0
Friday 16 Nov 2018 20:46

ایس پی شہید طاہر داوڑ کی پُراسرار شہادت کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟

ایس پی شہید طاہر داوڑ کی پُراسرار شہادت کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟
رپورٹ: ایس علی حیدر

چند روز سے ہر فرد کی زبان پر یہی الفاظ گردش کر رہے ہیں کہ نئے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ایس پی رینک کا آفیسر اغواء ہوتا ہے اور پھر 18 دن بعد اس کی لاش افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے ضلع دربابا کے مقام سے ملتی ہے۔ ہر فرد یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ایس پی رینک کے آفیسر کا اغواء اور بعد ازاں اس کی افغانستان میں شہادت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟؟ یہ حقیقت ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن دوسری جانب دیکھا جائے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے والے خود عدم تحفظ کا شکار ہوں تو اس ملک میں افراتفری بڑھے گی اور ملک کی عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جائے گا۔ ہم بات کر رہے ہیں خیبر پختونخوا کے ایک نڈر اور بہادر آفیسر طاہر داوڑ کی، جن کو طالبان مخالف پولیس آفیسر سمجھا جاتا تھا اور ان پر جنگجووں کی طرف سے دو حملے بھی ہوچکے تھے۔ ان کے کچھ رشتے داروں کو بھی حال ہی میں قتل کیا گیا تھا، لیکن یہ سلسلہ نہ تھم سکا اور متعدد بار دہشتگردوں کے ساتھ مقابلے بھی کئے، جن میں وہ 2 بار شدید زخمی بھی ہوئے۔ ایس پی طاہر داوڑ اپنی بہادری کے بل بوتے پر اے ایس آئی کے عہدے سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایس پی رینک تک پہنچے۔

اب بات کرتے ہیں ایس پی طاہر داوڑ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی، تو یہ 26 اکتوبر کی بات ہے کہ طاہر داوڑ پشاور میں اپنے اہل خانہ اور معصوم بچوں کے ساتھ مل کر مختصر رخصت پر اپنے دوسرے گھر واقعہ اسلام آباد آئے۔ تقریباََ سہ پہر 5 بجے کے قریب طاہر داوڑ اپنے گھر جی 10 پہنچے اور اس کے بعد وہ پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئے۔ یوں وقت گزرتا گیا اور رات گئے جب ان کے اہل خانہ نے ان سے رابطہ کرنے کیلئے فون کیا تو ان کا فون مسلسل بند جا رہا تھا، جس پر ان میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی اور پورے گھرانے میں ہلچل مچ گئی اور طاہر داوڑ کی پراسرار گمشدگی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی۔ گمشدگی کے اگلے ہی روز طاہر داوڑ کا موبائل فون چند لمحوں کیلئے آن ہوا اور اسی موبائل سے ان کی اہلیہ کے نمبر پر میسج موصول ہوا کہ میں ضروری کام کی غرض سے آیا ہوا ہوں، جہاں ہوں خیریت سے ہوں، جلد واپس آؤں گا اور پھر اس کے بعد ان کا موبائل دوبارہ آف ہوگیا۔ ابتدائی طور پر طاہر داوڑ کی لوکیشن جہلم تھی، جس کے بعد ان کا فون مکمل ڈیڈ ہوگیا۔ اس دوران آئی جی پولیس صلاح الدین محسود نے اپنے پولیس آفیسر کی گمشدگی کا سراغ لگانے کیلئے سی سی پی او قاضی جمیل الرحمٰن کی سربراہی میں پولیس ٹیم بھی تشکیل دی، جنہوں نے اسلام آباد جا کر متعلقہ اداروں کے ساتھ ملاقات کی۔

