1
0
Friday 9 Nov 2018 23:15

دہشتگردی کیخلاف جنگ کے بہانے افغانستان پر امریکہ کا فوجی قبضہ

دہشتگردی کیخلاف جنگ کے بہانے افغانستان پر امریکہ کا فوجی قبضہ
تحریر: علی احمدی

مشرق وسطی خطے میں امریکہ کی فوجی مداخلت افغانستان پر فوجی حملے سے شروع ہوئی۔ اس سے پہلے خطے میں امریکی فوجی موجودگی صرف خلیج فارس کے جنوب میں اپنے عرب اتحادی ممالک میں موجود چند فوجی اڈوں اور طیارہ بردار جنگی کشتیوں تک ہی محدود تھی۔ لیکن افغانستان پر فوجی حملے کے بعد خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی میں وسعت پیدا ہوئی۔ جیسا کہ دنیا کے جس مقام پر بھی امریکہ نے فوجی مداخلت کی وہاں غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کا تانتا بندھ گیا اور عوام کو بدامنی اور قتل و غارت کا تحفہ ملا، اسی طرح افغانستان میں بھی امریکہ کی فوجی موجودگی کا نتیجہ اسی صورت میں ظاہر ہوا۔
 
امریکہ نے 7 اکتوبر 2001ء کو سرکاری طور پر افغانستان کے خلاف فوجی چڑھائی کر دی۔ یہ حملہ نائن الیون واقعے کے بعد انجام پایا جس کی ذمہ داری امریکی حکام نے القاعدہ پر ڈالی اور افغانستان میں حکمفرما طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن ان کے حوالے کر دے۔ طالبان کی جانب سے اس امریکی درخواست کو مسترد کئے جانے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جرج بش نے افغانستان پر فوجی حملے کا حکم جاری کیا۔ یاد رہے امریکہ نے افغانستان پر حملہ اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر کیا۔ افغانستان پر امریکہ کی فوجی جارحیت نے سیاسی ماہرین اور عالمی سیاست سے آگاہ افراد کے ذہن میں یہ تاثر پیدا کیا کہ امریکہ اس جنگ کے ذریعے مغربی ایشیا اور قفقاز جیسے اسٹریٹجک خطے پر اپنا تسلط قائم کرنے کے درپے ہے۔ اس جنگ کی خاطر سب سے پہلے سی آئی اے کے ایجنٹس اور اسپشل فورسز کے افراد افغانستان میں داخل ہوئے۔ امریکی اسپشل فورسز "گرین بیرٹس" کے نام سے معروف ہیں۔ اسی طرح امریکی فوجی کی دیگر یونٹس سے وابستہ فورسز بھی افغانستان جنگ میں شامل ہو گئیں۔
 
جنگ کے ابتدائی مہینوں میں امریکہ نے زمینی کاروائی شروع نہ کی بلکہ زیادہ زور ہوائی حملوں پر ہی رکھا۔ امریکہ کی حکمت عملی یہ تھی کہ سی آئی اے کے اعلی سطحی تجربہ کار افسران کے ہمراہ اسپشل فورسز کے دستے طالبان مخالف فورسز کی مدد سے طالبان کے خلاف نبرد آزما ہوں۔ امریکی انٹیلی جنس افسران کا خیال تھا کہ طالبان اور القاعدہ نے تورا بورا پہاڑی سلسلے میں انتہائی مضبوط اور وسیع و عریض غاریں بنا رکھی ہیں جن میں اسلحہ کے ذخائر اور دیگر سہولیات موجود ہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ کابل سے شروع ہو کر پاکستان کی سرحد تک جا پہنچتا تھا۔ لہذا ان علاقوں کو امریکہ نے اپنے بی 52 بمبار طیاروں سے شدید بمباری کا نشانہ بنایا۔ آہستہ آہستہ امریکی فوجیوں اور افغان فورسز کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ جب امریکہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں تھا تو افغان فورسز نے دارالحکومت پر قبضہ کر کے ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ دوسری طرف امریکہ نے ایک طولانی مدت جنگ کا منصوبہ بنا کر افغانستان میں لمبے عرصے تک فوجی موجودگی کا ارادہ کر رکھا تھا۔
 
چند دنوں میں طالبان کے فوجی ٹھکانے مکمل طور پر تباہ کر دیئے گئے اور ان کا ایئر ڈیفنس سسٹم بھی ختم کر دیا گیا۔ دو ہفتے بعد افغان فورسز نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ فرنٹ لائن پر زیادہ حملے انجام دے۔ دوسری طرف طالبان کے حامیوں کی بڑی تعداد جو زیادہ تر پشتو زبان افراد پر مشتمل تھی ملک میں داخل ہو گئی اور امریکہ کے مقابلے میں طالبان کی مدد کرنے لگی۔ اس وجہ سے ملک کے بیشتر حصوں میں بدامنی پیدا ہو گئی اور سکیورٹی کی صورتحال ابتر ہونے لگی۔ افغانستان پر امریکہ کے فوجی حملے کا مقصد نہ تو اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنا تھا اور نہ ہی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کا بدلہ لینا تھا بلکہ امریکہ کا اصل مقصد افغانستان اور وسطی ایشیائی خطے میں امریکہ کا اثرورسوخ اور تسلط قائم کرنا تھا۔ افغانستان پر فوجی قبضے کے بعد امریکہ نے نہ صرف طالبان بلکہ مظلوم افغانی عوام کو بھی انتہائی خطرناک اور تباہ کن اسلحے کا نشانہ بنایا۔ امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان پر 40 روزہ بمباری کے دوران کلسٹر بمبوں اور 8 ٹن وزنی کروز میزائلوں کا وسیع استعمال کیا اور اس طرح افغانستان کے مسلمان عوام کے خلاف مجرمانہ اقدامات انجام دیئے۔
 
امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جارح قوتوں نے طالبان مخالف فورسز کے ہمراہ سی آئی اے کی رہنمائی میں پیشقدمی کرنا شروع کر دی۔ اس دوران شدید ہوائی حملوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بیگناہ انسان جاں بحق ہوئے۔ مزار شریف اور کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ عام انسانوں کا قتل عام اس قدر وسیع تھا کہ نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی اس پر اعتراض کیا۔ تیسیر علونی، کابل میں الجزیرہ نیوز چینل کے رپورٹر نے نومبر 2001ء میں وہاں سے فرار اختیار کرنے کے بعد کہا: "میں نے گذشتہ چند دنوں میں قتل و غارت اور مجرمانہ اقدامات کے جو مناظر دیکھے ہیں ان کا کبھی بھی تصور نہیں کیا تھا اور میں ان مناظر کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہوں کیونکہ وہ ناقابل بیان ہیں۔" 23 نومبر 2001ء کے دن ریڈیو آزادی امریکہ نے امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی کے بقول اعلان کیا: "امریکی انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے افغانستان کی زمینی جنگ میں مرکزی اور لیڈرانہ کردار ادا کیا ہے۔ زمینی جنگ کے دوران مختلف شہروں پر حملے میں سی آئی اے نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف آپریشن کی کمان سنبھالی ہوئی تھی۔"
 
یہ اعترافات ایسے وقت سامنے آئے تھے جب امریکہ کی سربراہی میں اتحادی افواج ابھی کابل نہیں پہنچی تھیں۔ اسی دوران اتحادی فوجیوں کی ایسی تصاویر شائع ہوئیں جن میں وہ انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے تھے۔ برطانیہ نے بھی بگرام میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کا اعلان کیا۔ افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی ایک فوجی جارحیت سے زیادہ طولانی مدت فوجی قبضہ قرار دیا جانا چاہئے۔ کیونکہ جرج بش کے بعد دو نئے امریکی صدر برسراقتدار آنے کے بعد بھی اب تک یہ فوجی قبضہ جاری ہے۔ امریکی فوجی افغانستان میں اپنے اخراجات پورا کرنے کیلئے منشیات کے دھندے میں مصروف ہیں۔

افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کے باعث اس قدر مجرمانہ اقدامات انجام پائے ہیں اور اتنے وسیع پیمانے پر منشیات کی کاشت اور خرید و فروخت انجام دی گئی ہے کہ افغانستان جیسے مسلمان ملک کا مستقبل تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ لہذا وہاں امریکہ کی فوجی موجودگی کو 18 سالہ جنگ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ امریکی حکمرانوں کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی افغانستان کی جان چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر امریکی وزیر دفاع جیمز مٹیس نے دسمبر 2017ء کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی مسلسل موجودگی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "افغانستان میں ہماری فتح ہر وقت سے زیادہ قریب پہنچ چکی ہے۔" ان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب 2002ء میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے کہا تھا: "افغانستان میں جنگ اختتام پذیر ہو چکی ہے۔"
 
افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی جو تاریخ کی طولانی ترین جنگ محسوب ہوتی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے انجام پائی ہے جبکہ اس کا اصل مقصد خطے میں امریکہ کے حریف ممالک جیسے چین، روس اور ایران کا مقابلہ کرنا ہے۔ افغانستان میں اس لمبے عرصے کے دوران امریکہ کے 2500 فوجی مارے بھی جا چکے ہیں جو امریکی فوج کی نظر میں ایک بڑی تعداد محسوب ہوتی ہے لیکن اپنے استعماری مقاصد کے تناظر میں امریکی حکومت کیلئے ان کی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکہ کے اندر جنگ کے خلاف ہونے والے اعتراضات پر بھی کوئی توجہ نہیں دیتا اور اگر بعض شخصیات اس احتجاج کو کچھ اہمیت دیتے بھی ہیں تو وہ صدارتی الیکشن کے قریب اپنی الیکشن مہم چمکانے کیلئے ہوتی ہے۔ امریکی حکام کی جانب سے افغانستان میں اتنے لمبے عرصے تک فوجی موجودگی کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس فوجی موجودگی کے کئی مقاصد کا اعتراف کر چکے ہیں۔
 
اسی طرح یہ حقیقت بھی واضح ہو چکی ہے کہ ان کی نظر میں دہشت گردی کا خاتمہ پہلی ترجیح نہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ امریکی حکام بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ افغانستان میں ان کی فوجی موجودگی کا مقصد ایک مضبوط حکومت کا قیام ہے۔ امریکہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جو اس کی مطیع ہو جبکہ عالمی قوانین کی رو سے ایسی کوشش افغانستان کے اندرونی معاملات میں واضح مداخلت ہے۔

امریکہ افغانستان کے تمام سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعبوں میں مداخلت کر رہا ہے جبکہ اس کے منفی نتائج افغانی عوام کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ افغان حکومت کئی بار امریکی فوجی کمان سے مطالبہ کر چکی ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی فوجی کاروائی انجام دینے سے پہلے انہیں اعتماد میں لے لیا کریں لیکن آج تک ان کا یہ مطالبہ منظور نہیں کیا گیا۔ امریکہ فوجی اب تک بے شمار ڈرون حملے انجام دے چکے ہیں جن میں بارہا بڑی تعداد میں بیگناہ افراد جاں بحق ہوتے ہیں اور وہ اسے فنی غلطی کا نتیجہ ظاہر کر کے مسئلہ ختم کر دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی جاری ہے اس وقت تک اس ملک میں پائیدار امن اور سیاسی استحکام معرض وجود میں نہیں آ سکتا۔
 
خبر کا کوڈ : 760234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
خطے کے حوالے سے فکر انگیز کالم۔بہے خوب اسلام ٹائمز
ہماری پیشکش