1
0
Thursday 15 Nov 2018 13:38

اور نکاح ٹوٹ گیا

اور نکاح ٹوٹ گیا
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

بہت سے سوالات ایسے ہوتے جن کو انسان لغو سمجھتا ہے، جواب تو دور کی بات ان سوالات کے بارے میں سوچنا بھی وقت کا ضیاع اور بعض اوقات لطیفہ لگتا ہے۔ معاشرے میں غلط فہمیاں عام ہیں، ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ایک دوسرے خلاف باتیں تراشی جاتی ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ہم بچوں کو ایسی تربیت دیتے ہیں جس سے وہ دوسروں سے نفرت کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے منفی طرز عمل رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سکھایا جاتا ہے کہ فلاں گستاخ رسولﷺ، فلاں گستاخ صحابہ اور فلاں گستاخ اہلبیتؑ ہے اور اس کی اس قدر تکرار کی جاتی ہے کہ بچوں کے دلوں میں ہر مخالف مسلک کے بارے میں یہ رائے پختہ ہو جاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی درجے کے گستاخ ہیں، اس لئے ان سے نفرت ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں مجموعی انتہا پسندی کی وجہ یہی ہے۔

 ایک حکایت یار آرہی ہے، کہتے ہیں کسی بادشاہ کے سامنے ایک مجرم پیش کیا گیا، بادشاہ نے اسے سزائے موت کا حکم دیا، جیسے ہی اس نے سزائے موت کا حکم سنا بادشاہ کو گالیاں دینے لگا، بادشاہ نے اس کے سامنے بیٹھے وزیروں سے پوچھا کیا کہہ رہا ہے؟ تو عقل مند وزیر نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت یہ فریاد کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بادشاہ سلامت کی رحمدلی میں مثال نہیں، ان کی بادشاہت قائم رہے، میں اپنے کئے پر شرمندہ ہوں اور معافی کا طلب گار ہوں۔ بادشاہ نے یہ سنا تو بہت حیران ہوا اور کہا کہ عجیب شخص ہے، میں نے اسے سزائے موت دی ہے اور یہ مجھے دعائیں دے رہا، اس نے  اعلان کیا کہ میں اس کی سزائے موت معاف کرتا ہوں۔ بادشاہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ حاسد وزیر کھڑا ہوا اور کہا کہ بادشاہ سلامت، بادشاہ کی محفلوں میں بیٹھنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حقیر لوگوں کے لئے جھوٹ بولیں، اس خسیس نے حضرت والا کی شان میں گستاخی کی ہے اور حضرت کو سب و شتم کا نشانہ بنایا ہے۔ بادشاہ تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور وہ تاریخی جملہ کہا کہ اس کا جھوٹ تیرے سچ سے بہتر ہے، کیونکہ اس کا جھوٹ ایک جان بچا رہا ہے اور تیرا سچ ایک جان کے درپے ہے۔ کبھی کبھی تو پورا معاشرہ ہی حاسد اور جھوٹا لگتا ہے، لوگ دوسرے کے خلاف فساد کی بات کرتے ہیں اور اس کی بنیاد بھی جھوٹ ہوتی ہے۔

اب یہ چنیوٹ میں ہونے والا واقعہ ہی ملاحظہ کر لیں، دیہی زندگی میں  عزت کو بہت اہم مقام حاصل ہے(یہ بات ان لوگوں کے لئے لکھی، جو غیرت  کے مغربی تصور کے تابع ہو کر مشرقی غیرت کو ایک نفسیاتی بیماری سمجھتے ہیں) لوگ بڑے رسم و رواج کے بعد معاشرتی بندھن میں بندھتے ہیں۔ نکاح ایک بہت ہی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے، مذہبی جہالت نے نکاح پر حملہ کیا ہے کہ جن لوگوں نے مخالف مسلک کی  خاتون کا جنازہ پڑھا ہے، ان سب کے نکاح ٹوٹ گئے ہیں۔ نکاح ایک شرعی تعلق ہے، جس کے قائم ہونے اور جس کے ٹوٹنے کے پیمانے شریعت میں  بیان کر دیئے گئے ہیں، یہ کسی محفل میں شرکت کرنے، کسی چیز کے کھانے پینے، کسی جلوس میں چلے جانے یا کسی جنازہ جیسی تقریب دعا میں شرکت کر لینے نہیں ٹوٹتا۔

یہاں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا، اگر کوئی غیر مسلم فوت ہو جائے تو کیا اس کی نماز جنازہ میں شرکت سے نکاح ٹوٹ جائے گا؟ یقیناً ایسا نہیں ہے، چند سال پہلے جرمنی سے پاکستان تشریف لائی ہوئی ڈاکٹر رتھ کراچی میں وفات پا گئی تھیں، ان کا مذہب مسیحیت تھا اور انہوں نے جرمنی کی پرآسائش زندگی چھوڑ کر پاکستان میں کوڑھ جیسے مرض کے خلاف جنگ لڑی اور اسے شکست دی تھی۔ جب اس  خاتون کا انتقال ہوا تو ہماری تمام سیاسی جماعتوں کی قومی قیادت نے اس کے جنازہ میں شرکت کی تھی اور اس کی خدمات پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اس وقت چند جہلا کی بے سروپا باتوں کے علاوہ پوری پاکستانی قوم نے ان کو سراہا تھا۔ یہ معاشرتی رویہ ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو علاقہ کے رہنے والے رشتہ دار اور محلہ دار تجہیز و تکفین کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اس سے باہمی تعلقات کو فروغ ملتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ کا مشاہدہ کیا جائے تو کلمہ گو مسلمان تو اپنی جگہ آپﷺ غیر مسلموں کے جنازوں کے گذرنے پر بطور احترام کھڑے ہو جایا کرتے تھے، صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہﷺ یہ تو غیر مسلم تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بطور انسان غیر مسلموں کے جنازوں کو بھی احترام حاصل ہے۔

اس گاوں میں ہونے والا جنازہ بھی ایک روایتی جنازہ تھا، جس میں دیہاتی لوگ شریک تھے، جب وہ گھروں کو آئے تو ایک جاہل مولوی کی شرارت کی وجہ سے ان کی سادہ لوح بیویاں ان سے دور ہوگئیں اور بچے الگ سے پریشانی کا شکار ہوگئے کہ یہ کیا مصیبت ہے؟ جنازہ پڑھنے سے دائرہ اسلام سے خارج کیا جا رہا ہے۔ ابن انشاء مرحوم یاد آرہے ہیں، ان کا  لکھا ایک مضمون "دائرے" میٹرک میں پڑھا تھا، وہ لکھتے ہیں کہ دائروں کی کئی اقسام ہیں، جن میں سے ایک دائرہ اسلام کا دائرہ ہے، جس میں پہلے لوگوں کو داخل کیا جاتا تھا، مگر مدت ہوئی داخلے کا کام بند ہوچکا ہے، اب صرف نکالنے کا کام ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کے زعم باطل کے مطابق بھی یہ لوگ کافر ہوچکے ہیں، یہ جہالت کی انتہا ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہو کہ بھئی یہ کام غلط ہے یا جائز نہیں یا ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے۔ نظریاتی اختلاف علم کی بنیاد پر کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن جہالت کی بنیاد پر معاشرتی اضطراب پیدا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

بڑے بڑے علماء شیعہ درسگاہوں میں جاتے ہیں، وہاں شیعہ علماء کے  پیچھے نمازیں پڑتے ہیں، سوشل میڈیا پر سینکڑوں ویدیوز اور تصاویر مل جائیں گی، جس میں شیعہ سنی علماء ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کی پرورش ایک خاص قسم کے ماحول میں ہوئی  ہو، جہاں ہر طرف فرقہ واریت تھی، پھر وہ کسی فرقہ وارانہ مدرسے میں چلے گئے اور جب مسجد میں آئے تو فرقہ وارانہ تنظیموں سے وابستہ رہے، ان سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا ہے تو وہ اسی طرح کی انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ چنیوٹ میں اس فرقہ پرست مولوی کو گرفتار کیا گیا اور وہ ضمانت پر رہا ہوگیا، ایسے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہو کر انہیں جیل بھیجنا چاہیئے، تاکہ دوسرے عبرت پکٹریں اور ان لوگوں کی وجہ سے ملک و قوم کی جگ ہنسائی نہ ہو۔ ان جاہلوں کی وجہ سے اسلام دشمن قوتیں اسلام کا مذاق اڑاتی ہیں کہ دیکھو کیسے جاہل لوگ  ہیں، سوشل میڈیا پر ہی دین بیزار لوگوں کے تبصرے اور تجزیے دیکھ لیں تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ فرقہ پرست اسلام کی شاخیں کاٹ رہے ہیں اور اسلام دشمن دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 761378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ندیم صاحب معذرت کے ساتھ شدت پسند افراد اور گروه هر مسلک میں موجود ہیں، لهذا ان افراد اور گروهوں کی هر طرح سے حوصله شکنی کرنا ضروری ہے، چاهے لندنی شیعه نما ہوں یا پهر امریکی اهل سنت نما اور استعمار بهی هماری جهالت سے سوء استفاده کرتا ہے۔ آپ کا شکریه که اس قسم کے موضوعات پر معمولا لکهتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصه قبل مولانا سمیع الحق کے قتل پر آپ نے کالم لکها تو ایک ایسے افراطی شخص نے کمنٹ لکھا، جس پر بهت افسوس هوا!!
ہماری پیشکش