7
Thursday 15 Nov 2018 00:30

لبنان میں نئی حکومت کے قیام میں رکاوٹ کون؟

لبنان میں نئی حکومت کے قیام میں رکاوٹ کون؟
تحریر: عرفان علی

لبنان و عراق کے پارلیمانی انتخابات کے نامطلوب نتائج کی وجہ سے امریکی اتحاد کے بعض منصوبوں میں تعطل آگیا تھا۔ اس اتحاد کی جانب سے کوشش کی گئی کہ کسی طرح حکومت سازی کے عمل پر اثر انداز ہوکر اپنے نامکمل ایجنڈا کو آگے بڑھائیں، لیکن عراق میں انکی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی تو اب لبنان کی حکومت سازی کے عمل پر امریکی، سعودی و صہیونی اتحاد کی توجہ مرکوز ہوچکی ہے۔ اسی سال ماہ مئی کے پہلے ہفتے میں لبنان اور دوسرے ہفتے میں عراق کے پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ چونکہ لبنان کے مخصوص سیاسی نظام کے تحت لبنان کا وزیراعظم سنی ہونا لازمی ہے، اسی لئے مئی کے آخری ہفتے میں صدر میشال عون نے نومنتخب اراکین پارلیمنٹ اور نمائندہ پارلیمانی بلاک کے زعماء سے مشاورت کرکے سعد حریری کو وزیراعظم نامزد کرکے حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔ سعد حریری تاحال اپنی ممکنہ تیس رکنی کابینہ کے وزراء چننے میں ناکام رہے ہیں۔ حکومت سازی کے اس تعطل کے ذمے دار انکے اپنے دوست اور اتحادی مارونی مسیحی سمیر جعجع تھے، جو پانچ من پسند وزارت اور نائب وزیراعظم کا عہدہ مانگ رہے تھے اور اب تین وزارتوں اور نائب وزیراعظم کے ایک عہدے پر راضی ہوئے ہیں۔ انکے دوسرے اتحادی ولید جنبلاط تاحال ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ دوسرے دروز سیاستدان طلال ارسلان کو انکی علیحدہ حیثیت میں دروزی فریقے کے کوٹہ سے وزارت نہ دے دی جائے، اس طرح وہ دروزیوں کے بلا شرکت غیرے قائد نہیں رہ پائیں گے۔

لیکن سعد حریری کی نئی کابینہ کی تشکیل میں اب وہ خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں، کیونکہ اس مرتبہ بعض ایسے سنی اراکین منتخب ہوئے ہیں، جو سعد حریری کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور کابینہ میں اپنا الگ حصہ جو فقط ایک وزارت ہے، مانگ رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اصطلاح میں کہوں تو لبنان کی سیاست کا ’’سنی کارڈ‘‘ جو سعد حریری یا انکی جماعت المستقبل کے پاس ہوا کرتا تھا، اب اس طرح استعمال نہیں ہو پائے گا جیسا کہ ماضی میں اس جماعت یا حریری کی طرف سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ کم از کم اگلے انتخابات تک سنی نمائندگی پر انکی اجارہ داری نہیں ہوگی۔ القوات اللبنانیہ کے سمیر جعجع نے شروع سے یہ مطالبہ کر رکھا تھا کہ نئی کابینہ میں مارونی مسیحی نمائندگی میں انکو زیادہ حصہ دیا جائے اور اس کے لئے لبنان کے صدر کا خصوصی حصہ یا تو ختم کیا جائے یا کم کر دیا جائے اور ساتھ ہی فری پیٹریاٹک موومنٹ کا حصہ بھی کم کر دیا جائے۔ انہوں نے من پسند وزارتوں کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ لبنان کے موجودہ صدر میشال عون ہیں، جن کا تعلق فری پیٹریاٹک موومنٹ سے ہے جبکہ انکی جماعت کی صدارت انکے داماد جبران باسل کر رہے ہیں اور انکی جماعت ہی مارونی مسیحیوں کی سنگل لارجیسٹ پارٹی ہے، لیکن سمیر جعجع کی پارٹی بھی ماضی کی نسبت زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے۔ پانچ ماہ کے تعطل کے بعد 29 اکتوبر کو انہوں نے پریس کانفرنس میں قومی مفاہمت کے نتیجے میں تشکیل پانے والی نئی حکومت میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ انکی جماعت کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت کو تین وزارتیں بشمول محکمہ امور سماجی بہبود، ثقافت اور محنت کے ساتھ ساتھ نائب وزیراعظم کا عہدہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ یوں مارونی مسیحیوں نے اپنے اندرونی اختلافات کا حل ڈھونڈ کر اپنے حصے کا کام کر دیا ہے لیکن سنی نمائندگی پر تنازعہ برقرار ہے۔

نامزد وزیراعظم سعد حریری غیر ملکی دورے سے وطن واپس لوٹ چکے ہیں اور وہاں انہوں نے پریس کانفرنس میں جوشیلی تقریر کرکے کابینہ میں سنی نمائندگی کے تنازعے کو حزب اللہ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ نومنتخب سنی اراکین پارلیمنٹ جن کا تعلق حریری کی سیاسی جماعت سے نہیں ہے، وہ حزب اللہ کے اتحادی ہیں اور لبنان کی ممکنہ تیس رکنی کابینہ میں سنی کوٹہ سے محض ایک وزارت کے طلبگار ہیں۔ سعد حریری نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لبنان کے سنیوں کے بابائے قوم وہ خود ہیں اور اس حیثیت میں وہ جو چاہیں کریں، جسے چاہیں وزارت دیں، جسے چاہیں نہ دیں، انکی مرضی ہے۔

مغربی و سعودی نواز ذرایع ابلاغ اس صورتحال کو اس زاویئے سے پیش کر رہے ہیں جیسے اس مطالبے کی وجہ سے حزب اللہ کا کردار منفی ہے، لیکن حزب اللہ کے ایک رکن پارلیمنٹ نے حریری کی پریس کانفرنس سے پہلے ہی بہت ہی مہذب لب و لہجے میں کہا تھا کہ المستقبل سے تعلق رکھنے والے ہمارے سنی بھائیوں کو سوچنا چاہئے کہ جس طرح حزب اللہ تنہا لبنان کے سارے شیعوں کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ نبیہ بری کی امل کو بھی شیعوں نے پارلیمانی نمائندگی کے لئے چنا ہے تو ہمارے ان سنی برادران کو ہم شیعوں سے ہی کچھ سیکھ لینا چاہئے کہ ہم کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر انہوں نے سعد حریری اور انکی جماعت سے وسعت قلبی کی درخواست کی ہے۔

اب یہ مسئلہ اسی طرح حل ہوسکتا ہے کہ یا تو حزب اللہ یا اسکے سنی اتحادی وزارت کے دعوے سے دستبردار ہو جائیں، سعد حریری انکا مطالبہ مان لیں یا پھر صدر میشال عون اپنے کوٹہ سے ایک وزارت ان کو دے دیں۔ بعض افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ آزاد سنی اراکین پارلیمنٹ پہلے ایک بلاک کی صورت میں یکجا ہوکر صدر سے اس وقت ملتے جب میشال عون نے مشاورت کے لئے ملاقاتیں کیں تھیں تو زیادہ اچھا ہوتا، لیکن یہ اس وقت انفرادی حیثیت میں ملے تھے، حالانکہ انفرادی حیثیت ہی میں دیگر بھی ملے تھے۔ سعد حریری نے سابق وزیراعظم نجیب میقاتی کو وزیر بنانے کا آسرا دیا ہے۔ میشال عون کے بھتیجے آلان عون نے سنی نمائندگی کے معاملے پر حزب اللہ کے رہنما کے موقف کی تائید کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ حسن نصراللہ کی باتوں سے واضح ہوگیا کہ اس مسئلے کا حل ناممکن نہیں ہے۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ پہلے ہی کہہ چکے کہ لبنان چلانے کے لئے زیادہ سے آٹھ تا دس وزراء ہی کافی ہیں اور وہ اس طرح لئے جاسکتے ہیں کہ ساری جماعتوں کی نمائندگی بھی ہو جائے، لیکن اس کے باوجود بعض حلقے تیس رکنی کابینہ چاہتے ہیں تو پھر کیوں نہ اس طرح کر لیا جائے کہ کابینہ بتیس رکنی ہو اور اس میں (نئی) سنی نمائندگی بھی شامل ہو۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ مطالبہ نئے وزیراعظم کی نامزدگی کے دن سے ان کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ صدر میشال کے کوٹہ سے وزارت دی جائے بلکہ نامزد وزیراعظم اپنے حصے میں سے ایک وزارت دیں۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ انکے اور صدر میشال عون کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ انکے تعلقات پہلے کی طرح مستحکم ہیں۔

انہوں نے پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی کے قائد ولید جنبلاط کے الزامات کے جواب میں کہا کہ کابینہ کی تشکیل میں تعطل کے ذمے دار جنبلاط خود ہیں۔ یاد رہے کہ دروزی فرقے سے تین وزراء کے حوالے سے جنبلاط ویٹو پاور چاہتے ہیں اور ایک اور دروز سیاستدان طلال ارسلان کو وزیر بنائے جانے پر اعتراض کرتے آرہے تھے۔ جہاں تک حزب اللہ کا تعلق ہے تو وزارتوں کے حوالے سے انکی جانب سے وزارت صحت پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ امریکی، سعودی و اسرائیلی لابی کی طرف سے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ امریکی حکومت نے لبنانی ریاست کو بتا دیا ہے کہ اگر حزب اللہ کو وزارت صحت دی گئی تو امریکی پابندیوں کا اطلاق لبنان کی ریاست و حکومت پر بھی ہوگا۔ امریکی وزارت خارجہ نے منگل 13 نومبر کو حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے بیٹے جواد نصر اللہ کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

حزب اللہ کو امریکی حکومت نے سال 1997ء سے ہی دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ امریکی حکومت تنظیموں اور شخصیات کو عالمی سطح کا دہشت گرد قرار دینے کے لئے دو اصطلاحات استعمال کرتی ہے، ایک ایف ٹی او یعنی فارین ٹیررسٹ آرگنائزیشن اور دوسری ایس ڈی جی ٹی یعنی اسپیشلی ڈیزینیٹڈ گلوبل ٹیرسٹ۔ جواد کے والد حسن نصر اللہ کو پہلے ہی اس زمرے میں امریکی حکومت نے ڈال رکھا ہے۔ حزب اللہ سے تعلق کا الزام لگا کر فلسطین کی المجاہدین بریگیڈ پر بھی امریکی دفتر خارجہ نے پابندی کا اعلان کیا ہے۔ جواد نصر اللہ اور اس تنظیم پر امریکہ کا الزام یہ ہے کہ یہ اسرائیل پر حملوں میں ملوث ہیں۔ منگل 13 نومبر کو ہی امریکی محکمہ خزانہ نے حزب اللہ کے مالی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات میں توسیع کی ہے۔ چار افراد پر یہ الزام لگایا گیا کہ انکا تعلق حزب اللہ لبنان سے ہے اور یہ عراق میں رقوم کی ترسیل، اسلحے کے حصول اور فائٹرز کی تربیت میں ملوث ہیں۔ ان میں شبل محسن عرف عبید الزیدی پر الزام ہے کہ وہ پاسداران اور حزب اللہ کے مابین عراق میں رابطہ کار ہے۔ امریکی حکومت کا الزام ہے کہ الزیدی کا حزب اللہ کے ایک فائنانشر سے قریبی تعلق ہے اور وہ شام تک ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں بھی ملوث ہے، انکو بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے۔

امریکی حکومت نے لبنان میں تین افراد کو پکڑوانے میں مدد کرنے والے کے لئے پچاس لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے۔ تین میں سے ایک حماس کے صالح العروری پر الزام ہے کہ وہ ایران اور حماس کے مابین رابطہ کار ہیں اور مغربی کنارے میں تین اسرائیلی لڑکوں کے قتل میں ملوث ہیں، جبکہ ان ہلاک شدگان میں سے ایک نفتالی فرینکل امریکی و اسرائیلی دہری شہریت کا حامل تھا۔ دیگر دو مطلوب افراد میں خلیل یوسف حرب اور ھیثم طباطبائی پر امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں حزب اللہ کے عسکری آپریشنز کے ذمے دار ہیں۔ جیسا کہ ہم نے مئی میں کہا تھا کہ امریکی حکومت نے جو کیلکیولیشن کر رکھی تھی، وہ لبنان و عراق کے پارلیمانی انتخابات خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایران کو اپنا دوست، اتحادی اور مددگار سمجھنے والوں کی شکست کی توقع تھی، جبکہ لبنان و عراق کے عوام نے امریکی، سعودی و صہیونی اتحاد کی خواہشات کے بالکل برعکس ایران کو دوست سمجھنے والوں کو پارلیمنٹ میں عددی برتری دلوا دی۔ لبنان و عراق کی نئی حکومت کی تشکیل کے عمل پر بھی امریکی اتحاد اثر انداز رہا، لیکن عراق میں بھی اسکو مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔

اب لبنان کی حکومت کی تشکیل رہ گئی تھی تو امریکی حکومت نے ایران پر نئی پابندیوں کے اطلاق کے ساتھ ساتھ ایران کے لبنانی، عراقی و فلسطینی اتحادیوں کو ہدف بنانا شروع کر دیا۔ اب لبنان کی ریاست و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے دیگر فریقوں کو حزب اللہ سے دور رہنے اور حزب اللہ کو دور رکھنے پر تاکید کی جا رہی ہے۔ امریکی پابندیوں کا مطلب یہ کہ امریکی مالیاتی نظام سے منسلک ان شخصیات کے اگر کوئی اثاثے ہوں گے تو منجمد کر دیئے جائیں گے اور کوئی بھی امریکی ان کے ساتھ لین دین نہیں کرسکے گا۔ یعنی لبنان کے لئے امریکہ کی دھمکی یہ ہے کہ حزب اللہ کو حکومت میں حصہ دیا تو لبنان کو بھی امریکی پابندیوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ امریکہ کا ہدف ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی یہی ہے کہ ہر طریقے سے جعلی ریاست اسرائیل کا دفاع کیا جائے۔ ایک ادنیٰ صحافی کی حیثیت سے یہ اپ ڈیٹ قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ چونکہ یہ لڑائی ابھی جاری ہے، اس لئے کسی نتیجے تک اسکو پہنچانا میرے بس کی بات نہیں ہے بلکہ یہ متعلقہ فریقین پر منحصر ہے کہ اسکو کس انجام تک پہنچاتے ہیں۔ لبنان امریکہ تعلقات یا امریکہ و ایران تعلقات کے مستقبل پر بھی ان ممالک کو خود ہی فیصلہ کرنا ہے، ان تعلقات کا مستقبل بھی انہوں نے ہی متعین کرنا ہے۔ ایک صحافی و تجزیہ نگار سے یہ نہ چاہا جائے کہ وہ ممالک کے تعلقات کی سمت کا تعین کرے بلکہ جو کچھ ہے، اس کو درست طور بیان کر دینا ہی کافی سمجھا جانا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 761275
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش