QR CodeQR Code

لاشوں کے بیوپاری

7 Nov 2018 12:20

اسلام ٹائمز: جو چیز بھیانک ہے، وہ تشدد کا نہ رکنے والا رجحان ہے۔ اسکا آغاز خود بخود نہیں ہوا، اختتام کیلئے بھی کوئی چارہ جوئی نظر نہیں آرہی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ ایسے محسوس کر رہا ہے جیسے تشدد پر جنکو اکسایا جاتا ہے، یہ نسل انکی رسائی سے دور ہے۔ یہ درست نہیں۔ ایک دوسری انتہا ہے، جیسے شدت پسندی کو ختم کرنے کیلئے جنرل مشرف نے ناچ گانے، فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا، متوازن اور معتدل کوشش نہیں کی گئی۔ اب یہاں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بظاہر سیاست سے لاتعلق نظر آنیوالا آدمی بھی تشویش کا شکار ہے، کسی لیڈرشپ کیجانب سے متوقع موثر کردار کے فقدان کیوجہ سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

سپریم کورٹ نے مسیح خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کو فیصلہ دیا اور اس کے ردعمل میں پورا پاکستان بلاک کر دیا گیا۔ مظاہرین کے سرکردہ رہنما یہ اعلان کرتے رہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کو قتل کر دیا جائے، آرمی چیف کیخلاف فوج اٹھ کھڑی ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وزیراعظم ہاوس میں کوئی ممتاز قادری پیدا ہو جائیگا۔ ممتاز قادری نے جس گورنر پنجاب سلمان تاثر کو قتل کیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر دھرنا دینے والے مولوی حضرات یہ دھمکیاں دے رہے تھے۔ سلمان تاثیر اس لیے قتل کیا گیا کہ انہوں نے آسیہ مسیح سے جیل میں ملاقات کی تھی، ساتھ ہی توہین مذہب اور توہین رسالت قانون پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کے اتل کے پیچھے اس کے سیاسی مخالفین یعنی مسلم لیگ نون کی کسی سطح قیادت ملوث تھی، جنہوں نے درپردہ ممتاز قادری کو راولپنڈی کے ایک خطیب کے ذریعے اس کام کیلئے مہرہ بنایا۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس قتل کی مذمت کی۔ لیکن جب ممتاز قادری کو سزائے موت اور پھانسی دی گئی تو یہی سیاسی مذہبی جماعتیں اسے خلاف مصلحت دینے لگیں، اسی لیے مذہبی رہنماوں نے بھی بھرپور طریقے سے ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کی۔

البتہ ممتاز قادری کو لیگی دور حکومت میں دی گئی۔ شریف برادران کے قریب سمجھے جانے والے بریلوی مولوی حضرات نے اس موقع پر نہایت بھونڈے انداز میں لیگی رہنماوں کیخلاف گالم گلوچ کا مظاہرہ کیا۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد تحریک لبیک نامی بریلوی مولویوں کا سیاسی دھڑا یکا یک مضبوط ہونا شروع ہو گیا۔ ایک رائے کے مطابق جس طرح اس کے ذریعے لیگی حکومت کیخلاف دباو برقرار رکھا گیا، اب یہی دھڑا موجودہ حکومت کی خام کاری اور کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کیلئے ماحول کو پر تشدد بنائے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ پاکستانی سوسائٹی کو ہی ایسا لاوا سمجھتے ہیں جسے بیرونی طور پر یعنی حکومتوں یا غیرملکی قوتوں کی جانب سے ہلا شیری دینے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ مذہب کے نام ہماری آبادی جلد اشتعال کا شکار ہو جاتی ہے۔ وفاقی وزرا نے بھی یہی رائے دی ہے کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ملک تین سے چار دن یرغمال رہا ہے اور حکومت کچھ نہیں کر سکی۔ اگر ایسا ہے تو رائے عامہ توڑ پھوڑ کرنیوالوں کیخلاف کیوں ہے، حقیقت میں تو ایک دھڑے نے مخصوص انداز کیساتھ سوسائٹی کو یرغمال بنایا تھا، جیسے کرفیو لگا دیا جاتا ہے تو لوگوں گھروں سے نہیں نکل سکتے یہ ایسا تھا کہ سفر دشوار بنا دیا گیا، ذرائع رسل و رسائل معطل کر دیئے گئے۔ فیصلہ دینے والے جج صاحب ہسپتال جا پہنچے۔ 

سلمان تاثیر کے قتل پر خوشی منانے والے اور ممتاز قادری کو پھانسی دیئے جانے پر احتجاج کرنے والے چاہتے ہیں کہ مزید لاشیں گرتی رہیں، اسی میں انکی سیاست آگے بڑھ سکتی ہے۔ کوئی بھی کھل کر بات کرنیکی پوزیشن میں نہیں، موجودہ حالات سخت پیچیدہ ہیں، لیکن نظر آنے والی صورتحال بغیر کسی محرک اور منصوبے کے پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ سازشی تھیوری کو ایک طرف رکھ دیں، بالآخر سیاسی، سماجی عوامل کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح کارفرما ضرور ہوتے ہیں۔ ایک ٹرینڈ ہماری سیاست میں جڑ پکڑ چکا ہے کہ مفادات جب مدنظر ہوں تو عام آدمی کی زندگی داو پہ لگا دی جاتی ہے۔ کچھ بھی نہیں تو مقتدر حکمرانوں کی نااہلی اور ریاستی کمزوری تو عیاں ہے۔ ایک تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی رہنما یا گروہ نے مظاہرین سے بات کرنیکی کوشش نہیں کی، اپوزیشن نے صرف حکومت کو یقین دلایا کہ قانون کی بالا دستی قائم رکھی جائے، عدالتی فیصلوں کو اسپورٹ کیا جائے۔ جس طرح عمران خان تحریک لبیک کے گذشتہ دھرنوں میں انکی تائید کرتے نظر آئے اس دفعہ کہیں سے ثالثی کا کردار بھی سامنے نہیں آیا۔

جو چیز بھیانک ہے وہ تشدد کا نہ رکنے والا رجحان ہے۔ اس کا آغاز کود بخود نہیں ہوا، اختتام کیلئے بھی کوئی چارہ جوئی نظر نہیں آ رہی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ ایسے محسوس کر رہا ہے جیسے تشدد پر جن کو اکسایا جاتا ہے، یہ نسل انکی رسائی سے دور ہے۔ یہ درست نہیں۔ ایک دوسری انتہا ہے جیسے شدت پسندی کو ختم کرنے کیلئے جنرل مشرف ناچ گانے، فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا۔ متوازن اور معتدل کوشش نہیں کی گئی۔ اب یہاں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ بظاہر سیاست سے لاتعلق نظر آنے والا آدمی بھی تشویش کا شکار ہے، کسی لیڈرشپ کی جانب سے متوقع موثر کردار کے فقدان کی وجہ سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ مجموعی طور پر عام آدمی کا روزمرہ کاروبار زندگی میں مشغول ہوجاتا ہے لین اس کا مطلب جب یہ لے لیا جاتا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں تو ایک بہت بڑی کمزوری باقی رہ جاتی ہے جس کا اظہار بہت جلد ہوجاتا ہے۔ مذہب کے نام پہ شدت پسندی کا مسئلہ دیرینہ ہے، اب یہ تشدد عملی شکل اختیار کر چکا ہے، گلی کوچوں میں توڑ پھوڑ سے نکل کر ایوان اقتدار اور ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، دراصل لاشوں پہ کی جانی والی فرعونی سیاست کا نیتیجہ ہے، جسے اب بند ہونا چاہیے۔

پاکستان کو اقبال اور قائد جیسے رہنماوں کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا کو آگ اور کون کے کھیل میں جھونکنے والی طاقتوں اور استعمار وقت امریکہ سے الگ ہو کر پالیسی مرتب کرنیکی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کا ماڈل افراط و تفریط سے مملو ہے، موجودہ حکمران طبقہ جب اسے ماڈل قرار دیتا ہے تو وژن کی کمی اور قائدانہ صلاحیت کی بے مائگی جھلکتی ہے، موجودہ عالمی اور ملکی حالات میں زیادہ توانا اور گہری بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ مخدوش حالات میں اندرونی طور پر پنپتی ہوئی تشدد لہر، معاشی بدحالی اور پالیسی کے فقدان کو صرف حالات کا جبر سمجھنے کی بجائے اسرائیلی طیارے کی زیرگردش خبروں اور پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کیساتھ جوڑ کر دکھینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ متشدد گروہ کے اہم رکن دو دہائیوں سے صہیونی لابی کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ بظاہر انکا نعرہ عام مسلمان کے دلوں کی آواز کے قریب ہے۔ جب مسلسل حالات کی خرابی موجودہ ہے تو اس میں کوئی عنصر ایسا ضرور کارفرما ہے جسکا سرا صدیوں پر محیط سازش رچانے والے شیطانی صہیونی ٹولے سے ملتا ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ توہین رسالتﷺ قانون کو چھیڑنے کی بجائے مخلص اور دردمند پاکستانی زیادہ گہرائی سے اس مسئلے کا جائزہ لیں اور ریاست اور معاشرے کو اس عذاب سے نجات دیں۔


خبر کا کوڈ: 759832

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/759832/لاشوں-کے-بیوپاری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org