3
0
Saturday 10 Nov 2018 10:16

سوال یہ ہے کہ

سوال یہ ہے کہ
تحریر: اسماء طارق، گجرات
 
جب نئی حکومت آئی تو سب کو یوں لگا جیسے اب سب منٹوں میں بدل جائے گا، یہ لوٹ مار ختم ہو جائے گی، انقلاب آجائے گا۔ حکومت نے بھی آتے ہی بے شمار  وعدے اور دعوے کئے، جنہیں سن کر جہاں سب کے دل باغ باغ ہوئے، وہیں وہ لوگ بھی حمایت کرنے لگے جو پہلے مخالف تھے۔ امید کی اک فضا قائم ہوتی دکھائی دے رہی تھی جسے قائم رہنا چاہیئے۔۔۔ مگر جیسے ہی حکومت سنبھال لی جاتی ہے تو حالات کچھ بدل سے جاتے ہیں، یہاں پھر وہی لوگ آجاتے ہیں جو ماضی میں لوٹ مار کی داستانیں رقم کرچکے ہیں، مگر کہا جاتا ہے کہ موقع  دے کر آزمایا جا رہا ہے، دیکھتے ہیں کہ یہ آزمائش کیا رنگ دکھاتی ہے۔ عوام کو بس جلد از جلد تبدیلی چاہیئے، جس سے منٹوں میں ملک کی کایہ پلٹ جائے اور ایسی تبدیلی جو عوام کو ہاتھ پاؤں مارے بغیر مل جائے اور اس تبدیلی کے پروسس کا عوام پر اثر نہیں پڑنا چاہیئے، تب ہی عوام خوش ہے، وگرنہ عوام بگڑ جائے گی۔
 
 وزیزاعظم صاحب نے بھی آتے ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگائے  بغیر بڑے بڑے  وعدے کر دیئے تھے، شاید انہیں خود بھی حالات کی اس  سنگینی کی خبر نہ تھی، جس کا اب وہ بار بار ذکر کر رہے ہیں، اسی لئے انہیں اب ان تمام باتوں کے لئے آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے  اپوزیشن میں بیٹھ کر تنقید کرنا بہت ہی آسان ہوتا ہے، اس میں آپ کے پاس حکومت کو آئینہ دکھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا ہے، مگر  جب وہی اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اسے سمجھ آتی ہے کہ حالات صرف ایسے ہی نہیں ہیں، جیسے انہیں باہر سے  دکھائی دیتے ہیں بلکہ حالات اس سے مختلف بھی ہیں، جیسے وہ سمجھ رہے تھے۔ یہی ہوا موجودہ حکومت کے ساتھ۔ اب حکومت میں آکر انہیں صرف معاشی بحران کا ہی نہیں بلکہ اور بہت سی قوتوں کا سامنا بھی کرنا ہے، جس کے  وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے دباؤ سے جو ان کی وجہ سے حکومت پر ہے اور  شاید جن کی وجہ سے حکومت ہے۔

مگر سوال تو یہ ہے کہ ہر نکالا جانے والا حکمران کیوں چلاتا ہے کہ ادارے خود مختار نہیں ہیں، مگر جب وہ حکمران، حکمرانی کا تاج پہنے کرسی پر  براجمان ہوا ہوتا ہے تو تب وہ خاموش کیوں رہتا ہے، تب اسے اداروں کی خود مختاری کی بات یاد کیوں نہیں آتی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو تمام  ڈاکوؤں اور لٹیروں کو پکڑنے کے دعوے کرتے تھے، جب بات ان کے اپنے لوگوں کی آتی ہے تو حکومت میں آتے ہی ان کے لئے خاموشی کیوں اختیار کر لی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس آئی ایم ایف پر لعنت بھیجی جا رہی تھی، اب صبح شام اسی کے پاس جانے کی رٹ کیوں لگائی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر جو ایک دوسرے  کے جانی دشمن تھے، وہ اب ایک دوسرے کے دوست کیوں دکھائی دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام نے جسے خود منتخب کیا، اب اسی پر بھروسہ کرنے سے انکاری کیوں ہو رہی ہے۔ کیا  تبدیلی کا یہ عمل بہت صبر آزما ہے، یا ہم میں قوت برداشت نہیں ہے کہ حالات کا مقابلہ کر سکیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا عوام بھی اس تباہی کی کسی حد تک ذمہ دار نہیں ہے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ جیسی عوام ہوتی ہے ویسے حکمران ملتے ہیں، کیا حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اب سدھرنا نہیں چاہیئے۔  سوال یہ ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے، عوام یا حکمران۔ کیا ان سب حکمرانوں کو لانے والی عوام  ہی نہیں ہے اور ان کی خاطر لڑنے مرنے والی عوام ہی نہیں ہے۔ کیا اب ہمیں حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر نہیں کر لینا چاہیئے۔ عجیب بات ہے نا کہ ایک شخص جسے ہیرو کہا جاتا ہے، اس کی ایک آواز پر سب لبیک کہہ اٹھتے تھے، وہ شوکت خانم کے لئے چندہ مانگتا تھا تو منٹوں میں چندہ اکٹھا ہو جاتا ہے، پھر جب اسے اپنا حکمران منتخب کر لیا جاتا ہے اور جیسے ہی وہ کرسی پر بیٹھتا ہے تو  عوام کے جذبات بدل جاتے ہیں، اب جب وہ ڈیم فنڈ کے لئے کہتا ہے تو کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ دوسری طرف اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کی ٹیم میں خرابیاں ہیں، وہ اکیلا جو کچھ  کرسکتا تھا، وہ کر رہا ہے۔ ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں ہے کہ وہ وفادار ہے، مگر جہاں تک اس کے اردگرد کے لوگ ہیں، وہ بھی اس گندے تالاب کا حصہ ہیں، جس کا خاتمہ اس کا مشن ہے۔

عوام کو بھی صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ایک تو حکومت جیسا کہ وقت مانگ رہی ہے تو وہ اس کا حق ہے کہ اسے موقع دیا جائے۔ دوسرا اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت ابھی ناتجربہ کار ہے، اسے سب سمجھنے کے لئے وقت درکار ہے، مگر حکومت کو چاہیئے کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور وہ غلطیاں دوبارہ نہ دوہرائے جو دوسروں نے دوہرائی ہیں، وگرنہ حکومت کو کہیں سے پانی بھی ملنا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی سمجھنا ہے کہ تبدیلی  بچوں کا کھیل نہیں ہے اور اس کے لئے اچھی خاصی تگ و دو کی ضرورت ہے، ہمیں قدرت کے اصولوں سے سیکھنا چاہیئے کہ خدا ان کی مدد کرتا ہے، جو خود کوشش کرتے ہیں اور خدا نے انہیں قوموں کی حالت بدلی ہے جو اپنی حالت بدلنے کے حامی تھے۔ ہمارے سامنے قوموں کی تاریخ  واضح ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے، جو ہمیں بتاتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے  تبدیلی نہیں آنی ہے، اس تک بہت کوششیں درکار ہے۔ ہمیں بس خود کو  صحیح کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اپوزیشن کو یہ حق کہ وہ متحد ہو،  مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ملک کے لئے ہوتا تو بہتر نہ ہوتا۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 760358
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اس میں نشر کرنے کی کیا بات تھی، سوائے عمران خان کے خلاف چند باتوں کے۔ بس جہاں سے بھی ملے عمران خان کے خلاف ہو اٹھا کر پیسٹ کر لیا کریں، چونکہ مجلس وحدت کے ساتھ دشمنی نبھانے کا یہ آسان اور سستا طریقہ ہے۔
دیگ سے زیاده چمچه گرم، وحدتی صاحب!! کیا نیازی خان حکومت میں رشوت کے خلاف بولنے پر شهیده زائر امام حسین اور بهاولنگر میں مجلس امام حسین پر پولیس کے وحشیانه حمله اور خواتین کی بے حرمتی اور اس الزام خان حکومت کی سعودی عرب نواز پالسی پر بولنا بهی کیا وحدتی گروه کے خلاف هوگا؟!! صرف معاویه اعظم کے ساتھ تمهیں بیٹھانےکے اور اس نیازی خان نے بلآخرآپ لوگوں کو دیا هی کیا ہے، جس پر تم سیخ پا هو رہے ہو؟!!!!
محترمه اسماء صاحبه
بات کسی حد تک آپکی درست لیکن جس کا کام اس کو ساجهے پر عمل هو تو اچها ہے، اس نیازی خان جسے آپ ہیرو کہہ رہی ہیں، کهیل کود میں هیرو هوگا لیکن سیاست میں جب سے یه شخص آیا ہے صرف اور صرف الزام تراشی اور بیهوده زبان کے علاوه کوئی سنجیده بات اس کی زبان سے نہیں نکلی اور اس کی ٹیم کے تو کیا کہنے، کوئی مشرف کا یار رها تو کوئی زرداری کا هم نواله هم پیاله اور اب نیازی کا وزیر خارجه اور نائب چیئرمین تو کوئی مسلم لیگ کو چند دن پہلے خیر باد کہنے کے بعد وزیراعلیٰ بنا دیا گیا تو کسی بهیوده زبان استعمال کرنے والے کو وزیر ریلولے بنایا گیا تو کسی قاتل لیگ کے سربراه کو اسپیکر کے عهده سے نوازا گیا، لذا اس نیازی خان کی نگاه میں جب تک کوئی دوسری پارٹی کا حصه ہے تو چاہے وہ عام ورکر هی کیوں نه هو، اس خان کے بقول اور اسکی نظر میں گدها ہے اور جب وه اسکی پارٹی کا حصه بن جائے تو ملائکه سے بھی بھتر!!!
ہماری پیشکش