اس دوران اسلام آباد پولیس کے اعلٰی عہدیداروں نے پولیس ٹیم کو اس معاملے پر مکمل پریفنگ دیتے ہوئے ان کی جلد بازیابی کیلئے کی جانے والی کوششوں سے بھی آگاہ کیا۔ پولیس سمیت کئی ادارے ایس پی داوڑ کی بازیابی کے حوالے سے تگ و دو میں مصروف تھے کہ 18 روز بعد میڈیا پر چند تصاویر وائرل ہوئیں، جن پر یہ شبہ کیا جا رہا تھا کہ یہ مغوی طاہر داوڑ کی تصویر ہے۔ ان تصاویر کے منظر عام پر آتے ہی پولیس سمیت دیگر تحقیقاتی اداروں کی دوڑیں لگ گئیں اور مذکورہ تصاویر کی تصدیق کیلئے رابطے شروع کر دیئے گئے اور بتایا گیا کہ ایس پی طاہر داوڑ کی لاش افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے علاقے دربابا سے ملی ہے، جو مقامی افراد نے امانتاََ دفنا دی تھی۔ تصاویر ملنے کے اگلے روز ایس پی رورل ڈویژن پشاور طاہر داوڑ کی کی شہادت کی تصدیق ہوگئی، جبکہ ان کا جسد خاکی طورخم کے مقام پر پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔ پولیس نے اس پورے معاملے میں ایسے کردار ادا کیا، جیسے کہ وہ بالکل بے بس ہوں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں تھا، وہ صرف تسلیاں دیتے رہے۔

واضح رہے کہ مبینہ طور پر نعش کے ساتھ پشتو زبان میں تحریر کردہ ایک خط بھی ملا ہے، جس میں طالبان کی جانب سے طاہر داوڑ کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی گئی، جس طرح کی پشتو اس خط میں لکھی گئی ہے، وہ بہت ہی بچگانہ ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ لکھنے والے نے کبھی پشتو پڑھی یا لکھی ہی نہیں ہے، جس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان کے صوبے ننگرہار میں داعش کی موجودگی ہے، لیکن جس علاقے سے لاش ملی ہے، وہاں داعش موجود نہیں ہے۔ پھر یہ بھی نوٹ کرنے والی بات ہے کہ داعش اپنے خبر رساں ادارے عماق کے ذریعے کسی بھی کارروائی کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن ایس پی طاہر کے قتل کے حوالے سے ایسا کوئی دعویٰ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ وفاقی دارالحکومت سے اغواء ہونے والے اور پھر افغانستان سے ان کی نعش ملنے پر ہر فرد کا یہ سوال ہے کہ اس سارے معاملے کا ذمہ دار کون ہے؟ لیکن اس کا جوب شاید کسی کے پاس نہیں۔

دوسری جانب اس واقعہ سے محکمہ پولیس کا مورال انتہائی ڈاؤن ہوچکا ہے اور پولیس سپاہی سے افسران تک سب میں سخت بے چینی پائی جا رہی ہے اور وہ یہی پوچھ رہے ہیں کہ اس واقعہ کا ذمہ دار خیبر پختونخوا پولیس ہے یا اسلام آباد پولیس؟ اس حوالے سے ٹویٹر پر بھی خوب تبصرے ہو رہے ہیں، جبکہ کچھ تنظیمیں اس قتل کے خلاف مظاہروں کے بھی پروگرام بھی بنا رہی ہیں۔ ٹویٹر پر اے این پی رہنما ایمل ولی خان نے لکھا کہ ’’وزیرِاعظم جواب دو، طاہر داوڑ کا حساب دو۔‘‘ آزاد پشتون قبائل نے لکھا کہ ’’ہم چیئرمین سینیٹ کی اس بات کی مذمت کرتے ہیں، جس میں وہ ایس پی طاہر داوڑ کی فاتحہ خوانی میں حصہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر رہے ہیں کہ یہ تو روز روز ہوگا۔ روز روز ہم یہ نہیں کرسکتے، لیکن جب پشتونوں کے سروں پر ڈالرز لینے کا وقت آتا ہے، تو یہ لوگ بالکل بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دن ہے کہ رات۔
خبر کا کوڈ : 761593
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش