QR CodeQR Code

یمن پر سعودی عرب کی چار سالہ فوجی جارحیت کے اثرات

5 Nov 2018 23:28

اسلام ٹائمز: من جنگ میں سعودی عرب کا کریہہ چہرہ سب پر عیاں ہو گیا اور اسرائیل کے ساتھ اس کی دوستی اور تعاون بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔


تحریر: مجتبی باستان

مارچ 2015ء میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، سوڈان، اردن اور مصر کے تعاون اور امریکہ اور اسرائیل کی خصوصی حمایت سے یمن کے خلاف فوجی چڑھائی کر دی۔ سعودی عرب نے اس جنگ کا نام "عاصفۃ الحزم" رکھا۔ اب تک اس جنگ میں بڑی تعداد میں بیگناہ یمنی شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ یمن کا انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف عربی – مغربی – عبری اتحاد نے اس جنگ کو جاری رکھا ہوا ہے۔ اس جارحانہ اور وحشیانہ حملے کی نوعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر صرف حقیقت پسندی اور انسان پسندی پر مبنی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس جنگ کا نتیجہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی رسوائی اور ذلت کے علاوہ کچھ نہیں نکلا۔ ذیل میں اس بارے میں چند اہم نکات پیش کئے جا رہے ہیں:
 
1)۔ یہ جنگ درحقیقت موجودہ حساس دور میں ایک مسلمان ملک کا دوسرے مسلمان ملک پر جارحانہ حملے کی بدعت گزاری ہے۔ مزید یہ کہ اس حملے کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں۔
2)۔ یمن ایک انتہائی غریب عرب ملک تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی سربراہی میں یمن پر جارحیت کرنے والے اتحاد میں شامل عرب ممالک مالی اور فوجی اعتبار سے کہیں زیادہ طاقتور اور ترقی یافتہ ہیں۔ لہذا یہ ایک انتہائی غیر منصفانہ جنگ ہے۔
3)۔ یمن جنگ میں سعودی عرب کا کریہہ چہرہ سب پر عیاں ہو گیا اور اسرائیل کے ساتھ اس کی دوستی اور تعاون بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اب اکثر مسلمان ممالک اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں کہ سعودی عرب ماضی کی طرح اسرائیل کے مقابلے میں عرب دنیا کی فتح کا علمبردار نہیں رہا اور اب اس کا مقصد اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا اور سازباز کرنا ہے۔
 
4)۔ اس جنگ کا مقصد یمن کو توڑنا تھا کیونکہ ایک مضبوط اور بڑا یمن اپنے اردگرد کی جیوپولیٹیکل فضا پر اثرانداز ہو سکتا ہے اور خاص طور پر بحیرہ احمر، خلیج عدن اور باب المندب جیسے اسٹریٹجک آبنائے میں انرجی کے ذخائر کی نقل و حرکت کو متاثر کر سکتا ہے۔ لہذا اسے توڑ کر چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔
5)۔ آل سعود رژیم یمن جنگ کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں مزید مسلمان اور بے دفاع مظلوم یمنی شہریوں کی شہادت کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ یمن کی ایک معتبر ویب سائٹ "المرکز القانونی للحقوق و التنمیہ" پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اب تک یمن جنگ میں 15 ہزار بیگناہ شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ 23 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ظالم سعودی رژیم کو ایک دن عالمی رائے عامہ اور اسلامی دنیا کے سامنے اس مجرمانہ اقدام کا حساب چکانا ہو گا۔
6)۔ آل سعود رژیم نے خطے میں اجنبی طاقتوں کے داخلے کا بہانہ فراہم کیا ہے اور خطے کی سکیورٹی ان کے سپرد کر دی ہے۔ سعودی رژیم نے اپنی سلامتی کیلئے عالمی استعماری قوتوں خاص طور پر امریکہ پر مکمل انحصار کر رکھا ہے لہذا ایسی صورت میں وہ اسلامی دنیا کی مرکزیت کا دعوی نہیں کر سکتی۔ کیونکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی بنیاد استکباری قوتوں سے مقابلہ اور مظلوموں کے دفاع پر استوار ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آل سعود رژیم نے امریکہ کی حمایت اور شہہ پر یمن کے خلاف فوجی جارحیت کا آغاز کیا ہے۔
 
