3
14
Wednesday 7 Nov 2018 22:54

ایران کے مقابلے میں امریکہ کی مستقل شکست

ایران کے مقابلے میں امریکہ کی مستقل شکست
تحریر: عرفان علی

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارت میں بھی امریکی حکومت ایران کے مقابلے میں شکست سے ویسے ہی دوچار ہے جیسے جمی کارٹر، ریگن، بش اول، کلنٹن، بش دوم اور باراک اوبامہ کے ادوار صدارت میں ناکام و نامراد تھی، کیونکہ تاحال امریکی حکمران ایران کے خلاف اپنے اصل اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ 5 نومبر بروز پیر سحر اردو ٹی وی کے سیاسی ٹاک شو ’’انداز جہاں‘‘ میں ایک اور مرتبہ ایران کی سامراج شکن پالیسی پر اظہار خیال کے لئے مدعو تھا، جہاں اتنا وقت نہیں ہوتا کہ مفصل بات ہوسکے۔ نیوز چینل پر بسا اوقات موضوع نامکمل رہ جاتا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے ایران پر سخت ترین پابندیوں کا نیا مرحلہ شروع ہونے پر اس موضوع کو اس کے درست تناظر میں سمجھنے کے لئے اس فورم پر معروضات پیش خدمت ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور نئے سیاسی نظام کے قیام کے وقت سے یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ اور ایران کے تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ انقلابیوں نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے سے دستاویزات برآمد کرکے دنیا کے سامنے یہ حقیقت نشر کر دی کہ سفارتکاری کی آڑ میں امریکی حکومت جاسوسی اور سازشیں کرتی رہی تھی اور اسکا تہران سفارتخانہ پورے خطے میں جاسوسی کا سب سے بڑا اڈہ تھا۔ وہاں سفارتخانے میں امریکی اہلکار یرغمال تھے، جنہیں چھڑانے کے لئے امریکی حکومت نے ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی ہیلی کاپٹرز میں کمانڈوز بھیجے تھے۔ آٹھ میں سے صرف پانچ ہیلی کاپٹرز ایران کی حدود میں داخل ہوئے تھے اور صحرائے طبس میں تین ہیلی کاپٹرز خرابی سے دوچار ہوگئے، بقیہ میں ہمت نہیں تھی۔ یوں امریکی مشن کی ناکامی نے امریکی حکومت کو دنیا کے سامنے مزید رسوا کیا۔

اس پس منظر میں کہ اپنے اتحادی شاہ ایران پہلوی حکومت کا سقوط اور اسکی جگہ امریکی سامراجیت و مداخلت کی سخت مخالف انقلابی اسلامی حکومت کا قیام اور امریکی سازشوں کے بے نقاب ہونے کے بعد امریکی حکمرانوں نے اپنی غلطیوں کی درستگی یا ملت ایران سے معافی مانگنے کی بجائے ایران پر ایک پیچیدہ نوعیت کی جنگ مسلط کر دی۔ بظاہر اس کا عنوان روک تھام یا محدود کرنے کی پالیسی رکھا گیا، لیکن اصل مقصد جمہوری اسلامی ریاستی نظام کا سقوط اور شاہ ایران جیسے امریکہ کے دست نگر حکمران کی واپسی تھا۔ اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ اسکے عرب اور یورپی اتحادی بھی ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ حتیٰ کہ اس وقت کا سووویت یونین (موجودہ روس) بھی ایران کے خلاف تھا۔ امریکی حکومت نے مختلف عنوانات کے تحت پابندیاں عائد کرکے ایران کا محاصرہ شروع کر دیا۔

امریکہ نے ایران کے اثاثے منجمد کر دیئے۔ تجارت پر پابندیاں لگا دیں۔ صدام کے ذریعے امریکی اتحاد نے ایران پر براہ راست جنگ مسلط کر دی، جو آٹھ سال جاری رہی۔ ایران کی اہم ترین ریاستی و حکومتی شخصیات کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ سیستان و بلوچستان سے کردستان و آذربائیجان تک اندرونی نیابتی گروہوں کو استعمال کیا جاتا رہا۔ ایران سے مقابلے میں سب کچھ کر لینے کے باوجود امریکہ شکست کھا گیا۔ ہوا یوں کہ امریکہ اپنے اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پایا۔ ایران نے تمام تر نقصانات، مشکلات و مصائب جھیلنے کے بعد بھی امریکی ڈکٹیشن ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے استقلال و آزادی کے نعرے کو اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا۔

امریکہ کی پیچیدہ جنگ میں خفیہ آپریشنز، اقتصادی ناکہ بندی، ضروریات کی اشیاء ایران تک پہنچنے سے روکنا اور اپنے اتحادی ممالک کی حکومتوں اور بعض دہشت گرد گروہوں کے ذریعے نیابتی جنگوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، کیا کچھ امریکہ اور اسکے اتحادیوں یا نیابتی گروہوں نے ایران کے خلاف نہیں کیا، لیکن یہ ملت ایران کی اجتماعی استقامت ہے کہ ایران کی انقلابی حکومت کو اسکی اصول پسندانہ، عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ پالیسی پر عمل کرنے سے امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت آج تک پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔ نیوکلیئر ایشو کو بہانہ بنا کر امریکہ نے ایران کے خلاف پوری دنیا میں لابنگ کی۔ حتیٰ کہ روس اور چین کو بھی ساتھ ملا لیا اور برطانیہ و فرانس سمیت اقوام متحدہ کے ان پانچ بڑوں نے مل کر ایران پر عالمی سطح کی بدترین پابندیاں لگا دیں۔

سال 2006ء سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں برطانیہ، فرانس و جرمنی نے امریکی و اسرائیلی حکومت کے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے ہوئے نیوکلیئر ایشو پر ایران سے غیر قانونی مطالبات منوانے کے لئے قراردادیں لانے کا سلسلہ شروع کر دیا اور نہ ماننے کی صورت میں پابندیوں کی دھمکی بھی ساتھ ہی شامل تھی۔ یوں تقریباً نو برس تا ایک عشرہ ایران پر بدترین پابندیاں مسلط کی گئیں اور اسکے اثاثے بھی منجمد کر دیئے گئے۔ انٹرنیشنل لاء کی بدترین خلاف ورزی خود عالمی طاقتوں نے کی۔ پرامن مقاصد کے لئے یورینیم کی افزودگی انٹرنیشنل لاء کے تحت ایران کا ناقابل تنسیخ حق تھا، لیکن ایران کا میڈیا ٹرائل کرکے رائے عامہ کو بھی گمراہ کیا گیا اور بجائے ایران کے قانونی حق کو تسلیم کرنے کے ایران کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

اوبامہ دور کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے اپنے الفاظ میں امریکی کوششوں سے مفلوج کر دینے والی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے تیل کی برآمدات جو پچیس لاکھ بیرل یومیہ ہوا کرتی تھیں، وہ محض دس لاکھ یومیہ رہ گئیں۔ انکی کتاب ہارڈ چوائسز سال 2014ء میں شایع ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ اس طرح ایران کو 80 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا۔ یعنی صرف دو برسوں میں یہ نقصان پہنچایا گیا اور اسکے بعد کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کا یہ مشترکہ منصوبہ بہت پرانا تھا اور ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کے کاندھے استعمال کرکے جو عملی اقدامات سال 2006ء تا 2007ء شروع کئے گئے تھے، یہ امریکی، اسرائیلی سازش کا صرف ایک حصہ تھا، اصل ہدف یہ تھا کہ ایران اسرائیل کی نابودی کے نعرے سے دستبردار ہو جائے۔ انکا مطالبہ تھا کہ ایران فلسطین کی آزادی کے لئے مزاحمت کرنے والوں کی مدد و حمایت ترک کر دے۔ لبنان کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لئے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی حزب اللہ کی مدد و حمایت ختم کر دے۔

پابندیوں کے باوجود جب ایران اور اس کی دوست ریاست شام نے امریکی و اسرائیلی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی فلسطین دوست پالیسی کو جاری رکھا تو امریکی اسرائیلی اتحاد نے اپنے مسلمان نما عرب نما حکمرانوں کو شام کے خلاف نیابتی جنگ کا مہرہ بنا کر ریاست شام اور اسکے شہریوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا، جہاں تکفیری دہشت گرد گروہوں کو استعمال کیا۔ امریکی اتحاد کی کیلکیولیشن کے مطابق چونکہ ایران پر عالمی سطح کی پابندیوں کی وجہ سے اسکے اثاثے بھی منجمد ہیں اور وہ شدید مالی مشکلات کا شکار بھی ہے تو وہ شام کی حکومت کی مدد نہیں کرسکے گا، حزب اللہ و فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی مدد بھی ترک کر دے گا؛ یہ انکی کیلکیولیشن تھی جو غلط ثابت ہوئی۔

ایران اس نئے محاذ پر ہی نہیں بلکہ اس دوران جو عراق میں داعش کے قبضے کی سازش کے خلاف بھی ان دونوں ملکوں کی حکومتوں کی درخواست پر قانونی طور پر ان قوموں کے دفاعی مورچے میں شریک ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ امریکی اتحاد شام میں بھی تمام تر سازشوں اور حملوں کے بعد بھی بشار الاسد کی عرب دوست فلسطین دوست حکومت کو ختم کرنے میں ناکام ہے، جبکہ آج عراق میں بھی امریکہ اگر ایران کے خلاف کوئی بیان دیتا ہے، عراق کی حکومت یا دیگر سیاسی اسٹیک ہولڈر جواب دیتے ہیں اور امریکہ کو باور کراتے ہیں کہ وہ عراق کو ڈکٹیشن دینے سے باز رہے۔ آج بھی امریکی حکومت کا مطالبہ وہی ہے، جو نہ ماننے کی صورت میں ہی امریکہ نے ایران کے خلاف جنگ کو طول دے رکھا تھا۔

صدر ٹرمپ اور انکے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے سامنے جو مطالبات رکھے ہیں، وہی پرانے مطالبات ہیں جو ریگن، بش اول، کلنٹن، بش دوم اور باراک اوبامہ کے دور صدارت میں پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ اب اس میں نیا نکتہ یہ ہے کہ وہ ایران سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ یمن میں حرکت انصار اللہ (حوثی تحریک) کی مدد و حمایت بھی نہ کرے۔ پانچ جمع ایک کے ایران سے نیوکلیئر معاہدے سے بحیثیت ایک فریق دستبرداری کے بعد اب ٹرمپ حکومت کا مطالبہ ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی بالکل بھی نہ کرے یعنی زیرو انرچمنٹ۔ انکا مطالبہ ہے کہ ایران میزائل بھی تیار نہ کرے۔ امریکہ اور امریکی اتحادیوں بشمول جعلی ریاست اسرائیل کی مخالفت بھی نہ کرے۔

یہ ہیں امریکہ، اسرائیل اور انکے دیگر اتحادیوں کے مطالبات کہ ایران اور دیگر مقبوضہ و مجروح ممالک قابضین و جارحین کے خلاف مزاحمت ترک کرکے سرنگوں ہو جائیں اور جیسے امریکہ، اسرائیل اور اسکے اتحادی جارحین کہتے ہیں، اس پر عمل کریں۔ چونکہ تاحال پانچ جمع ایک گروپ اب چار جمع ایک گروپ کی حیثیت سے برقرار ہے اور ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے پر قائم ہے اور ایران کے مطالبات کو پورا کرنے کا یقین دلا رہا ہے، اس لئے ایران بھی تاحال اس معاہدے میں شریک ہے۔ اب یورپ کے تین بڑے یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی اور انکے علاوہ روس اور چین کی اپنی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے کہ وہ ایران کے تیل کی فروخت پر امریکی پابندیوں کو ناکام بنائیں اور ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات میں رکاوٹوں کو دور کریں۔

ٹرمپ سرکار کی دھمکیوں کے باوجود تاحال یہ ممالک بھی بظاہر ڈٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکی حکومت کی ایران کے خلاف نئی شکست یہ ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے خاص طور پر ایران سے تیل کے خریدار آٹھ ممالک کو ایران کے خلاف پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ یعنی چھ ماہ کے لئے ان آٹھ ممالک کے خلاف امریکی حکومت اقدامات نہیں کرے گی۔ ان آٹھ ممالک میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، عراق، ترکی، افغانستان اور اٹلی کے نام لئے جا رہے ہیں۔ ایک آدھ کا فرق ہوسکتا ہے۔ لیکن پچھلی مرتبہ ان سبھی سے امریکہ نے ایران کے خلاف اپنا موقف منوا لیا تھا، اس کے باوجود ایران نے امریکی مطالبات نہیں مانے تھے اور اس مرتبہ چھ ماہ کے لئے ہی سہی، امریکہ اپنے بعض اتحادیوں اور دوستوں سے بھی اپنا موقف منوا نہیں سکا ہے۔

اب چھ ماہ کے دوران اور اس کے بعد بھی عالمی منڈی میں تیل کی مطلوبہ مقدار کی فراہمی کے لئے امریکی اتحاد کو ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا۔ گلوبل بنچ مارک برینٹ کے حساب سے پچھلے ہفتے تیل کی قیمت 72.83 ڈالر فی بیرل تھی جبکہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے حساب سے 63.14 ڈالر فی بیرل قیمت تھی۔ اس سے قبل بین الاقوامی منڈی (برینٹ) میں خام تیل کی فی بیرل قیمت 80 ڈالر تک جا پہنچی تھی، جو پچھلے چار برسوں میں سب سے زیادہ قیمت تھی۔ انرجی شعبے کی ایک ماہر کا کہنا ہے کہ نومبر میں کی تیل برآمدات دس لاکھ بیرل یومیہ ہونے کا امکان ہے، جس کا سب سے بڑا خریدار چین ہوگا، جو تیس تا پچاس فیصد خریداری کرے گا، اٹھائیس تا تیس فیصد بھارت اور ان کے بعد ترکی اور جنوبی کوریا دو دیگر بڑے خریدار ہوں گے۔

اس شعبے کے ایک اور ماہر کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل ہونے کا امکان ہے۔ انکا کہنا ہے کہ امریکہ، سعودیہ، روس، عراق تیل کی اضافی مقدار مارکیٹ کو فراہم کرسکتے ہیں، اسلئے فراہمی میں کوئی کمی نہیں ہوگی، لیکن ایک اور ماہرانہ رائے اس سے مختلف ہے کہ امریکہ کو اضافی فراہمی کے لئے کم سے کم تین قدم اٹھانے ہوں گے۔ عراق کی مرکزی حکومت اور کردستان کی علاقائی حکومت کا معاہدہ کروائے، تاکہ کرکوک کا تیل ترکی بھیجا جائے۔ سعودی عرب اور کویت کے نیوٹرل زون کے تنازعے کو حل کروا کر وہاں سے تیل عالمی منڈی کو فراہم کرے اور اسکے علاوہ اپنے ہنگامی خام تیل کے ذخیرے کو استعمال کرے، جو خلیج میکسیکو میں نمک کی غار میں ہے لیکن 660 ملین بیرل کا یہ ذخیرہ صرف اور صرف ہنگامی استعمال کے لئے ہے۔

بات گھوم پھر کر اسی نکتے کی طرف پلٹ جاتی ہے کہ پچھلے چالیس برسوں میں امریکہ نے کونسا ایران دشمن قدم نہیں اٹھایا تھا۔ صدام کے ذریعے جنگ، طبس کا واقعہ، آئل اسٹیشن پر حملہ، مسافر بردار طیارے کو مار گرانا، طالبان کے ذریعے ایران دشمنی، دیگر پراکسیز کے ذریعے حملے، اتحادی ممالک کی جانب سے بائیکاٹ سمیت مختلف اقدامات، نہ صرف دباؤ کا ہر حربہ بلکہ انگیج رکھنے کی منافقت بھی کرکے دیکھ لی۔ تجارت ختم کرکے رکھ دی، افراط زر کی شرح چالیس فیصد تک پہنچا دی، کرنسی کی قدر میں بے پناہ کمی کر دی، ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ایران میں سرمایہ کاری سے روک دیا، دنیا کے ہر ملک کو ایران سے لین دین سے منع کر دیا اور اس مرتبہ بھی یہی دھمکی کہ امریکہ کا تجارتی و بینکاری نظام ایسے کسی بھی ملک، کمپنی یا شخصیت کے لئے ممنوع قرار پائے گا کہ جو ایران پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرے گا۔ یعنی عالمی مالیاتی نظام سے ہی ایران کو مکمل طور کاٹ دیا گیا ہے۔ پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایران چالیس سالہ استقامت کی ناقابل شکست تاریخ کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔

آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور سی آئی اے کے اعداد و شمار بھی اس حقیقت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ ایران کی اقتصادی کارکردگی ان تمام تر پابندیوں کے باوجود، امریکہ، اسکے اتحادی، یورپی، مسلمان و عرب ممالک حتیٰ کہ جعلی اسرائیلی ریاست سے بھی بہت زیادہ بہتر ہے۔ فی کس آمدنی ہو یا قرضوں کی صورتحال۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، لکسمبرگ، جاپان، اٹلی، آئر لینڈ، اسپین، کینیڈا، چین، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، سنگاپور، بیلجیم، سوئیڈن، آسٹریا، ناروے، برازیل، روس، بھارت، ڈنمارک، فن لینڈ، یونان، ترکی، پرتگال، میکسیکو، جنوبی کوریا، پولینڈ، انڈونیشیاء، ملائیشیاء، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ارجنٹینا، ماریشس، تائیوان، نیوزی لینڈ چلی، پوئرٹو ریکو، قزاقستان، قطر، تھائی لینڈ، ہنگری، جنوبی افریقہ، چیک ری پبلک، کولمبیا، قبرص، یوکرین، وینزویلا، رومانیہ، مالٹا، پاکستان، اسرائیل، سلوواکیہ، پیرو، فلپائن، عراق، مصر، ویتنام، سلووانیہ، مراکش، کویت سمیت 116 ممالک ترتیب وار ایران سے کہیں زیادہ مقروض ہیں۔

امریکہ کا بیرونی قرضہ اسکی جی ڈی پی کا 94 فیصد ہے اور ہر امریکی 58200 ڈالر کا مقروض ہے، سعودی عرب کا بیرونی قرضہ اسکی جی ڈی پی کا 31 فیصد ہے اور ہر سعودی شہری 6100 امریکی ڈالر کا مقروض ہے، جعلی ریاست اسرائیل پر بیرونی قرضہ اسکی جی ڈی پی کا 26فیصد ہے جبکہ ہر اسرائیلی 10,700 امریکی ڈالر کا مقروض ہے۔ ان سے موازنہ کر لیں تو ایران کا بیرونی قرضہ اسکی جی ڈی پی کا محض 2فیصد ہے اور ہر ایرانی شہری 90 ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ ہے عالمی سیاست کے بت شکن امام خمینی کے استکبار شکن جانشین امام خامنہ ای کا وہ ایران کہ جو ستم دیدہ انسانیت اور مظلوم و محکوم مسلمانوں کے لئے کامیاب عملی نمونہ بن چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 759980
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Russian Federation
موضوع اچھا منتخب کیا ہے لیکن کسی جالب نتیجے تک نہیں پہنچا سکے۔ مختلف خبریں جمع کر دی گئی ہیں۔ بہرحال نسبتاً اچھا کام ہے۔ جاری رہنا چاہیے، خصوصا ایران و امریکا کے مستقبل کے تعلقات پر کام ہونا چاہیے۔ شکریہ
Singapore
موضوعات کا قدرے مختلف ہونا ایک حد تک ضروری ہے البتہ اسلام ٹائمز کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے کہ جس میں برادر عرفان علی جیسے لوگ شامل ہیں۔ میں ایک طولانی عرصے سے اسلام ٹائم کا قاری ہوں بلکہ یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ پردیس میں میری معلومات کا ایک اہم سورس اسلام ٹائمز ہے۔
خدا اسے مزید ترقی عطا کرے۔
کچھ کالمز کے نیچے کمنٹس کی صورت میں نے منافقین کو متحرک پایا ہے۔ بزدل دشمن اسی طرح چھپ کر وار کیا کرتا ہے، اس لئے ایسے کمنٹس کی پرواہ نہ کریں۔
إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطانِ کانَ ضَعیفاً
شیطان کی چال کمزور ہے
United States
اسلام ٹائمز ہماری مشترکہ میراث ہے اور منافقین کا مقابلہ کرنا بھی ہماری مشترکہ ذمہ داری۔
ہماری پیشکش