2
1
Saturday 17 Nov 2018 15:22

پاکستانی فٹبال ٹیم فلسطین کیسے پہنچی

پاکستانی فٹبال ٹیم فلسطین کیسے پہنچی
تحریر: آئی اے خان
 
پاکستانی فٹبال ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کا شمار ان گنے چنے خوش نصیب پاکستانیوں میں ہوتا ہے کہ جنہیں مسجد اقصیٰ یعنی قبلہ اول میں نماز جمعہ ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ پاکستان کی قومی فٹبال ٹیم اس وقت مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں موجود ہے۔ فلسطین کے ساتھ دوستانہ فٹبال میچ کھیلنے کیلئے پاکستانی فٹبال ٹیم فلسطین گئی۔ قومی فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں اور دیگر آفیشلز نے قبلہ اول میں نماز جمعہ ادا کی ادائیگی کے بعد وہاں اپنی خصوصی تصاویر بنوائیں جو کہ اس وقت سوشل میڈیا پہ تیزی کے ساتھ وائرل ہوکر زیر بحث ہیں۔ پاکستانی فٹبال ٹیم کی قیادت صدام حسین کے پاس ہے جبکہ کھلاڑیوں میں یوسف اعجاز بٹ، احسان اللہ، عمر حیات، ارسلان علی، نوید احمد، ذیشان رحمان، مہدی حسن، یعقوب اعجاز بٹ، عدنان یعقوب، عمیر علی، حسن بشیر، محمد علی، محمود خان، نوید رحمان اور منصور جب کہ آفیشلز میں ہیڈ کوچ جوز اینٹونیو، معاون کوچ محمد حبیب، ٹرینر جوز روبرٹو اور محمد عدنان شامل ہیں۔ پاکستان ٹیم اس وقت فیفا میں 199 نمبر پہ جبکہ فلسطین کی ٹیم 159 نمبر پہ موجود ہے۔ دونوں ٹیمیں اس سے قبل بھی آپس میں متعدد میچز کھیل چکی ہیں، تاہم اب تک کے تمام میچز میں فلسطینی ٹیم کا پلڑا رہا۔ رام اللہ میں ہونے والے اس دوستانہ میچ میں پاکستانی ٹیم نے میچ کے آغاز میں انتہائی عمدہ کھیل پیش کیا اور 17ویں منٹ میں کپتان صدام حسین کے خوبصورت پاس پر حسن بشیر کے ذریعے گول کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بعد ازاں فلسطینی ٹیم نے عمدہ کم بیک کیا اور پہلا ہاف ختم ہونے سے چند منٹ قبل مقابلہ 1-1 گول سے برابر کرنے میں کامیاب ہو گئی، یہ گول الیکسز نے کیا۔ دوسرے ہاف میں دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی، اس جدوجہد میں فلسطین کی ٹیم 76ویں منٹ میں ناظمی البداوی کے ذریعے دوسرا گول کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ میچ کے بعد فلسطین کے صدر محمود عباس کی طرف سے پاکستان فٹبال ٹیم کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں صدر محمود عباس نے گرین شرٹس کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور فلسطین کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

پاکستانی ٹیم کے دورہ فلسطین بالخصوص قبلہ اول میں ادائیگی نماز کی تصاویر جاری ہونے کے بعد سے بیشتر پاکستانی انٹرنیٹ کے ذریعے فلسطین کے ویزہ فارم اور شرائط نامہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ فلسطین گرچہ ہمارے مطابق ایک ملک، ایک خطہ ہے، ایک ریاست ہے تاہم اس وقت فلسطین مقبوضہ ہے، جس پہ اسرائیل نامی ناجائز اور غیرقانونی قوت قابض ہے، لامحالہ بین الاقوامی مروجہ قوانین و ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے فلسطین جانے کیلئے اسرائیلی شرائط کی پابندی اور ویزہ کا حصول ضروری ہے۔ پاکستان کے تمام پاسپورٹس (سبز،سرخ اور نیلے) پہ واضح طور پریہ عبارت درج ہوتی ہے کہ ’’یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل کے تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے‘‘، یعنی پاکستانی پاسپورٹ اسرائیلی ویزے کیلئے درخواست دہندہ نہیں ہوسکتا، جب اپلائی ہی نہیں کیا جاسکتا تو اسرائیلی ویزہ جاری بھی نہیں ہو سکتا، چنانچہ اگر ویزہ جاری نہیں ہو سکتا تو بین الاقوامی پرواز کے ذریعے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) میں داخلہ ممکن ہی نہیں۔ دوسری جانب فلسطین میں داخلے کے ممکنہ طور پر تین سے چار راستے ہیں۔ ایک تو فضائی راستہ ہے کہاسرائیل کے مختلف بین الاقوامی ائیرپورٹس کا ہے ۔ اس کے علاوہ فلسطین میں داخلے کے تین ممکنہ راستے ہیں ۔ مصر،اردن، لبنان۔ ان راستوں سے صحیح سلامت فلسطین میں داخل ہونے کے امکانات آج کل کافی کم ہیں۔ گرچہ پاکستانی فٹبا ل ٹیم کو قبلہ اول میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا ہے، جو کہ بیشتر فلسطینیوں کو بھی حاصل نہیں ہوپاتا اور عمومی طور پر نماز جمعہ کیلئے مسجد اقصیٰ فلسطینیوں کیلئے بھی بند کردی جاتی ہے۔ پاکستانی فٹبال ٹیم کے مکمل سکواڈ کا سرکاری طور پر فلسطین میں صحیح سلامت پہنچنا، رام اللہ میں فلسطینی فٹبال ٹیم کے خلاف میچ کھیلنا،بعدازاں قبلہ اول میں نماز ادا کرنا اور آخر میں فلسطینی صدر محمود عباس کے عشائیہ میں شریک ہونا یقیناًاچنبھے کی بات ہے۔ 
 
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور فلسطین کے مابین یہ فٹبال میچ 15نومبر کو کھیلا جانا تھا مگر پاکستانی ٹیم کو بروقت ویزہ جاری نہیں ہوئے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ پوری کی پوری پاکستانی فٹبال ٹیم دہری شہریت کی حامل تو نہیں کہ کسی اور ملک کے پاسپورٹ پہ اسرائیلی ویزہ جاری کیا گیا ہو، ظاہر ہے ویزہ کیلئے پاکستانی پاسپورٹ کا ہی استعمال کیا گیا ہوگا۔ چونکہ پاسپورٹ پہ اسرائیل کے خلاف واضح طور پر عبارت درج ہے تو اس کیلئے مروجہ طریقہ کار سے ہٹ کر طریقہ اپنایا گیا ہوگا، جس میں وزارت خارجہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ وزارت خارجہ نے تکنیکی اعتبار سے چاہے کوئی بھی راستہ اختیار کیا ہو، کیا وہ راستہ پاسپورٹ پہ درج عبارت، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بنیادی موقف اور آئین و قانون سے متصادم نہیں ہوگا۔؟ ایک صاحب دانش بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں کہ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں کے لیے کھلاڑیوں کے ویزہ جات کا طریقہ کار ذرا مختلف ہوتا ہے۔ اس میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ ممالک اور ریاستوں کے مابین تنازعات کے باوجود بھی کھلاڑی کیلئے راستہ کھلا ہو۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ کئی مرتبہ ہماری کبڈی ٹیم کو بھارت نے بروقت ویزے جاری نہیں کئے ، جس کی وجہ وہ مقررہ وقت پہ میچ نہیں کھیل پائی، حالانکہ یہ میچز ٹورنامنٹ کے تھے جن میں خطے کی چند اور ٹیمیں بھی شامل تھیں، لہذا یہ دلیل کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ کھلاڑیوں کیلئے ویزہ کا عمل کوئی مختلف ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان اور فلسطین کے مابین یہ ایک روزہ میچ نہ کسی بین الاقومی ٹورنامنٹ یا سیریز کا حصہ تھا اور نہ کھیلوں کی کسی عالمی تنظیم کے زیراہتمام کوئی رینکنگ مقابلہ تھا، بلکہ دونوں کے درمیان یہ ایک دوستانہ میچ تھا۔
 
پاکستانی فٹبال ٹیم نے فلسطین کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب چند روز قبل ہی پی ٹی آئی کی عاصمہ حدید نے قومی اسمبلی میں بنا لگی لپٹی کے فلسطین کو اسرائیل کا ملک قرار دیا اور کہا کہ صہیونی مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل سے تعلقات کیلئے کوئی راہ نکالنے کی ضرورت پہ زور دیا۔ اس سے قبل معروف تجزیہ کار ہارون الرشید نے میڈیا پہ بتایا کہ امریکی سفارتخانے میں اسرائیل کا ایک بندہ موجود ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں ہماری حکومت کو پتہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد ائیرپورٹ پہ اسرائیلی جہاز کی لینڈنگ کی افواہ بھی میڈیا کی زینت بنی رہی۔ اس مد میں مذہبی جماعتیں اور عوامی حلقے پہلے ہی حکومت کو باربار متنبہ کررہے ہیں کہ اسرائیل سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے سے باز رہے۔ پاکستان اور فلسطین کی ٹیموں کے مابین فٹبال میچ قابل اعتراض نہیں بلکہ باعث اطمینان ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان میچز میں کھلاڑیوں کی ٹھوکروں میں فٹبال ہی ہونا چاہیئے۔ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات، بانی پاکستان کا دوٹوک موقف اور پاکستان کا آئین و قانون ہرگز ہرگز نہیں ہونے چاہیءں۔

پاکستانی فٹبال ٹیم کا حالیہ دورہ اس لحاظ سے باعث تشویش ہے کہ فلسطین میں داخلے کیلئے دفتر خارجہ نے کیا طریقہ کار اپنایا، اسرائیل کو کیسے راضی کیا اور ویزوں کے اجرا کیلئے کیا قیمت ادا کی گئی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان اور فلسطینی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور قیام پاکستان سے لیکر تاحال پاکستان نے عالمی سطح پہ کبھی بھی مسئلہ فلسطین سے عربوں یا دیگر چند اسلامی ممالک کی طریقہ مجرمانہ چشم پوشی نہیں برتی بلکہ ہمیشہ ہی مقدمہ فلسطین کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا ۔ تمام تر مسلکی، سیاسی، لسانی یا گروہی اختلافات کے باوجود مسئلہ فلسطین پہ اہلیان پاکستان ہمیشہ ہی ایک صفحہ پہ دیکھائی دیئے۔ اگر کبھی خائن حکمرانوں نے پاکستان کے اس اصولی موقف سے خیانت کی کوشش بھی کی تو عوامی ردعمل کے سامنے یہ حکمران بے بس رہے،یہاں تک دور آمریت میں بھی اسرائیل سے تعلقات بنانے یا بڑھانے کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت جو کہ پہلے ہی اپنے وعدوں اور موقف سے انحراف کے باعث شدید دباو کا شکار ہے، خود کو مزید کسی امتحان میں نہ ڈالے ۔ یادر رہے کہ اسرائیل کے خلاف واضح اور دوٹوک موقف رکھنے کیلئے حسن نصراللہ، امام خمینی یا آیت اللہ خامنہ ای کا پیروکار ہونا ضروری نہیں بلکہ تمام عوامی، سیاسی اور مذہبی جماعتیں آزاد فلسطین کی سرزمین پہ ناجائز اورقابض اسرائیل کے وجود کی ہی مخالف ہیں۔اس مخالفت کو حمایت میں بدلنے کی کوئی بھی کوشش سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگی۔ دفتر خارجہ، وزارت کھیل اور وزیراعظم ہاوس کو فٹبال ٹیم کے دورہ فلسطین بارے وضاحت جاری کرنی چاہیے، یہ وضاحت فلسطینی عوام کے دلوں میں پاکستان کا وقار مزید بلند کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 761759
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Europe
اس وقت توہین رسالت کا مسئلہ بھی جان بوجھ کر کھڑا کیا گیا ہے، تاکہ بےوقوف عوام کی توجہ اسرائیل کا مسئلہ ثانوی حیثیت و غیر اہم باور کرایا جاسکے۔ مولوی حضرات بھی اس سازش میں ملوث ہیں اور توھین رسالت کا شور طوفاں مچا کر حکومت کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ظاہرالقادری کی اس وقت آمد بھی قابل توجہ ہے۔
Pakistan
انفرادی و اجتماعی سطح پہ وزارت خارجہ سے وضاحت مانگنی چاہیئے، مجلس وحدت کے وفد کی وزیر خارجہ سے ملاقات اس میچ سے پہلے ہوئی تھی، اگر یہ ملاقات میچ کے بعد ہوتی تو شائد مجلس وحدت مسلمین ضرور اس مسئلہ پہ بات کرتی، ویسے اگر اب بھی کرے تو کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیئے۔
ہماری پیشکش