0
Monday 12 Nov 2018 11:42

بچے ملک کا مستقبل ہیں!

بچے ملک کا مستقبل ہیں!
تحریر: عظمت علی
 
ہر دن کی اپنی ایک علیحدہ شان ہوتی ہے اور وہ اپنی جگہ ایک خاص مقام و منزلت رکھتا ہے۔ بعض ایام کسی نسبت سے منسوب ہو جانے  کے سبب اسی سے مخصوص ہو جاتے ہیں۔ جیسے 15اگست یوم آزادی ہند سے، 26 جنوری یوم جمہور ہند سے، 2 اکتوبر گاندھی جینتی سے اور 9 نومبر عالمی یوم اردو کے نام سے جڑا ہوا ہے۔ یہ وہ مخصوص ایام ہیں جن سے کوئی خاص واقعہ یا شخصیت جڑی ہوئی ہیں۔ اسی بناء پر انہیں اب تلک اسی تزک و احتشام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح 14 نومبر بھی ہے جسے "یوم اطفال "کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس طرح دیگر ممالک میں روز اطفال کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اسی طرح ہمارے عزیز وطن ہندوستان میں بھی پنڈت جواہر لعل نہرو کے یوم پیدائش کے موقع پر اس روز کو منایا جاتا ہے۔
 
ملک بھر میں مختلف گوشہ و کنار کے اسکول، کالج، یونیورسٹی اور دیگر مقامات پرم بچوں کے مستقبل  سنوارنے کے سلسلے میں اساتذہ، پروفیسر اور صاحبان علم و ادب حضرات اپنے مفید بیانات سے سامعین کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ'اپنے چشم و چراغ کی خوب سے خوب تر پرورش کرنے میں ہر ممکنہ کوشش کرتے رہیں۔ چونکہ آغوش مادر بچے کی سب سے پہلی اور سب سے عظیم  تعلیم گاہ ہوتی ہے، اگر وہاں سے اس کی صحیح پرورش ہوگئی تو پھر مستقبل روشن ہے
زبان طفل سے کھلتا ہے خاندان کا راز
ادب، شعور، سلیقے گھروں سے ملتے ہیں 
اس دن کو چاچا نہرو سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ آزادی ہند کے بعد پہلے وزیراعظم ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں سے بےلوث محبت اور بےحد پیار کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ "آج کے بچے ملک کا مستقبل ہیں، اس لئے ان کی پرورش پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔" بچوں کے سلسلے میں آپ کا بیان ہے کہ "ننھے معصوم بچے اور باغ میں کھلنے والی کلیاں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان کی پرورش بہت احتیاط اور پیار سے کی جانی چاہیئے کیوںکہ یہ ملک کے باشندے ہیں اور کل کا مستقبل ہیں۔" اقوام متحدہ نے 1959ء میں حقوق اطفال پر ایک اعلامیہ جاری کیا۔ جن ممالک نے اسے اختیار کرنے میں پہل کی ان میں سے ایک ہندوستان بھی تھا۔ 3  ابواب اور 54 شقوں پر مشتمل یہ اعلامیہ بچوں کےجینے کے حقوق، مناسب غذا، ان کی دیکھ بھال اور ان کے صحت یابی کی سہولیات کے متعلق تھا۔ مذکورہ دستاویز کی بناء پر ہندوستان نے 1974ء میں بچوں کے لئے ایک قومی پالیسی کا اعلان کیا۔ جس میں سات نکات اہم قرار پائے تھے۔
 
(1)۔ بچے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
(2)۔ ان کی دیکھ بھال کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
(3)، بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما کی سہولیات فراہم کرنا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
(4)۔ ترقیاتی منصوبوں میں بچوں، ماؤں اور خصوصا معذور بچوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
(5)۔ نیشنل فیملی کو تشکیل دیا جائے۔
(6)۔ بچوں اور ان سے متعلق تمام پہلوؤں کی دیکھ بھال کی جائے۔
(7)۔ بچوں کی تقریبات اور دیگر پروگرام کو فروغ دیا جائے۔
 
یہ نظریات بچوں کی پرورش میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ قوانین آج کاغذو ں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، آج ان پر گرد و غبار کی ضخیم تہہ جمی ہوئی ہے۔ آج ہمارے ملک کا یہ عالم ہو چلا ہے کہ ناداری اور مفلسی کے سبب بہت سے بچے تعلیم چھوڑ کر مزدور ی کو اپنا رہے رہیں اور مجبوراً صرف چند روزہ خوشی کے لئے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اگر آج بھی شعور بیدار ہو جائے اور بچوں کی نشونما پر توجہ دی جانے لگے تو آنے والا کل خوب سے خوب تر ہوتا چلا جائے گا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہنوز دہلی دور است، چونکہ امید پر دنیا قائم ہے اس لئے ناامید نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ہمیں اپنے تئیں بچوں کی تعلیمی ترقی پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے۔ ہماری اور آپ کی یہی کوشش ہونی چاہیئے کہ آج ہی سے فکر فردا میں محو میں ہو جائیں کہ کہیں دیر نہ ہو جائے!
  •  
خبر کا کوڈ : 760773
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش