0
Monday 12 Nov 2018 10:46

خیبر پختونخوا میں تیزی سے بدلتے حالات

خیبر پختونخوا میں تیزی سے بدلتے حالات
رپورٹ: ایس علی حیدر

خیبر پختونخوا کے حالات تیزی بدلتے جارہے ہیں پہلے وزیراعلٰی محمود خان کے خلاف چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کی گئی جو خود پارٹی چیئرین اور وزیراعظم عمران خان کی مداخلت سے ناکام ہوگئی، جس کے بعد اب مولانا سمیع الحق کے بے رحمانہ قتل کے اثرات صوبے کی سیاسی فضاء پر بھی مرتب ہوئے جب تحریک لبیک کی طرف سے ملک بھر میں سڑکیں بند کرکے احتجاج کیا گیا۔ 2 نومبر کو راولپنڈی اسلام آباد میں موبائل فون سروس بھی معطل تھی کہ اچانک رات کو ایک لرزہ خیز خبر نے پورے ملک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں واقع ان کے گھر پر قتل کر دیا گیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور مولانا کے چاہنے والوں میں صف ماتم بچھ گئی، کیونکہ وہ نہ صرف اُن کیلئے ایک جید عالم دین، بہترین مدرس بلکہ فعال سیاستدان بھی تھے۔ مولانا سمیع الحق کی جماعت اور ان کے چاہنے والوں نے قتل کے خلاف بھر پور صبر کا مظاہرہ کیا اور تمام صورتحال کو نہایت مدبرانہ طریقے سے کنٹرول کیا تاکہ ملک اور بالخصوص صوبے کے امن کو بحال رکھا جاسکے۔

اگر صوبائی حکومت کے کپتان کی بات کی جائے تو وزیراعلٰی محمود خان نے 17 اگست کو اپنا منصب سنبالا تو خیال تھا کہ باہمی اختلافات کی سلگتی چنگاری اب بجھ جائے گی، خود محمود خان ایسی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں کہ اپنوں کیساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ان کیساتھ چلنے میں کوئی مسلہ نہیں، مگر بمشکل چند ماہ بعد ہی بعض حلقوں کی طرف سے افواہوں کا بازار گرم کر دیا گیا۔ غالباََ اس مرحلے میں ان حلقوں کی کوشش یہ نظر آرہی تھی کہ افواہیں پھیلا کر مرکزی قیادت کے موڈ کا اندازہ لگائیں اور پھر اس کی روشنی میں مزید کوئی حکمت عملی اختیار کی جائے، چنانچہ بڑے ہی منظم انداز میں سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا اور یہ افواہیں پھیلائی جانے لگیں کہ وزیراعظم عمران خان وزیراعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور وہ ان کو جلدی فارغ کرکے نیا وزیراعلٰی لانے والے ہیں۔ یہ افواہیں اس قدر تواتر کیساتھ پھیلائی گئیں کہ خود وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کو تردید کیلئے میدان میں آنا پڑا اور انہوں نے کھل کر واضح کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں اور بے بنیاد افواہیں پھیلانے والے ناکام رہیں گے۔

تاہم وزیراعلی محمود خان نے اس حوالے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پارٹی چیئرمین عمران خان کیساتھ ملاقات کی، جس میں تمام صورتحال پر بات ہوئی۔ اس موقع پر پارٹی چیئرمین نے ایک بار پھر وزیراعلٰی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان پر واضح کیا کہ وہی پانچ سال تک صوبائی حکومت کے کپتان ہیں اور کوئی بھی ان کی جگہ نہیں لے رہا، چنانچہ جب وزیراعلٰی پشاور لوٹ رہے تھے اور ایک نئے عزم اور اعتماد کیساتھ واپس آئے جس کے بعد اب انہوں نے بھر پور طریقے سے حکومتی معاملات نمٹانا شروع کر دیئے۔ ایک ایسے موقع پر کہ جب وزیراعلٰی کو منصب سنبھالے کچھ ماہ ہی ہوئے تھے ان کی تبدیلی کی افواہیں پھیلانے والے یہ بھول بیٹھے کہ حکومتیں اتنی جلدی نہیں بدلا کرتیں۔ ویسے بھی پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اس مرحلے پر کسی قسم کی مہم جوئی کی محتمل نہیں ہوسکتی کیونکہ وفاق میں بہت سے سنگین مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں جن سے نمٹنا ہی اصل چیلنج ہے۔

ان حالات میں خیبر پختونخوا کی مضبوط اور مستحکم حکومت کے کپتان کو ہٹا کر کوئی نیا پینڈورابکس کیونکر کھولا جاسکتا ہے۔ ان دنوں تو پی ٹی آئی کو اندرونی اتفاق و اتحاد کی پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے۔ مرکزی قیادت کو صورتحال کا ادراک تھا اس لئے وزیراعلٰی پر دوٹوک انداز میں اعتماد کا اظہار کرکے مہم جوئی کے خواہشمندوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، جس کے بعد اب صوبائی حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے کے معاملے میں پہلے سے کہیں پُراعتماد اور طاقتور نظر آتی ہے۔ گویا جس طرح پرویز خٹک نے پانچ سال پورے کئے، اسی طرح اب مرکزی قیادت کے مکمل آشیرباد سے محمود خان بھی پانچ سال پورے کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں اور اب ان کو اس پوزیشن سے پوری طرح سے فائدہ اٹھانا چاہیئے کیونکہ ان کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے جو پرویز خٹک کو نہیں تھی۔ ویسے بھی محمود خان کو اپنے ممبران اور وزراء کا اعتماد پہلے سے ہی حاصل ہے۔

انہوں نے روز اول سے ممبران کے ساتھ قریبی رابطہ رکھا ہوا ہے اور ان کیساتھ ملاقات میں بھی کسی ایم پی اے کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی، اس لئے ممبران اپنے کپتان سے مکمل طور پر مطمئن نظر آتے ہیں جس کا فائدہ کپتان کو ضرور اُٹھانا چاہیئے۔ اسی طرح محمود خان کے اپوزیشن کے ساتھ بھی تعلقات بہت خوشگوار ہیں، جس کا عملی مظاہرہ بجٹ اجلاس کے موقع پر دیکھنے میں آیا خیبر پختونخوا اسمبلی کا ماحول پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ رہا اور بعدازاں وزیراعلٰی کی اپوزیشن رہنماؤں کیساتھ طویل بیٹھک بھی ہوئی جس کی وجہ سے بجٹ کی منظوری کا مرحلہ باآسانی سر ہوگیا تھا، گویا نئی حکومت اپنی پہلی پارلیمانی آزمائش میں پوری طرح سے کامیاب ہوئی۔ جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ محمود خان اپنی انگز کامیابی کیساتھ مل کر پائیں گے۔ تاہم پی ٹی آئی کیلئے ایک بڑا مسئلہ پارٹی اور حکومتی عہدے یکجا ہونے کی وجہ سے سامنے آ رہا ہے۔ اس لئے انتخابی مہم میں ایسے افراد حصہ نہیں لے سکتے جس کا نقصان پارٹی امیدواروں کو پہنچا ہے۔

حکومت سازی کے بعد سے پارٹی عملاََ غائب ہوچکی ہے اسی لئے ان دنوں پی ٹی آئی کی قیادت حکومتی اور پارٹی عہدے الگ کرنے کے حوالہ سے سنجیدگی سے سوچ رہی ہے۔ اس صورت میں پھر پارٹی کو انٹرا پارٹی انتخابات کا مرحلہ سر کرنا ہوگا اور پارٹی اس حوالے سے جس قدر جلد فیصلہ ہو پارٹی اور کارکنوں کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ اگرچہ بعض عہدیداروں کی طرف سے اس تجویز کی مخالفت بھی کی جارہی ہے اسی لئے تاحال پارٹی اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی، اس فیصلے میں جتنی تاخیر ہوتی جائے گی پارٹی کیلئے مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی۔ دوسری جانب قومی وطن پارٹی نے یہ جمود توڑتے ہوئے گذشتہ دنوں پشاور میں تاسیسی جلسے کا اہتمام کیا۔ صوبائی دارالحکومت میں عام انتخابات کے بعد یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے پہلا عوامی شو تھا۔ درحقیقت کیو ڈبلیو پی انتخابات کے بعد سے کارکنوں کو متحرک رکھنے کی کوششوں میں عملی طور پر مصروف ہے تاکہ انتخابی شکست سے کارکنوں کا مورال مزید گرنے نہ پائے۔

پارٹی کے مرکزی سربراہ آفتاب شیرپاؤ اپنے چارسدہ کے حلقہ میں اظہار تشکر کے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرچکے ہیں، جبکہ صوبائی چیئرمین بھی کارکنوں اور وٹروں کیساتھ مسلسل رابطوں میں ہیں۔ چنانچہ اسی سلسلے میں پشاور میں اپنے یوم تاسیس پر جلسہ عام پر فیصلہ کیا گیا تھا جس میں پھر بڑی تعداد میں کارکنوں نے شرکت کی۔ اب پارٹی کا پروگرام ہے کہ تمام بڑے اضلاع میں بھی اس نوعیت کے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے بھی انٹرا پارٹی انتخابات کی تیاریاں شروع ہیں، جس کیلئے یکم نومبر سے رکنیت سازی مہم شروع ہوچکی ہے۔ اس سلسلہ میں صوبائی الیکشن کمیشن کے سربراہ سردار حسین بابک نے تمام اضلاع کیلئے الیکشن کمیشن تشکیل دے دیئے ہیں تاکہ تمام اضلاع میں فوری طور پر کنیت سازی مہم شروع کی جاسکے۔ اے این پی کا انتخابی کلچر بھی بہت مضبوط رہا ہے۔

پارٹی عہدوں کیلئے تسلسل کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں۔ اے این پی اسوقت اپوزیشن جماعتوں میں اس لحاظ سے سب سے آگے دکھائی دے رہی ہے کیونکہ گذشتہ دنوں صوبے میں صوبائی اسمبلی کے جن 10 علاقوں پر ضمنی الیکشن ہوئے ان میں سے 3 نشستیں اے این پی کے حصہ میں آئیں اور اس کے صوبائی اسمبلی کے ممبران کی تعداد بڑھ کر اب 11 ہوگئی ہے جبکہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ایم ایم اے کے مبران کی تعداد 13 ہے۔ صوبائی اسمبلی میں اے این پی ڈٹ کر اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اے این پی کارکنان مشکل ترین حالات میں بھی قیادت کے شانہ بشانہ ڈٹے رہے ہیں اور کارکنوں کی محنت کی وجہ سے ہی پارٹی کو منی الیکشن میں نمایاں کامیابیاں ملیں۔ ادھر جے یو آئی (ف) کے انٹراپارٹی انتخابات کا سلسلہ بھی جاری ہے اس سلسلے میں ابتدائی طور پر جو اختلافات سامنے آئے تھے ان کو بتدریج حل کیا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 760471
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش