1
0
Tuesday 13 Nov 2018 11:18

افغان امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار

افغان امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
 
افغانستان پاکستان کا ہمسایہ اور برادر مسلم ملک ہے، جو کئی دہائیوں سے ناامن ہے۔ افغانستان میں امن و امان کے حوالے سے بدترین صورتحال کا فائدہ پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت نے اٹھایا، اس کو افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا کھلا موقع مل گیا۔ تین ہزار کلو میٹر طویل اور کھلی سرحد بھارتی جاسوسوں، ایجنٹوں اس کے پروردہ اور تربیت یافتہ دہشتگردوں کیلئے پاکستان میں مداخلت کی خاطر استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان نے بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے باڑ لگانے کی پلاننگ کی اور اس پر کام بھی شروع ہو گیا، جس سے بھارت کوپاکستان میں دہشت گردی کے ناپاک عزائم اور مکروہ ارادے خاک میں ملتے دکھائی دیئے تو اس کے ایما پر افغان حکمرانوں نے بارڈر مینجمنٹ کی سختی سے مخالفت کی اور اس کی تعمیر وتنصیب کے دوران بارڈر پار سے حملے بھی کئے جا چکے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان پر نام نہاد جمہوریت کے ذریعے اپنا قبضہ مضبوط بنانے کی ہرممکن کوشش کی۔ افغان سپیشل گارڈز کو تربیت دی۔ انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مضبوط کیا مگر طالبان کی ہلاکت خیز کارروائیاں نہ رک سکیں۔
 
پاکستان کو کردار ادا کرنے کی کبھی دھونس دی اور کبھی درخواست کی گئی۔ پاکستان پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرانے میں کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ پاکستان نے کئی بار طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا اور مذاکرات ہوئے بھی تھے، مگر افغان انتظامیہ کی نیت میں فتور کے باعث مذاکرات بے سود رہے۔ امریکہ نے ہمیشہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نے سے انکار اور افغان انتظامیہ سے بات کرنے پر اصرار کیا تھا۔ اہم فیصلوں کے حوالے سے بے اختیار افغان انتظامیہ سے مذاکرات میں کامیابی کو احمقانہ امید ہی قرار دیا جا سکتا ہے اور پھر افغان انتظامیہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ دوسری طرف سے مذاکرات کیلئے افغانستان سے غیر ملکی طاقتوں کا مکمل انخلاء اولین شرط تھی۔ افغان میں قیام امن کے حوالے سے کئی عالمی فورمز بن چکے ہیں, مگر افغانستان میں امن کے قیام میں سرموپیشرفت نہیں ہو سکی، مگر اب منظر نامہ تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ امریکہ براہ راست طالبان کے ساتھ نہ صرف مذاکرات پر آمادہ بلکہ مذاکرات کر بھی چکا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ طالبان بھی مذاکرات کیلئے انخلا کی شرط پر زور نہیں دے رہے۔
 
ماسکو میں منعقد ہونے والی افغان امن کانفرنس میں پاکستان، طالبان اور بھارت کے نمائندے پہلی بار ایک ساتھ شریک ہوئے، اِس کانفرنس میں چین اور ایران سمیت بارہ ممالک کے وفود نے شرکت کی، افغان حکومت نے افغان امن کونسل کا وفد اور امریکہ نے ماسکو میں اپنے سفارت خانے کا نمائندہ مبصر کی حیثیت سے کانفرنس میں بھیجا، پاکستان کے تین رکنی وفد کی سربراہی ایڈیشنل سیکرٹری برائے افغانستان محمد اعجاز نے کی۔ بھارت نے بھی اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے غیر سرکاری سطح پر اپنے دو سابق سفیروں کو کانفرنس میں بھیجا۔ تاہم بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت افغانستان میں امن کوششوں کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ یہ مذاکرات افغان تاریخ میں نیا موڑ ثابت ہوں گے،کانفرنس میں افغان رہنماؤں اور طالبان وفد کی شرکت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو امریکہ نے دنیا کے کونے کونے سے جہادیوں کو اس کے مقابل لاکھڑا کیا تھا۔ پاکستان سے بھی کئی لوگوں کو  ان قافلوں میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ امریکہ کے تعاون سے جہادی اپنے مقاصد اور تفویض کردہ مشن میں کامیاب ہوئے۔ پوری دنیا سے جمع ہونیوالے یہ دستے روس کے خلاف جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ سمجھ کرلڑ رہے تھے۔ انہیں یہی باور کرایا گیا۔ پھر نائن الیون کے بعد امریکہ نے وہی کچھ کیا جو روس نے کیا تھا، بلکہ روس سے بھی کچھ زیادہ کیا۔

روس کو افغانستان کی سیاسی قیادت نے قدم جمانے کی گنجائش دی تھی، جبکہ امریکہ ایک جارح بن کر قابض ہوا تھا۔ امریکی حملے کو بھی کفر اور اسلام کی جنگ سمجھا گیا، مگر اب امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیدیا۔ امریکہ کی اس دن سے اب تک دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ جاری ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کر لیا، مگر امن ایک دن کیلئے بھی بحال نہ ہو سکا۔ حامد کرزئی کو صدر منتخب کرایا گیا ان کی دو ٹرموں میں امن و امان کی صورت حال مزید بگڑ گئی۔ 2014ء میں اشرف غنی اقتدار میں آئے، تو بھی کسی قسم کی بہتری نہ آ سکی۔ امریکہ نے جس طرح نائن الیون کے فوری بعد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، افغانستان میں سرگرم طالبان نے امریکہ اور افغان انتظامیہ کے امن کے قیام کے انتظامات کو تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ آج طالبان دوبارہ کئی صوبوں پر قابض ہو چکے ہیں، جو افغان انتظامیہ کے زیر تسلط علاقے ہیں، ان میں بھی حکومتی رٹ مفقود ہے۔ امریکی سامراجیت کابل شہر کے اندر تک سمٹ چکی ہے۔ کابل میں بھی امن و امان کی صورتحال کوقابل رشک تو کیا اطمینان بخش بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ افغان انتظامیہ اور امریکی حکام سکیورٹی کے سات پردوں میں بھی محفوظ نہیں۔
 
روس کچھ عرصے سے افغانستان میں امن کے لئے جو کوششیں کر رہا ہے۔یہ اگرچہ امریکی کوششوں کے متوازی ہیں تاہم ان مذاکرات میں مبّصر کی حیثیت سے امریکی نمائندے کی شِرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کو بھی مذاکرات کی روح سے کوئی اختلاف نہیں اور اگر یہ معاملہ آگے بڑھتا ہے تو عین ممکن ہے امریکی شمولیت زیادہ بہتر انداز میں ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کانفرنس میں طالبان کے وفد نے بھی شرکت کی ہے، جو اس سے پہلے کہیں بھی افغان حکام کے ساتھ بیٹھنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ اگرچہ طالبان کا موقف اب بھی یہ ہے کہ وہ کابل کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے اور امریکہ کے ساتھ بھی اِسی صورت میں شریک مذاکرات ہوں گے، جب وہ اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لے گا، یہ طالبان کا دیرینہ موقف رہا ہے، جس میں اب تک تو کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، تاہم اگر روس کی میزبانی میں امن مذاکرات کا یہ سلسلہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا رہا تو عین ممکن ہے طالبان کا موقف بھی نرم ہو جائے یا کم از کم اتنا ضرور ہو کہ امریکہ اور افغان حکومت کے نقطہ ہائے نظر میں کوئی ایسا مقام اتصال آ جائے جو مذاکرات کو مہمیز لگا کر آگے بڑھا سکے، بھارت بھی اگرچہ غیر سرکاری سطح پر شریکِ کانفرنس ہوا ہے، جس سے اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسے بھی افغانستان میں امن سے دلچسپی ہے۔

افغانستان میں امن ہی بنیادی طور پر ایشیا میں امن کا ضامن ہے اور عشروں سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اس کا مثبت اثر خطے کے دوسرے ممالک پر بھی پڑتا ہے اور افغان بدامنی منفی طور پر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے،پاکستان پر تو اس کا اثر براہِ راست ہوتا ہے،کیونکہ آج بھی لاکھوں افغان مہاجر پاکستان میں مقیم ہیں اور ہزاروں ایسے بھی ہوں گے،جنہوں نے کسی نہ کسی طرح پاکستان کی شہریت بھی حاصل کر لی ہے اور پاکستان کے پاسپورٹ پر افغان باشندے دوسرے ممالک میں بھی جا چکے ہیں،1979ء میں مہاجر پاکستان آئے تھے ، جو اُس وقت بچے تھے وہ اب اپنی عمر کا نصف سے زیادہ سفر پاکستان ہی میں طے کر چکے ہیں اور اُن کی نسلیں یہیں پروان چڑھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تو ان کو پاکستانی شہریت تک دینے کی بات کر دی ہے۔اگرچہ اس پر اختلاف رائے موجود ہے تاہم پشتون آبادی وزیراعظم کی اس رائے سے اتفاق کرتی ہے،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس حد تک افغانستان کے امن اور بدامنی سے جڑا ہوا ہے اِسی لئے اس نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا اور یہ خواہش رکھی ہے کہ افغانستان میں امن و امان ہونا چاہئے۔
 
اس مقصد کے لئے پاکستان نے ہمیشہ اپنی سی کوششیں کی ہیں, اب اِن کوششوں میں روس نے امکانات کا ایک نیا باب وا کیا ہے، کیونکہ روس کو بھی ادراک ہے کہ سالہا سال سے جاری امریکی کاوشیں اِس ضمن میں برگ و بار نہیں لا سکیں اور صدر ٹرمپ تو اب اس مسئلے کو فوجی قوت سے حل کرنے کی بات کرنے لگے ہیں، حالانکہ خود اُنہیں اور اُن کے جرنیلوں کو معلوم ہے کہ یہ مسئلہ اگر سترہ سال میں فوجی قوت کے ذریعے حل نہیں ہوا تو اب کیسے ہو گا۔ امریکہ کو بھی یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ فوجی قوت کے ذریعے حل تو ناکام ہو چکا ہے، روس کو پہلے سے اس کا تجربہ ہے کہ وہ بھی افغانستان کی آگ میں اپنے پاؤں جلا کر یہ سبق سیکھ چکا ہے. روس کو اب یہ بھی محسوس ہو چکا ہے کہ پاکستان خطے کا ایک ایسا اہم مُلک ہے، جو افغان امن میں اپنا کردار رکھتا ہے۔ جہاں تک افغانستان کی موجودہ انتظامیہ کا تعلق ہے اسے تو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی افواج کے جانے کے بعد اس کا اقتدار ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جائے گا، اِس لئے تمام چھوٹے بڑے ممالک کا مفاد اسی میں ہے، انہیں امن کے لئے اپنا پندار کا صنم کدہ ویران کرنا پڑتا ہے، تو یہ کوئی زیادہ قیمت نہیں ہے، امن کے لئے روس کے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کا خیر مقدم کرنا چاہئے اور یہ امید رکھنی چاہئے کہ ماسکو مذاکرات کا یہ سلسلہ بالآخر ایشیا کے امن کی نوید لے کر آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 760866
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام. چھاگئے سردار صاحب دی گریٹ. لیکن اتنی مشکل اردو پندار کا صنم کدہ سے تو ہم جیسے لوگ ڈر جائیں گے. خیر ایک اچھا زاویہ نظر ہے آپکا. التماس دعا
ہماری پیشکش