0
Thursday 15 Nov 2018 16:15
مختلف طبقات میں موجود کرپشن کے حوالے سے انوکھی تحریر

بارے ڈاکٹروں کے کچھ بیاں ہو جائے

بارے ڈاکٹروں کے کچھ بیاں ہو جائے
تحریر: ایس این حسینی

ٹی وی چینلز کے بعض پروگرامات نہایت معلوماتی، بعض کافی دلچسپ اور بعض معاشرے کیلئے انتہائی مفید ہوتے ہیں۔ مقصد یہ کہ بعض پروگرامات سے عملی زندگی میں کوئی فائدہ تو نہیں ہوتا، تاہم ان سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے، جبکہ بعض سے انسان اپنی معلومات میں اضافہ کرتا ہے، جبکہ بعض معاشرے کی اصلاح کیلئے نہایت مفید ہوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک پروگرام کا نام "سرعام" ہے۔ جس میں سید اقرار الحسن معاشرے میں موجود غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ اسی سے متاثر ہوکر بندہ بھی معاشرے میں موجود بعض غلطیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کرتا ہے، امید ہے کہ پڑھنے کے بعد قارئین شرف قبولیت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ معاف بھی فرمائیں گے۔

ڈاکٹرز اور انکے عملے پر ایک نظر
ڈاکٹر نام سے کون واقف نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر معاشرے کا ایک اہم و ضروری عنصر اور معاشرے میں ایک اہم رول رکھتا ہے۔ ڈاکٹر نہ ہوتے تو روزانہ لاکھوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے، ماضی میں جب ڈاکٹر نہ تھے یا کم تھے تو ایک معمولی مرض سے مریض ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتا تھا، شرح اموات بہت زیادہ تھی اور اوسط عمر 30 اور 40 کے درمیان رہتی جبکہ آجکل ہر جگہ ڈاکٹروں کی موجودگی کی وجہ سے شرح اموات نہایت کم جبکہ اوسط عمر 70 تا 80 سال ہوچکی ہے۔ ایک اچھا اور دیانتدار ڈاکٹر اپنے مریض کو پورا پورا ٹائم دیتا ہے۔ وہ اپنے مریضوں کو خود ہی دیکھتا ہے، اپنے اسسٹنٹ کسی ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے ملاحظہ نہیں کراتا۔ وہ ٹائم کو ملحوظ نظر رکھ کر روزانہ اتنے ہی مریض دیکھتا ہے، جنہیں وہ مناسب ٹائم دے سکتا ہو۔

مثلاً ایک ڈاکٹر اپنے کلینک کے دو یا تین گھنٹے ٹائم میں 50 مریضوں کو ٹائم دے سکتا ہے۔تو وہ انہی کی فیس یعنی 50 ہزار روپے پر ہی قناعت کرتا ہے، مزید ایک بھی نمبر نہیں لیتا۔ تاہم بعض ایسے ڈاکٹر صاحبان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جو کبھی چھٹی پر ہوتے ہیں، تو بھی اپنے کلینک کو کھلا رکھتے ہیں اور اپنی ٹیم کے درجن بھر عام ایم بی بی ایس ڈاکٹروں میں سے کسی ایک سے معائنہ کروا کر دور دور سے انکے نام پر آنے والے اپنے مریضوں سے 50 تا 70 ہزار روپے بٹور لیتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹر صاحبان کا ایک مفید مشغلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ دو نمبر کمپنیوں سے ٹھیکہ لیکر اپنے مریضوں کو انکی دو نمبر ادویات تجویز کرکے مذکورہ کمپنیوں کو کروڑوں جبکہ خود لاکھوں روپے کما لیتے ہیں۔ ایسی کمپنیاں مذکورہ ڈاکٹروں کو کبھی پرسینٹیج (فیصد) پر نقد منافع، کبھی قیمتی گاڑیوں اور کبھی کسی قیمتی چیز کی صورت میں منافع دیکر ہزاروں غریب مریضوں کا گلا گھونٹنے کی خدمت خلق کرتے ہیں۔
 
پشاوری ڈاکٹر حضرات کا کھیل
میں نے خود اپنی گنہگار آنکھوں سے ایسے درجنوں ڈاکٹروں کو مشاہدہ کیا ہے، جو مذکورہ بالا طریقوں سے اپنے مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر داؤد:
چند سال قبل کا واقعہ ہے کہ بندہ کسی دوست کو چیک اپ کے لئے مشہور ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد داؤد کے پاس لے کر گیا۔ دو تین گھنٹے انتظار کے بعد جب خدا خدا کرکے باری آئی، تو دیکھا کہ اندر داؤد کی جگہ ایک جوان ڈاکٹر براجماں ہیں، جبکہ خود اپنی نظر کی کمزوری کے باعث بندہ اسے تیس سال سے جانتا تھا۔ چنانچہ متوجہ ہوا اور احتجاج کیا کہ ہم تو داؤد کے لئے آئے ہیں، جواب میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب سفر پر ہیں۔ آج ان کی جگہ ان کا بیٹا معائنہ کر رہا ہے۔ بندہ نے معائنے کے لئے منتظر دیگر افراد کو بھی حقیقت سے آگاہ کیا اور خود بھی اپنی راہ لی۔

ماہر امراض چشم ڈاکٹر ظفر اقبال
ڈاکٹر داؤد پر رش کیوجہ سے نمبر نہ ملنے پر ایک مرتبہ ڈاکٹر ظفر اقبال کی طرف رجوع کیا۔ یہاں پہلے تو یہ کہ بندہ کو 53واں نمبر مل گیا، مگر حیرت اس بات پر ہوئی کہ 53 نمبر کے ہوتے ہوئے دیکھا کہ مریضوں کی تعداد بہت کم ہے۔ بندہ نے متعلقہ ذمہ دار فرد سے پوچھا کہ اسکا نمبر کتنے بجے آنے کا امکان ہے۔ انہوں نے ٹائم بتانے کی بجائے انتظار کرنے کا کہا، عرض کیا کہ اگر نمبر لیٹ ہے تو وہ اپنے دیگر امور نمٹا لے، انہوں نے پھر بھی انتظار ہی کا کہا۔ مگر ہوا یوں کہ صرف بیس پچیس منٹ بعد اسکا نمبر آپہنچا۔ نمبر ملنے کے بعد جب اندر گیا تو دیکھا کہ دو تین جوان اسسٹنٹ صاحبان کمپیوٹرائزڈ معائنہ کرنے والی مشینوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور مسلسل مریضوں کا معائنہ کر رہے ہیں۔ بندہ تو پینتیس سال سے آنکھوں کا مریض تھا۔ چنانچہ بلا مضائقہ بولا: خدا کے بندو! باہر خیبر بازار میں آپیٹیکل شاپس میں ایسی ہی مشینوں پر صرف 50 روپے میں معائنہ ہوتا ہے، میں نے شور مچایا اور اپنی فیس واپس مانگی۔ میرے شور مچانے پر وہ گھبرا گئے اور کہا کہ اندر ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہیں، آپ صبر کریں۔ مشین کے بعد آپ کا معائنہ ڈاکٹر صاحب خود بھی کریں گے، مگر میں نے اپنی راہ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 761393
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش