0
Monday 5 Nov 2018 00:40

یمن جنگ کے خاتمے پر مبنی جھوٹ

یمن جنگ کے خاتمے پر مبنی جھوٹ
تحریر: ہادی محمدی

چار سال پہلے آل سعود اور آل زاید نے یمن کے خلاف مختصر مدت کی کامیاب جنگ کا دعوی کیا لیکن بہت جلد ان کا یہ دعوی سراب ثابت ہوا۔ لیکن دوسری طرف اسرائیل اور اس کے حامی مغربی ممالک یمن جنگ کے طولانی ہونے سے ناخوش نہیں تھے کیونکہ وہ اس بہانے اپنا اسلحہ اور جنگی سازوسامان بہتر انداز میں بیچ سکتے تھے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے یمن کے خلاف جارحیت کے دوران آل سعود رژیم کو درپیش سیاسی اور فوجی مشکلات اور عالمی رائے عامہ میں اس کے بارے میں پیدا ہونے والے منفی تاثر سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی حکومت کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب لانے کی کوشش کی۔ اس دوران ایران فوبیا کی مہم بھی چلائی گئی اور عرب نیٹو کی تشکیل کی باتیں بھی سامنے آئیں تاکہ آل سعود رژیم کے مغربی ممالک اور اسرائیل پر مکمل انحصار کا مقدمہ فراہم کیا جا سکے۔ پیسے کے بدلے عرب فرمانرواوں کے تاج و تخت کی حفاظت کی منطق نے امریکہ اور یورپی ممالک کو یمن جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا جبکہ ایک طرف جمال خاشقجی کے سفاکانہ قتل اور دوسری جانب یمن جنگ میں فتح ناممکن ہو جانا اور روز بروز انصاراللہ یمن کی طاقت میں اضافے نے مغربی ممالک کو مکمل بند گلی، بھاری اخراجات اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شرکت جیسے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔
 
آج امریکہ، یورپ اور خاص طور پر اسرائیل کو درپیش مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ عراق اور شام کی طرح یمن کی جنگ میں بھی بری طرح شکست سے دوچار ہو چکے ہیں بلکہ اس شکست کے انتہائی نقصان دہ نتائج اور اس کی جیوپولیٹیکل اور جیو اسٹریٹجک اہمیت نے انہیں ہر چیز سے زیادہ خوفزدہ کر رکھا ہے۔ کیا اگر جیمز میٹس اور مائیک پمپئو ہراسانی کے عالم میں اگلے تیس دنوں میں یمن جنگ کے مکمل خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ سوئیڈن میں سیاسی بات چیت کا آغاز ہو سکے تو اس کی وجہ یمن میں ہزاروں بیگناہ شہریوں کے قتل عام کے باعث ان کا ضمیر بیدار ہو جانا ہے؟ یا اس کی وجہ محمد بن سلمان کے تاج و تخت کو بچانا ہے؟ ہر گز نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل محمد بن سلمان، آل سعود رژیم اور آل زاید رژیم کا خاتمہ قبول کر چکے ہیں جو اپنی بقا کیلئے مالی اخراجات کرتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی اصل پریشانی یمن جنگ میں شکست کے ایسے اسٹریٹجک نتائج ہیں جو خود انہیں بھگتنا پڑیں گے اور وہ ان کیلئے ناقابل برداشت ہوں گے۔
 
امریکی اور اسرائیلی حکام دیکھ رہے ہیں کہ خطے اور جنوبی یمن میں ان کے اتحادی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور ان میں جنگ جیتنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ لہذا امریکہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ درحقیقت وہ اہداف سیاسی بات چیت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش ہے جو وہ جنگ سے حاصل نہیں کر پائے۔ یمن کے خلاف جنگ کا اصل مقصد اس ملک کو توڑنا تھا۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کا دورہ عمان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ امریکہ اگر حقیقت میں یمن کی جنگ روکنا چاہے تو اس کیلئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اسلحہ فراہم کرنا بند کر دے۔ جیسا کہ انصاراللہ یمن نے بھی اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ اگر امریکہ یمن میں جنگ ختم کرنے کا سچا ارادہ رکھتا ہے تو یہ اس کیلئے کوئی بڑا کام نہیں اور وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے یمن جنگ کے خاتمے کا مطالبہ درحقیقت ایک مکارانہ چال ہے جس کا مقصد آل سعود رژیم کو نجات دلانا ہے۔ لیکن امریکہ اور مغربی طاقتوں کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ یمن میں پائیدار امن صرف اس صورت میں ممکن ہے جب خود یمنی عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ باقی تمام کوششیں ماضی کی طرح بند گلی سے روبرو ہوں گی۔
 
خبر کا کوڈ : 759479
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش