1
Monday 5 Nov 2018 15:54

اسرائیل نامنظور کیوں؟

اسرائیل نامنظور کیوں؟
تحریر: صابر ابو مریم 
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان سے قبل عین اس وقت کہ جب دوسری طرف سرزمین فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک وجود کو قیام بخشنے کی برطانوی سازش تکمیل کو پہنچ رہی تھی، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ برصغیر کے مسلمان ہرگز یہ قبول نہیں کریں گے کہ فلسطین اور اس کے عوام کے ساتھ برطانوی سامراج اتنی بڑی خیانت کرے کہ جس کے نتیجہ میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہاں ارض مقدس فلسطین پر ایک جعلی ریاست اسرائیل کو وجود بخشنا چاہتا ہے، ہم کسی طور قبول نہیں کریں گے اور برصغیر کے مسلمان خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ احتجاج کریں گے اور ہر ممکنہ اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔ یہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے وہ نظریات و افکار ہیں کہ جن کا ذکر انہوں نے نے مفتی اعظم فلسطین کے نام لکھے گئے اپنے خط میں بھی کیا اور برطانوی سامراج کو متنبہ کرتے ہوئے لکھے گئے خطوط میں بھی بارہا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں قائد اعظم کے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصول طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام دنیا بھر کے مظلوموں کا ساتھ دیں گے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ قائد اعظم نے فلسطین پر ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کو تسلیم نہیں کیا تھا اور تا حال پاکستان دنیا کے ان چیدہ چیدہ ممالک میں شمار ہوتا ہے کہ جن کا اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، یہاں تک کہ پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح تحریر کیا گیا ہے کہ یہ پاسپورٹ دنیا بھر میں کارآمد ہے جبکہ اسرائیل کے لئے نہیں۔
حالیہ دنوں جب امریکہ نے ایک طرف فلسطین کا سودا کرنے کے لئے عرب ممالک پر دباؤ بڑھا دیا ہے، وہاں ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی چالاکی سے عرب دنیا کے ممالک بالخصوص عرب بادشاہتوں کی نئی نسل کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تمام مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں اور علی الاعلان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لیں، تاکہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبر میں دفن کر دیا جائے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو فلسطین نام تلک یاد نہ رہے۔

امریکی سامراج اور اسرائیل کی اس مشترکہ مہم کا نتیجہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ پاکستان کو بھی اس سازش میں لپیٹنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ گذشتہ دنوں ہی کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار جنرل (ر) امجد شعیب کی ایک ویڈیو کلپ منظر عام پر آئی ہے کہ جس میں انہوں نے فلسطین کے مسئلہ کو صرف علمائے کرام تک محدود بتاتے ہوئے تضحیک آمیز لہجہ میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مسئلہ فلسطین علمائے دین کا کوئی ذاتی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں تعینات اسرائیلی سفیر سے ملاقات کی، وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کیا حرج ہے۔؟ جبکہ اسرائیل پاکستان کی مدد کرسکتا ہے اور ٹیکنالوجی وغیرہ بھی دے سکتا ہے، اسی طرح موصوف نے یہ تاثر دیا کہ شاید مسئلہ فلسطین کی حمایت کرنے والے افراد کی یہودیوں سے دشمنی ہے اور وہ یہودی دشمنی میں اسرائیل کے مخالف ہیں؟ اپنی گفتگو کے نکات میں کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لے تو مسئلہ فلسطین حل کروانے میں مدد گار ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ان عرب ممالک کی مثال بھی دی کہ عرب ممالک نے تعلقات قائم کر لئے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں۔؟

آئیے اب جنرل (ر) امجد شعیب صاحب کی خدمت میں انتہائی مودبانہ انداز میں تمام باتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی بات جو انہوں نے کی کہ مسئلہ فلسطین دینی یا علمائے دین کا مسئلہ ہے تو یہ دراصل انہوں نے نہ صرف قائد اعظم کے افکار کی دھجیاں اڑائیں بلکہ پاکستان کے عوام کی دل آزاری کے ساتھ ساتھ ایک سو ایک برس سے فلسطین کا دفاع کرنے والے فلسطینی شہداء کے لہو کی بھی توہین کی ہے۔ دراصل فلسطین کا مسئلہ مذہب و لسان سے بالاتر ہے جبکہ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے، یہاں شاید موصوف امجد شعیب صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ فلسطینی عرب مسلمان، عیسائی اور یہودی شامل ہیں، جو فلسطین کے دفاع کی ایک طویک لڑائی اور جدوجہد انسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔

دوسری بات جو جنر۔ل (ر) امجد شعیب صاحب نے بیان کی ہے کہ شاید مسلمانوں کو یہودیوں سے کوئی تکلیف ہے، اس لئے اسرائیل سے تعلقات نہیں چاہتے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے، دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حامی اور ان کی حامی تحریکیں کبھی بھی یہودیوں کی دشمن نہیں ہیں بلکہ شاید جنرل صاحب کے علم میں نہیں ہے کہ خود امریکہ میں دسیوں ہزار یہودیوں کی ایک تنظیم موجود ہے، جو غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے وجود کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور فلسطین کا پرچم بلند کئے ہوئے ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو واضح ہو کہ مسلمان یہودیوں کے دشمن نہیں بلکہ اس ظلم اور بربریت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جو غاصب اسرائیل اور صیہونزم فلسطین سمیت خطے میں انجام دے رہی ہے اور تحریک آزادی فلسطین میں نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور یہودی فلسطینیوں کا خون بھی شامل ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ انہوں نے زمبابوے میں اسرائیلی سفیر کے ساتھ جو ملاقات کی، اس کا احوال تو خود بیان کر دیا، لیکن شاید ایسی کئی اور ملاقاتوں کا ذکر آئندہ کبھی وہ بیان کرنا پسند کریں گے، بہرحال اس ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اسرائیل کے دوست ہوچکے ہیں تو ہم کیوں نہ ہوں؟ یہ ایک اور بڑی غلطی اور پاکستان کے عوام کو اندھے گڑھے میں جھونکنے کے مترادف ہے کہ اگر عرب ممالک اور ان کی بادشاہتیں اسرائیل کی غلامی اختیار کرچکی ہیں تو ایسا کس کتاب میں آیا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام بھی اسرائیل کے غلام بن جائیں۔؟ اگر اسرائیل کی دوستی اتنی ہی ناگزیر تھی تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کے بارے میں سخت موقف کیوں اپنایا تھا؟ یا یہ کہ اب یہ موصوف قائد اعظم اور علامہ اقبال سے زیادہ تجربہ کار اور عقلمند ہیں۔؟

چوتھی بات میں موصوف کہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے کیوں نہ ٹیکنالوجی لے اور اس طرح کے شعبوں میں تعاون لے، پھر اسی طرح موصوف ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لے تو فلسطینیوں کا ستر سالہ مسئلہ بھی حل کروا سکتا ہے۔؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایک طرف اسرائیل سے امداد لے اور دوسری طرف مسئلہ فلسطین حل کروانے کی قوت بھی؟ کیا دنیا اس بات کی شاہد نہیں ہے کہ جس جس ملک نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائے یا کوشش کی، اس کے بعد ان ممالک کا کیا حشر ہوا اور وہ کس حد تک اپنی عزت و آبرو بھی کھو بیٹھے۔؟ کیا مصر اور دیگر عرب ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے نہیں ہیں۔؟ کیا امریکہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیلی دوست سعودی عرب کو توہین آمیز الفاظ میں دھمکی نہیں دی۔؟ کیا فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کے نتیجہ میں فلسطینی عوام کا خون بہنا بند ہوچکا ہے۔؟ یا یہ کہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں آباد کر دیا گیا ہے؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہوا بلکہ الٹ ہوا ہے اور فلسطینیوں کی مصیبتوں اور مشکلات میں دن بہ دن اضافہ کے ساتھ اسرائیل نے مزید زمینوں کو اپنے قبضہ میں لیا ہے۔ کیا ان حقائق سے ہمارے محترم تجزیہ نگار امجد شعیب آگاہ نہیں ہیں۔؟

معروف تجزیہ نگار صاحب نے شاید ایک تیر سو دو نشانے لگانے کی کوشش کی ہے، یعنی اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے اور تعلقات استوار کرتا ہے تو پھر آج تک جو کچھ بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ ہوا، پاکستان اس میں برابر کا شریک ہوگا جبکہ دوسری طرف کشمیر کا مسئلہ بھی سبکدوشی کی طرف چلا جائے گا، جبکہ پاکستان اسرائیل اور ہندوستان تعلقات ہوں گے تو پھر نہ کشمیر کی بات کی جائے گی اور نہ ہی فلسطین کی۔ دراصل امجد شعیب صاحب نے فلسطین و کشمیر کے مسائل کو نمٹانے کا آسان حل پیش کیا ہے اور وہ حل یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے۔ اس طرح کے بیانات ایسے حالات میں سامنے آرہے ہیں کہ جب چند روز قبل ہی ایک طیارہ جو اسرائیل سے پروز کرتا ہوا عمان اور پھر اسلام آباد پہنچا اور دس گھنٹے قیام کے بعد روانہ ہوگیا، یقیناً اب سمجھ میں آرہا ہے کہ اس طیارے میں موجود اسرائیلی لوگوں کی آمد کے کیا مقاصد تھے، کیونکہ عین اسی وقت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو مسقط کا دورہ کر رہے تھے اور قوی امکان ہے کہ نیتن یاہو کے قریبی افراد نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا ہو، پاکستان میں موجود میر جعفر اور میر صادق سے ملاقاتیں کی ہوں اور امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کا ٹاسک دیا ہو۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے وجود کو قبول کرنا یا پاکستان کے لئے اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات کرنا دراصل حریت پسند فلسطینی شہداء اور عوام کے ساتھ خیانت ہوگی اور کشمیر پر بھارتی تسلط اور ناجائز قبضے کو بھی فلسطین کی طرح امر واقعی سمجھ کر قبول کرنا ہوگا۔ اس مائنڈ سیٹ کے حق فروش افراد و طبقات یہ سب انسانیت کی جبین پر بدنما داغ ہیں اور عظیم ترین انسانی اقدار کا سودا مادی مفادات سے کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ایسے تمام صیہونی آلہ کاروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جو پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے پاکستان کی بنیادوں سے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریات اور افکار کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی فلسطینی و کشمیری بھائیوں کے ساتھ دلی ہمدردی کسی مذہبی یا لسانی تعلق کی محتاج نہیں ہے بلکہ یہ حقیقی انسانی ہمدردی ہے کہ جس کا درس بانیان پاکستان نے قوم کی رگوں میں اتارا تھا۔ ایک اور اہم بات واضح ہو کہ اسرائیل کو قبول نہ کرنے والوں کو ان کے یہودی ہونے پر اعتراض ہرگز نہیں بلکہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے کہ یہودی ہوں، نصرانی ہوں یا کسی اور دین سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمیں اسرائیل کو اس کے غاصب، متجاوز و مسلط اور قاتل ہونے پر اعتراض ہے، کیونکہ اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کا وجود فلسطین کی مقدس سرزمین پر قائم کیا گیا ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی ہے اور اس کام کے لئے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا بلکہ ستر سال سے تاحال قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اسرائیل نامنظور۔ پاکستان زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد، صیہونی آلہ کار مردہ باد۔
خبر کا کوڈ : 759574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش