4
0
Tuesday 6 Nov 2018 00:38

شدت پسندی، دوہرا معیار اور ایک پاکستان

شدت پسندی، دوہرا معیار اور ایک پاکستان
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
اسّی کے عشرے کے آغاز کیساتھ ہی ہمارے ملک میں جس شدت پسندی کو فروغ دینا شروع کیا گیا، وہ ہمارے گلے کی ہڈی بنے گذشتہ چالیس برس سے ہمیں معذور کئے ہوئے ہے، ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے یعنی نہ نگل سکتے ہیں اور نہ ہی اگل سکتے ہیں کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بطاہر ہمارا ملک اس وقت ایک جمہوری دور حکومت سے گذر رہا ہے اور اس سے قبل بھی ایک دو حکومتیں دس برس گذار چکی ہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی ترقی اور پیش رفت نیز عوام کی ویلفیئر کی بجائے اگر کسی چیز میں اضافہ ہوا ہے تو وہ شدت پسندی ہے۔ شدت پسندی نے اپنی متنوع شکل اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کا روپ بھی دھار لیا اور دہشت گردی میں ہم جن طریقوں اور انداز و ٹیکنیکس سے متعارف ہوئے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ کونسا طریقہ ہے جو اختیار نہیں کیا گیا، کونسی شکل ہے جس سے ہم آشنا نہیں ہوئے، دہشت گردی کی ہر شکل سے ہم متعارف ہوئے، ہماری سوسائٹی اس سے دوچار ہوئی اور ہم نے اس کار بے لذت میں اسّی ہزار نفوس کی قربانیاں دیں، جن میں ہر طبقہ فکر کے جید اور چنیدہ افراد کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان اور فورسز کے اعلیٰ عہدیداران بھی شامل ہیں۔

ہم نے اس دہشت گردی و شدت پسندی کا نتیجہ اس شکل میں بھی پایا کہ دنیا ہمارے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے کے بجائے ہماری مخالف ہوگئی، ہم نے دیگر اقوام کا اعتبار اپنے سے کھو دیا اور تو اور ہمارے اپنے ہمسائے ممالک جن کیساتھ ہماری سرحدیں بھی ملتی ہیں، وہ بھی ہم سے ناراض ہوئے، اس لئے کہ ہماری پالیسیاں اور طرز عمل ہی ایسا تھا، ہمارا کردار دوہرا تھا۔ ایک طرف ہم شدت پسندی و دہشت گردی کا شکار تھے تو دوسری طرف شدت پسندوں کو اپنی سرزمین پر پال رہے تھے، جس کا نتیجہ یقیناً ایسا ہی نکلنا تھا کہ دنیا ہم پر اعتبار ہی نہ کرتی۔ امریکہ جو اس خطے سمیت دنیا بھر میں تمام برائیوں کی جڑ ہے، وہ جو افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کا نعرہ بلند کرکے آیا، اس نے بھی دوہرا معیار بنا رکھا تھا۔ ایک طرف دہشت گردوں کو لانچ کرتا اور دوسری طرف ان پر ڈرون حملے کرتا، اس کی پالیسیاں آج بھی ایسے ہی چل رہی ہیں۔ ایک طرف افغان طالبان سے خالف ہے تو دوسری طرف داعش کو شام و عراق سے اٹھا کر یہاں لے آیا ہے، تاکہ اسے طالبان سے لڑایا اور پاکستان کیلئے خطرات پیدا کئے جا سکیں۔

اب ایسے میں کس طرح اس دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل ہوگا ، یہ ممکنات میں سے نظر نہیں آتا، دہشت گرد بھی تقسیم کا شکار رہے، ایک طرف امریکہ مخالف اور دوسری طرف اس کے ہاتھوں میں کھیلنے والے، ان کے اشاروں پر ناچنے والے، اس میں ہمارے دشمن ملک انڈیا نے بھی خوب فائدہ اٹھایا اور افغانستان سے لیکر بلوچستان تک اپنا جاسوسی و دہشت گردی کا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوگیا، مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کا بدلہ اس نے بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دیکر لیا۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے نتیجہ میں ہم نے بہت قیمتی جانیں گنوا دیں۔ اور تو اور ہماری اہل تشیع ہزارہ کمیونٹی کو مسلسل نشانہ بنایا گیا، بم دھماکوں میں ان کے سینکڑوں لوگوں کو ایک ایک دن میں شہید کیا گیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں فورسز کے سنٹرز، کانوائے، وکلاء، علماء، سیاسی و دینی شخصیات کو بھی نشانہ بنایا گیا، جبکہ انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچانے کی بہت کوششیں ہوئیں، جن میں سوئی گیس کی پائپ لائنیں اور ٹرینوں کی پٹڑیاں تک نشانہ پہ رہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کے تدارک میں جو کاروائیاں ہوئیں، ان میں بہت سے لوگ مارے گئے، بہت سے گرفتار بھی ہوئے، بہت سے گمنام مارے گئے اور ان کی لاشیں ویرانوں سے ملیں جبکہ مبینہ طور پہ لوگ فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوتے تھے۔ اگر ایسا تھا تو پھر یہ ہمارے عدالتی نظام کی خرابیاں ہیں، جو کسی بے گناہ کو انصاف نہیں دے سکتا اور کسی گناہ گار کو بروقت اس کے کئے کی سزا دینے سے قاصر ہے۔ ہماری افواج نے نہ جانے کتنے آپریشنز دہشت گردوں کے خلاف پورے ملک میں کئے ہیں، موجودہ آرمی چیف آئے تو انہوں نے شر پسندوں کے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، ان سے پہلے جنرل راحیل شریف تھے تو وہ آپریشن ضرب عضب انجام دے رہے تھے، آپریشن ضرب عضب کے خاتمے کا اعلان نئے آپریشن کی شروعات سے ہوا تھا۔

اس کا نتیجہ کیا نکلا، کیا حاصل ہوا، کیا کھویا، کیا پایا، اس کے بارے ہمارے پاس کوئی فیکٹ نہیں ہے۔ اسی طرح موجودہ آپریشن کب تک چلتا ہے اور اس کا حاصل کیا ہوتا ہے، اس بارے بھی شائد ہی کچھ سامنے آسکے۔ ہاں ہم آئے روز میڈیا میں کوئی نہ کوئی کہانی ضرور سن لیتے ہیں، آج فلاں جگہ چھاپہ، اتنا اسلحہ برآمد، آج فلاں جگہ چھاپہ، اتنے دہشت گرد مارے گئے، اتنے تاریکی کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب، اتنا اسلحہ، خودکش جیکٹس برآمد، علاقے میں سرچ آپریشن جاری۔ اگر خبروں کے مطابق پکڑے جانے والوں کی تعداد کو ہی گن لیا جائے تو ہزاروں میں بنتی ہے، یہ لوگ کدھر ہیں اور ان پر کہاں کیس چل رہے ہیں، کوئی خبر نہیں۔ ہاں کبھی کبھار یہ خبر بھی آجاتی ہے کہ آرمی چیف نے اتنے دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا کا حکم دے دیا ہے، ان کی اپیلیں مسترد کر دی گئی ہیں۔
 
اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ملت تشیع ہوئی ہے، ہمارا ہر شہر میں قتل عام ہوا ہے، ہم شہر شہر ٹارگٹ کئے گئے ہیں، ہماری خواتین تک کو نشانہ بنایا گیا ہے، ہمارے بوڑھوں کو، ہمارے جوانوں کو، ہمارے قائدین کو،ہمارے عزاداروں کو، ہمارے وکلا اور ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا ہے، ہم نے شہداء کے قبرستان آباد کئے ہیں، اس ملک کی سلامتی اور استحکام پر آنچ نہیں آنے دی، اس ملک کے خلاف بغاوت یا غداری کا نعرہ نہیں لگایا، ہمارے نوجوانوں نے اپنے جذبات کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا اور ملکی محافظوں کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے خلاف ساشوں کے دور ختم نہیں ہو رہے، کتنے معاہدے تو حکومت اپنی سرپرستی میں کروا چکی ہے کہ ان کے مطابق کسی کو کسی دوسرے کی تکفیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی، مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ دارالحکومت میں حکومتی اجازت سے ہونے والے پروگراموں میں ایسے نعرے لگتے ہیں اور ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرتا، دینی و مذہبی جماعتوں کے اتحاد بھی ایسے خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں جبکہ وہ بھی ایک دوسرے کو اس کا پابند کرچکے ہیں اور تحریری شکل میں تکفیر کے خلاف اپنی رائے اور موقف پر دستخط کر چکے ہیں۔ کیا یہ تکفیر و اشتعال انگیزی کے معاہدے فقط محرم الحرام سے قبل اخبارات میں شائع کرنے کیلئے ہی ہوتے ہیں؟

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ مولانا فضل الرحمن کی تقریر کا سن رہا تھا، جس میں وہ واضح طور پہ تکفیری و شدت پسند جماعتوں کو اپنے خلاف یعنی وہ جو دیوبندیت کے اصل نمائندے ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دے رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن ہمارے دینی سیاسی حلقوں میں زیرک سیاستدان سمجھے جاتے ہیں، جنہیں سیاست کا وسیع تجربہ ہے، ان کا یہ الزام کہ فرقہ پرست و شدت پسند جماعتیں ان کو کمزور کرنے کا سوچا سمجھا اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ ہے، قابل دقت و غور ہے، اس میں بہت سی خبریں چھپی ہوئی ہیں اور بہت سے مسائل کی جڑوں کو پکڑا جا سکتا ہے۔

جن شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے ہم نے مار کھائی ہے اور قتل غارت و دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں، انہی سے مولانا بھی متاثر ہوئے ہیں اور ہم بھی یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ عناصر کسی چھتری تلے سب کچھ کرتے ہیں، اور مولانا بھی ایسا ہی کہہ رہے ہیں۔ ہمارا بھی یہ کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا، ایک طرف دہشت گردوں کے خالف آپریش اور دوسری طرف ان کیلئے چھتری، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک چیز ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہو اور ہم اس سے بہت تنگ ہوں، مگر اس کو دشمن کے خلاف استعمال کرنے کیلئے اس کا مکمل خاتمہ بھی نہ چاہتے ہوں۔ جو آگ کسی دوسرے کیلئے لگائی جاتی ہے، اس کی تپش اکثر اپنے گھروں کو بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔

گذشتہ چالیس برس سے ایسا ہی ہو رہا ہے، موجودہ حکمرانوں نے نعرہ لگایا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان اور یہ کہا تھا کہ ہم کسی دوسرے کی جنگ میں حصہ نہیں لینگے، اصولی طور پہ تو یہ فیصلہ چالیس سال پہلے کے حکمرانوں کو کرنا تھا، جب روس نے افغانستان پر اپنا سکہ جمانا چاہا تو ہم نے دوسروں کی جنگ میں خود کو اولین صفوں پہ پہنچایا اور جن لوگوں کے کہنے پر ایسا کیا، بعد ازاں انہوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ ہم دہشت گردی کا شکار ہوئے، ہمارے شہر شہر میں بم دھماکے ہوئے، ہماری اکانومی کا بھٹا بیٹھ گیا، ہم ہزاروں شہید دے کر بھی بے اعتماد ٹھہرے، ہم امن، سلامتی اور سکون کو ترس گئے۔ لہذا موجودہ حکمرانوں سے یہی کہنا چاہوں گا کہ دوہرے معیار ختم کئے جائیں، واقعی اگر ایک پاکستان بنانا ہے تو شدت پسندی کی ہر شکل کو نابود کر دینے کیلئے کمر کس لیں، اس کیلئے ایک بار قربانیاں دینی پڑیں گی، پھر ہمارا ملک ان نام نہاد شدت پسندوں، دو ٹکے کے ملائوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنایا جا سکے گا، جیسا حالیہ دنوں میں بنایا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 759676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکریه ارشاد صاحب آپ کا دوسرے کالم مطالعه کیا جو که آپ کے خاص تنظیمی خول سے نکل آنے کی علامت ہے اور آپ اب مسائل کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے لگے اور مسائل کی بنیادی وجه تلاش کرنے لگے ہیں، خدا آپ کو مزید توفیق دے، لیکن شیعه جوانوں کا شیعه قوم کے خلاف نا انصافی پر مبنی سلوک کے خلاف اسلحه نه اٹھانا میرے خیال میں شیعه مدبر قیادت کی حکیمانه پالیسی کی بنا پر تها، جسے جذباتی افراد اور جوانوں نے بزدلی تک کے القاب تک دیئے، لیکن انهوں نے صبر کا دامن نه چهوڑا۔
Iran, Islamic Republic of
تکراری باتیں اور کام کا کچھ بھی نہیں۔ اگر یہی کچھ چھاپنا ہے تو اسلام ٹائمز کی اب فاتحہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔
Pakistan
سلام۔ شکریہ حوصلہ افزائی کا، جس برادر نے تنقیدی جائزہ لیا، اس کا بھی شکریہ، اپنی طرف سے تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ کچھ قومی معاملات، ملکی مسائل اور عالمی حالات کے تناظر میں ضبط تحریر میں لایا جائے، ملکی و قومی مسائل چونکہ گذشتہ چالیس برس سے جوں کے توں کھڑے ہیں، لہذا ان پر بات اور تذکر تو ہوگا۔ارشاد
Greece
آج کل اسلام ٹائمز کے خلاف کوئی خاص گروہ متحرک ہے جو چھپ کر خنجر گھونپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لہذا کسی کے منفی کمنٹس معیار نہیں ہیں بلکہ اب اللہ کے فضل و کرم سے اسلام ٹائمز خود ایک معیار کا نام ہے۔
منافقین کی عاقبت ذلت و رسوائی ہی ہے۔ ان شاء اللہ اس حربے میں بھی ذلیل و رسوا ہونگے۔
احسن شبیر
ہماری پیشکش