1
Friday 16 Nov 2018 16:41

افغانستان میں طالبان اور داعش کی آنکھ مچولی

افغانستان میں طالبان اور داعش کی آنکھ مچولی
رپورٹ: ایس اے زیدی

افغانستان وہ سرزمین ہے، جو کئی صدیوں سے جنگ و جدل اور افراتفری کا شکار رہی ہے، اگر حالیہ دہائیوں پر نظر دوڑائی جائے تو کچھ عرصہ قبل اس علاقہ پر شدت پسندانہ رجحانات رکھنے والے طالبان حکمران تھے، اس کے بعد امریکہ کا حملہ، پھر القاعدہ کا مرکز افغانستان رہا اور اب داعش کے حوالے سے افغانستان کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ عراق اور شام میں شکست کھانے کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت داعش جیسی دہشتگرد تنظیم کو افغان سرزمین پر لایا گیا، جس کا اہم مقصد اس خطہ میں موجود اہم ممالک چین، ایران اور پھر روس کو ڈسٹرب کرنا تھا، چونکہ امریکہ جان چکا تھا کہ افغانستان میں اس کی موجودگی طالبان اور دیگر جنگجو گروہوں سے شکست کے بعد کوئی معنی نہیں رکھتی۔ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کی جانب سے جان چھڑانے کے فیصلے کے بعد داعش ہی وہ مہرہ تھا، جو یہ استعماری قوتیں اس خطہ میں استعمال کرسکتی تھیں۔ اسی منصوبہ بندی کے تحت داعش کو یہاں لایا گیا اور پھر اس کو مضبوط کرنے کیلئے گراونڈ فراہم کیا گیا۔ اوائل میں داعش اور طالبان جنگجووں کے مابین بھی کئی جھڑپیں ہوئیں، جن میں دونوں جانب سے سینکڑوں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ کیونکہ طالبان جان چکے تھے کہ امریکہ کے بعد اب داعش کی افغانستان میں موجودگی ان کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو داعش کے مقابلہ میں طالبان افغان عوام میں زیادہ مقبولیت رکھتے ہیں، کیونکہ افغانستان میں بسنے والے پختونوں کی ایک بڑی اکثریت طالبان نظریات کی حامی تھی اور ہے۔ پشتون علاقوں میں طالبان کو مشکل ترین حالات میں بھی عوامی تائید اور سپورٹ حاصل رہی ہے۔ افغان امور پر نظر رکھنے والے ایک باوثوق ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے شکست کھانے کے بعد طالبان روز بروز مضبوط ہو رہے ہیں۔ طالبان کی اس مضبوطی کو دیکھتے ہوئے ان قوتوں نے افغانستان میں داعش کو مضبوط کرنے اور عوامی سطح پر مقبول بنانے کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں، جنہیں طالبان، حزب اسلامی اور اس جیسے دیگر افغان گروہوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ دہشتگرد تنظیم داعش نے اب افغانستان میں طالبان کی طرز پر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے بھی اقدامات شروع کر دیئے ہیں، اس تنظیم نے ان علاقوں پر پہلے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا شروع کیا، جہاں کسی زمانے میں طالبان کی حکومت بہت مضبوط ہوا کرتی تھی، جہاں شدت پسندانہ رجحانات رکھنے والوں کی اکثریت ہے یا پھر جو طالبان اور القاعدہ کے اہم کمانڈرز سے منسوب تھے۔

داعش کی جانب سے عوامی مقبولیت اور اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں، ان میں عوامی سطح پر جرگہ اور شرعی عدالتوں کے فیصلے اور مساجد و مدارس پر قبضہ کرکے وہاں سے اپنے نظریات کی ترویج وغیرہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ داعش کی جانب سے مختلف افغان علاقوں میں باقاعدہ اپنے اسکولوں کا قیام بھی شامل ہے۔ ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ افغانستان میں مختلف علاقوں میں باقاعدہ داعش کی جانب سے اسکولوں کا قیام عمل میں لانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے، ان اسکولوں میں بہت ہی چھوٹی عمر کے بچوں کو داخل کیا جا رہا ہے، جن کی عمریں لگ بھگ 10 سال سے کم اور زیادہ سے زیادہ 14 سال ہیں۔ ان اسکولوں میں داعش سے منسلک افراد ان بچوں کی شدت پسندانہ رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے فکری و ایمانی تربیت کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اسلحہ، خودکش حملہ کیلئے جواز اور جہاد جیسے موضوعات بھی پڑھائے جا رہے ہیں۔ داعش اور افغان طالبان کے مابین ابھی بھی کئی مسائل اور اختلافات ہیں، کیونکہ افغان طالبان کی قیادت یہ بات اچھی طرح جان گئی ہے کہ داعش کی افغانستان میں موجودگی ان کی کمک کیلئے نہیں، امریکہ کے عزائم کی تکمیل کیلئے یقینی بنائی گئی ہے۔

عالمی میڈیا پر چلنے والی مختلف خبروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں موجود داعش کے دہشتگردوں کی تعداد لب بھگ 8 سے 10 ہزار ہے، جن میں افغانیوں کی تعداد بہت کم ہے، ان دہشتگردوں میں عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی موجود ہیں تو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں، ازبک، چیچن اور کئی پاکستانی شدت پسند افغانستان میں موجود داعش کا حصہ ہیں، داعش کے افغانستان میں عوامی مقبولیت حاصل نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے، اس کے علاوہ انتہائی شدت پسندانہ رجحانات اور غیر ملکی ایجنڈا کی وجہ سے بھی داعش کو طالبان کے مقابلہ میں مزاحمت کا سامنا ہے۔ یہ خبریں بھی سننے میں آئیں کہ بعض گروہوں کی جانب سے داعش اور طالبان کے مابین ثالثی کی کوشش بھی کی گئی، لیکن یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ماضی کے مقابلہ میں طالبان سمیت دیگر افغان جہادی اور جنگجو گروہوں کے مابین تعلقات کافی بہتر ہیں، رابطوں کی ان بہتری میں جہاں کچھ افغان دوست ممالک نے بھی کردار ادا کیا، وہیں امریکہ کی شکست کے بعد ان گروہوں نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اب افغانستان کے مستقبل کیلئے مل بیٹھا جائے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری ممالک نے ہی ایک بہت بڑی منصوبہ بندی کے تحت داعش کو قائم کیا، عراق اور شام میں لاکھ کوششوں کے باوجود داعش کے ذریعے امریکہ وہ مفادات حاصل نہیں کرسکا، جو وہ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا، پالان بی کے مطابق اس دہشتگرد تنظیم کو افغانستان میں لایا گیا، تاکہ یہاں سے جہاں چین اور ایران کو ڈسٹرب کیا جائے، وہاں پاکستان اور روس کیلئے بھی مشکلات کھڑی کی جائیں۔ افغانستان کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا اختیار افغانستان کے عوام اور اس کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ہونا چاہیئے۔ افغانستان کے معاملات میں کسی نہ کسی طرح افغان طالبان کا تو رول بن سکتا ہے لیکن داعش کا کسی صورت نہیں۔ طالبان سمیت تمام افغان جہادی اور جنگجو گروہوں کو بھی اپنی سابقہ روش اور پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ شدت پسندانہ رجحانات اور قتل و غارت گری سے کسی صورت حکومت نہیں کی جاسکتی۔ پرامن اور مستحکم افغانستان ہی خطہ میں امن کی ضمانت ہے، اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک کو افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے کابل کی سپورٹ کرنا ہوگی، تاکہ عالمی دہشتگرد تنظیم داعش کو باہر کرکے اس خطہ میں پائیدار امن کی بنیاد رکھی جائے۔
خبر کا کوڈ : 761594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش