرانی سرحد میں داخل ہوئے اور ایرانی محافظوں کی سنگین واردات کے مرتکب ہوئے۔ یہ بھی ممکن ہے بلوچ باغیوں اور قوم پرستوں کا بھی اس میں ہاتھ ہو، مقصد سب کا ایک ہی ہے، پاکستان اور ایران کو اس سے سرحدی تنازعات میں الجھا دیا جائے، جس کے باعث وہ عالمی عدالتِ انصاف میں اپنے مقدمے پر پوری توجہ نہ دے سکیں۔

صورتحال جیسی بھی ہو ایک اچھے پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ایران کی معروضات کو غور سے سنیں اور آخری حد تک اس کے خدشات کو ناصرف دور کریں بلکہ اطمینان بخش کارروائی کرکے مغویوں کی محفوظ واپسی کو ممکن بنائیں۔ یہ پاکستانی باشندوں کی گمشدگی کا محض واقعہ نہیں جس میں پولیس اور سیکیورٹی ادارے عدالت میں بیان ریکارڈ کروا اور یقین دہانی کراکر واپس چلے جاتے ہیں بلکہ غیر ملکی اور پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران کے باشندوں کی گمشدگی کا معاملہ ہے، جسے ٹھنڈے پیٹوں قبول نہیں کیا جاسکے گا۔ خود پاکستان بھی ایران کی جگہ ہوتا تو اس صورتحال پر اس کا ردعمل بھی شدید تر ہوتا، جو قومی غیرت کا بھی تقاضہ ہے۔ ہمیں اس پہلو پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایران ہمارے لئے افغانستان سے زیادہ اہم ملک ہے، اس کے باشندے تعلیم یافتہ، مہذب اور پاکستانیوں سے محبت کرنے والے ہیں، وہ طویل عرصہ سے یہاں مقیم ہیں، بغیر کسی قومی شناخت اور حقوق طلبی کے بناء پاکستان میں کاروبار کرتے ہیں۔

ایرانی باشندوں کی بہت بڑی تعداد چائے، کافی کے کیفے اور ایرانی کھانوں کے ریستورانوں سے وابستہ اور مستقل مقیم صاف ستھرے ماحول اور کردار کے حامل یہ ایرانی آغا جو فارسی ملی اردو میں بات کرتے ہیں تو افغانیوں کے برعکس اجنبیت کی جگہ محبت خود بخود امڈ آتی ہے۔ ہمارے تعلقات یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہیں، جو دوستی کی حد عبور کرکے رشتہ ازدواج تک میں داخل ہیں۔ بغل گیر سے دلگیر تعلقات کی وجہ امریکہ ہے، جس کی بنیاد صرف اس نکتے پر ہے کہ امریکہ جس کو اپنا دشمن کہے دنیا بھی اس کو اپنا دشمن سمجھے۔ امریکہ ایران دشمنی تو اسلامی انقلاب کے دور سے واضح ہے۔ ایران دنیا میں واحد ملک تھا جس نے امریکی بالادستی کو ناصرف چیلنج کیا بلکہ تیس برس اس کی ہر قسم کی پابندیوں اور ناکہ بندیوں کے باوجود ترقی کرکے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ محض امریکہ ہی مائی باپ نہیں، خدا پر بھروسہ اصل طاقت ہے۔ امریکہ یہ سمجھ بیٹھا تھا بلکہ شاید اب بھی سمجھتا ہے کہ نیا عالمی نظام دنیا کا حل ہے، جبکہ ایران نے بتا دیا ہے کہ یہ دجاّلی نظام ہی تمام مسائل کی جڑ ہے۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ بیشتر اسلامی دنیا محض نسلی تعصب اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر اس آفاقی حقیقت سے چشم پوشی کر رہی ہے کہ فرعون اور نمرود کی سلطنتیں باقی رہنے والی نہیں، حق کو آنا اور باطل کو مٹنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 759275
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش