1
0
Tuesday 6 Nov 2018 09:56

صلح حسن اور جنگ حسین کیوں۔۔۔۔!؟

صلح حسن اور جنگ حسین کیوں۔۔۔۔!؟
تحریر: عظمت علی

جب بھی حسنین علیہماالسلام کی حیات طیبہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو کچھ افراد کے ذہن میں چند سوالات جنم لیتے ہیں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ کیا امام حسین علیہ السلام اپنے بھائی سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے کہ آپ نے جنگ لڑی، جبکہ امام حسن علیہ السلام نے صلح کی۔۔۔؟! شعیہ اثناء عشری کے عقیدہ کے مطابق کسی بھی معصوم کا دوسرے معصوم سے کوئی اختلاف نظر نہیں ہوتا۔ حالات و شرائط کی بےوفائی کے سبب انہیں اپنی راہیں تبدیل کرنا پڑتی ہیں، ورنہ مقصد سب کا ایک ہی  ہوتا ہے. دین اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت. امام حسن علیہ السلام نے دفاع حق میں ایک لمحہ بھی دریغ نہیں کیا۔ آپ کا دور نامساعد تھا کیونکہ آپ کے چاہنے والوں میں اتحاد نہیں تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ معاویہ اور حضرت علی علیہ السلام کے درمیان عراق، حجاز اور یمن میں مختلف جنگوں اور جھڑپوں منجملہ جمل، صفین، نہروان وغیرہ میں جنگ کے باعث مجاہدوں میں ایک قسم کی خستگی چلی آئی تھی۔

امیر کائنات کے دور حکومت میں آپ کے سپاہی ہمیشہ اسلحے سے لیس رہتے تھے، اور ایک جنگ سے دوسرے کے لئے آمادہ رہتے تھے۔ جب دوسرے امام نے لوگوں کو اہل شام سے جنگ کرنے کی دعوت دی، تو چند ہی افراد آمادہ جہاد ہوئے۔ اس کے علاوہ ان دنوں عراقی عوام خلفشار کا شکار ہو چلی تھی۔ جس کے باعث لوگوں کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ بر قرار نہ رہا اور ساتھ ہی وہ باہمی اختلاف کا شکار ہو چلے تھے۔ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے ’مدائن‘ میں جب ایک جامع خطبہ دیا تو لوگوں نے ہر طرف سے فریاد شروع کر دی۔ اب ایسے سنگین حالات میں معاویہ کی مسلح افواج سے نبرد آزمائی، شکست کو دعوت دینا تھی۔ اب لوگوں کی کوڑھ مغزی کا عالم یہ ہے جب آپ نے معاویہ سے عاقلانہ شرائط کے ساتھ صلح کرلی، تو اعتراض کرنا شروع کردیا کہ آپ نے جنگ کیوں نہیں کی۔۔۔؟! اگر آپ برسر پیکار ہو جاتے اور حالات و شرائط کی عدم دستیابی کے باعث آپ کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا تو پھر ہر ایک شخص کا یہی اعتراض ہوتا کہ جب حالات نامساعد تھے تو خود کو تیغ و تبر کے حوالہ کرنا کون سی عقلمندی تھی۔۔۔!

امام علیہ السلام کا معاویہ سے صلح کرنا چند اسباب کے تحت تھا۔ جب آپ نے کوفہ جانے کا قصد کیا تو ’عبیداللہ ابن عباس‘ نے اپنے بارہ ہزار لاو لشکر کو روانہ کر دیا۔ ’مسکن‘ نامی مقام پر معاویہ کے لشکر سے ملاقات کی اور وہیں پڑاو ڈال دیا۔ ابھی کچھ دیر نہیں ہوئی تھی کہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور امام علیہ السلام کو یہ خبر دریافت ہوئی کہ ’عبیداللہ‘ نے معاویہ کے ہاتھوں ایک ملین درہم کے عوض راتوں رات اپنے آٹھ ہزار سپاہیوں کو فروخت کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ حاکم شام نے امام کے لشکر کے درمیان اپنے جاسوسوں کے ذریعہ یہ افواہ اڑا دی کہ ’قیس بن سعد‘ نے بھی معاویہ سے ساز باز کر لی ہے اور خود قیس کی فوج کے درمیان یہ جھوٹی خبر پھیلادی گئی کہ امام حسن علیہ السلام نے حاکم شام سے صلح کرلی ہے۔ پھر حاکم شام نے اپنے کچھ بااعتماد لوگوں کو امام کے پاس بھیجا۔ انہوں نے آپ نے سے ملاقات کی اور پھر لوگوں کے درمیان یہ اعلان کردیا کہ ’خداوند عالم نے فرزند پیغمبر کے ذریعہ فتنہ کی آگ کو بجھا دیا ہے آتش جنگ کو خاموش کردیا ہے۔ حسن ابن علی نے معاویہ سے صلح کرلی ہے اور لوگوں کے خون کو بچا لیا ہے۔ جب حالات اس قدر مکدر ہو جائیں تو پھر صلح سے بہتر کوئی راہ نہیں سوجھتی، اور دوراندیشی اسی میں ہے کہ بہترین راہ کا انتخاب کیا جائے۔

امام حسین علیہ السلام کے قیام کی بابت میں یہ بات بدرجہ ایقان کہی جاتی ہےکہ یزید نے فضا کو اس قدر مکدر کر رکھا تھا کہ جہاں صلح و آشتی میں دین و شریعت کا خسارہ تھا۔ وہ اعلانیہ دین اسلام کی توہین کرتا۔ رسول اسلام کی رسالت کا صاف انکار کرتا۔ وحی الٰہی کو بنی ہاشم کو ڈھونگ گردانتا۔ جیسا کہ اس نے خود اپنے اشعار اس بات کو بیان کیا تھا۔
لعبت بنو ھاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وحی نزل

وہ مقدسات اسلام کو پامال کررہا تھا۔ رقص و سرود کی محفلیں سجاتا۔ بندروں سے کھیلنا اس کا طرہ امتیاز بن چکا تھا۔ ستم تو یہ ہے کہ وہ ان غیر شرعی افعال انجام دے کر خود کو خلیفۃ المسلمین کہلانے پر مصر تھا اور امام حسین علیہ السلام سے اس کی تائید کا طلب گار تھا۔ جب اس نے اپنے خلیفہ ہونے کی تائید میں بیعت طلب کی تو امام کو احساس ہو چلا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے اور آپ نے انکار بیعت کردیا۔ لہٰذا، آپ نے دین اسلام کے تقدس کی خاطر مدینہ سے ہجرت کرلی۔

یزید کی ہر لمحہ یہی سیاست تھی کہ کسی طرح اسلامی فضا مسموم کردی جائے اور محمد کا لایا ہوا دین، دم توڑدے اور میں مسلمانوں کا خلیفہ بن جاؤں۔ لیکن...'الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا'۔ اس وقت حالات اس قدر زہر آلود ہو چکے تھی کہ صلح کی کوئی صورت ہی نہیں نظر آتی تھی۔ اگر آپ خاموش ہو جاتے تو ظلم کی ہمراہی تھی، اور اگر مدینہ میں ہی ٹھہرے رہتے تو وہ اپنی حکومت کے بل بوتے پر آپ کا قتل کرا کے اسے ذاتی اختلاف کا رنگ دے دیتا اور ہدایت کے نور تاباں کو خاموش کردیتا۔۔۔! امام حسن علیہ السلام کا معاویہ سے صلح کرنا ہی عین شریعت تھی۔ اس لئے کہ اگر آپ میدان کارزار میں آجاتے تو لاحاصل خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ اور اگر امام حسین علیہ السلام یزید سے صلح کرلیتے تو آج پورے عالم میں یزیدی اسلام پھیل جاتا اور۔۔۔! المختصر۔۔۔! دونوں اماموں کے اقدام میں الٰہی حکمت عملی کارفرما تھی اور جو انہوں نے فیصلہ لیا وہی عین شریعت تھا۔
خبر کا کوڈ : 759747
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
کاپی پیسٹ اور پرانے مطالب کی ملمع کاری
ہماری پیشکش