7)۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی فرمانروا ملک سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان اپنے سیاسی حریفوں کو میدان سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے اور اسی لئے انہوں نے یمن کے خلاف جنگ کا بھی آغاز کیا۔ اس جنگ میں ان کا ایک مقصد آل سعود کی طاقت میں اضافہ کرنا بھی تھا۔ ان کی یہ آرزو تو پوری نہ ہو سکی اور الٹا یمنیوں کی مزاحمت نے ان کی موجودہ طاقت کو بھی چکناچور کر کے رکھ دیا۔
8)۔ سعودی عرب اپنے روایتی بادشاہی نظام حکومت اور عوام میں مقبولیت کی کمی کے باعث اس بات سے شدید خوفزدہ ہے کہ کہیں یمن کی انقلابی قوم کا جذبہ سعودی شہریوں اور دیگر عرب ممالک میں سرایت نہ کر جائے لہذا یمن کے خلاف جنگ میں کامیابی کیلئے اپنی پوری طاقت میدان میں لا چکا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب میں حکمفرما غیرعوامی اور غیرجمہوری نظام پوری دنیا کی نظر میں اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
9)۔ اقوام عالم خاص طور پر مسلمان قومیں جان چکی ہیں کہ یمن کے خلاف سعودی جارحیت کا مقصد اس ملک کے تیل و گیس کے ذخائر پر قبضہ جمانا اور دنیا کے دوسرے اسٹریٹجک آبنائے یعنی باب المندب پر کنٹرول قائم کرنا ہے۔ دنیا کی تقریباً 6 فیصد تجارت اس آبنائے کے ذریعے انجام پاتی ہے۔
 
10)۔ سعودی عرب نے یمن جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عربی نیٹو تشکیل دینے کی کوشش کی۔ یہ منصوبہ بھی خطے میں اپنی ناجائز طاقت پھیلانے کی ایک سازش ہے۔ اسی طرح اس کا مقصد دیگر ممالک کیلئے بھی اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
11)۔ تکفیری دہشت گردوں کو سعودی عرب کی جانب سے ملنے والی امداد کسی پر ڈھکی چھپی نہیں۔ آل سعود رژیم گذشتہ چند سالوں کے دوران مختلف محاذوں جیسے عراق، شام اور لبنان میں مسلسل ناکامیوں کے بعد خطے میں سیاسی اور اسٹریٹجک اثرورسوخ کھو چکی ہے۔ لہذا اب وہ یمن میں کامیابی حاصل کر کے خطے میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ پانے کی کوشش کر رہی ہے۔
12)۔ سعودی رژیم درحقیقت خطے میں عالمی استکباری قوتوں یعنی امریکہ اور اسرائیل کی نمائندہ کا کردار ادا کر رہی ہے اور اسی بنیاد پر یمن میں اسلامی مزاحمتی قوتوں کے خاتمے کیلئے ان کے خلاف نبرد آزما ہے۔
 
13)۔ انصاراللہ یمن اور انقلاب یمن کی عوامی کمیٹی خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے اتحادی تصور کئے جاتے ہیں لہذا ان کی کامیابی خطے میں اسلامی مزاحمت کی پوزیشن بہتر بنانے میں موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ، اسرائیل اور آل سعود رژیم یمن میں اپنی کٹھ پتلی حکومت برسراقتدار لانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
14)۔ یمن کے خلاف جنگ کا نتیجہ یمنی عوام کیلئے انتہائی افسوسناک اور ہولناک انداز میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اس وقت ہزاروں بیگناہ یمنی عوام اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ کروڑوں یمنی مسلمان وبائی امراض سے دوچار ہیں اور قحط کے باعث ان کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
15)۔ یمن کے خلاف جارحیت میں سعودی عرب کا ایک اسٹریٹجک اتحادی متحدہ عرب امارات ہے جو اس جنگ میں اس لئے شریک ہے تاکہ خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ یمن کے قدرتی ذخائر پر قبضہ کر سکے۔ یمن کی نابودی میں متحدہ عرب امارات کا کردار سعودی عرب سے کم نہیں ہے۔
 


خبر کا کوڈ: 759648

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/759648/یمن-پر-سعودی-عرب-کی-چار-سالہ-فوجی-جارحیت-کے-اثرات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org